مہر و مہ وانجم کا محاسب ہے قلندرؒ
ایام کا مرکب نہیں، راکب ہے قلندرؒ
(شاعر مشرق علامہ اقبالؔ ، ضرب کلیم)
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ کا نام سید عثمان مروندی ہے۔ آپ صوفی، شاعر، فلسفی
اور قلندر کے مرتبہ پر فائز تھے۔ آپ کا صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا۔ آپ کے
والد سید ابرہیم کبیر الدین افغانستان کے ایک درویش صفت انسان تھے۔ آپ کا
سلسلہ نسب امام جعفر صادقؓ سے جا ملتا ہے۔ آپ کے خاندان نے عراق سے مشہد
المقدس (ایران) ہجرت کی بعد میں یہ خاندان ایران سے افغانستان منتقل ہوا
اور افغانستان کے علاقے مروند کو آباد کیا۔اسی حوالے سے آپ مروندی کہلائے۔
حضرت لعل شہباز قلند آذربائی جان کے علاقے ’مروند‘ میں 538 ھ مطابق 1143ء
میں پیدا ہوئے۔ آپ کا لقب ’لعل‘ یا ’لال‘ یعنی سرخ کی وجہ تسمیہ یہ بیان کی
جاتی ہے کہ آپ کے چہرہ انور پر سرخ رنگ کے قیمتی پتھر ’لعل‘ کی مانند سرخ
کرنیں پھوٹتی تھیں اس مناسبت سے آپ کا لقب ’لعل‘ ہوا۔ جب کہ شہباز سے مراد
ولایت والا کے ہیں۔آپ صوفی درویش تھے اور اپنے جیسے درویش صفت بزرگوں کی
صحبت میں رہا کرتے۔ سندھ میں آپ کی آمد حضرت بو علی قلندرؒ کے کہنے پر ہوئی۔
حضرت لعل شہباز قلندحضرت بہاء الدین زکریا ملتانی ؒ کے مرید اور خلیفہ
تھے۔ان کے ہم عصر بزرگ اولیاء میں شیخ فرید الدین شکر گنج ؒ ، شمس تبریزی ؒ
، جلال الدین رومی ؒ اور سید جلال الدین سرخ بخاری ؒ شامل ہیں۔ آپ نے اپنی
زندگی میں غزنوی اور غوری خاندانوں کی سلطنتوں کا مشاہدہ کیا۔ آپ کو فارسی،
عربی، ترکی، سندھی اور سنسکرت پر عبور حاصل تھا۔ آپ روحانیت کے اعلیٰ درجہ
پر فائز تھے۔ سادگی پسند، سادہ زندگی گزارتے، جب چلا کرتے تو اپنی گردن کو
نیچے کی جانب رکھا کرتے۔آپ کا لباس سادہ لیکن سرخ ہو اکرتا تھا آپ کو سرخ
لباس کی مناسبت سے لوگ آپ کو لعل کے نام سے یاد کیا کرنے لگے۔ آپ کو جھولے
لال بھی کہا جاتا تھا۔ حضرت لعل شہباز قلندؒ کا وصال 21شعبان 673ھ ،مطابق
1276ء کو ہوا،سندھ کے شہر سہون شریف میں مدفون ہوئے۔ آپ کے مزارِ مبارک کی
تعمیر 1356ء میں ہوئی ۔ آپ کا عرس ہر سال 18 شعبان المعظم کو انتہائی عقیدت
سے منایا جاتا ہے جس میں لاکھوں عقیدت مند شریک ہوتے ہیں۔
17 فروری 2017کو دہشت گردوں نے سہون شریف میں موجود حضرت لعل شہباز قلندر ؒ
کے مزار پر حملہ کیا جس میں88افراد اپنی جان سے گئے تھے۔مزار پر دہشت گردی
کے حوالے سے راقم نے ایک تفصیلی کالم اسی وقت تحریر کیا تھا جو ہماری ویب
پر آن لائن ہے۔
حضرت لعل شہباز قلندر ؒ عربی اور فارسی پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ان کی
فارسی میں ایک غزل ’نمی دانم‘ بہت مشہور ہے جس کی ردیف ’’می رقصم‘‘ ہے۔ یہ
غزل نصرت فتح علی خان نے قوالی کے طور پر پیش کی تھی۔ اس غزل کا اردو ترجمہ
کئی لوگوں نے کیا ذیل میں ڈاکٹر فاطمہ حسن کا کیا ہوا ترجمہ ذیل میں درج ہے
۔ اس کے علاوہ بھی لعل شہباز قلندر ؒ کا بے شمار کلام فارسی زبان میں ہے
بہت مشہور ہے خاص طور پر ان کے بے شمار غزلیں قوالوں کی زبان پر ہیں۔
نہیں معلوم کیوں آخر دم دیدار رقصاں ہوں
مگر ہے ناز ہر صورت بہ پیش یار رقصاں ہوں
تو ہو نغمہ سرا ہر دم میں ہر اک بار رقصاں ہوں
تری خاطر میں ہر اک طرز پر اے یار رقصاں ہوں
تو وہ قاتل کہ جو ہر بہر تماشا خون کرتا ہے
میں وہ بسمل کہ زیر خنجر خون خوار رقصاں ہوں
مری جاں آتماشا دیکھ جانبازوں کے مجموعے میں
ردا رسوائی کی اوڑھے سربازار رقصاں ہوں
اگر چے قطرہ شبنم نہیں رکتا ہے کانٹے پر
میں وی قطری ہوں شبنم کا بہ نوکِ خار رقصاں ہوں
میں ہوں عثمان مروندی کہ ہے منصور سے یاری
ملامت خلق کر لے میں سوئے دار رقصاں ہوں |