دیگر کتاب میلے!

 اسلام آباد میں منعقد ہونے والا کتاب میلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا ہے، میلے کی جھلکیاں تو اس کے انعقاد سے قبل ہی اخباری اشتہارات سے سامنے آچکی تھیں، یعنی اندازہ ہوگیا تھا کہ کتاب میلہ واقعی ’’میلہ‘‘ ہوگا۔ میلے کے بعد آنے والی خبروں اور شرکاء کے تاثرات سے سب اس بات کا اندازہ بھی ہوگیا کہ جو اندازے پہلے لگائے گئے تھے، وہ غلط نہ تھے۔ کتابوں کے سیکڑوں سٹال، لاکھوں افراد کا وہاں آنا، ہزاروں کا کتابیں خریدنا، ماحول سے لطف اندوز ہونا، وہ برپا ہونے والی تقریبات میں شرکت کرنا، اس بات کی دلیل تھی کہ کتاب سے لوگوں کی محبت موجود ہے، (بس ذرا توجہ انٹرنیٹ اور دیگر مصروفیات کی طرف کچھ زیادہ چلی جاتی ہے)۔ اس میلے کے بارے میں کالم نگاروں نے بھی تاثرات بیان کر کے اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ خبروں، تبصروں اور کالموں وغیرہ سے مجموعی تاثر خوشگوار ہی ابھرا، ہر طرف سے اس عمل کی تعریف ہی بیان کی گئی، تنقید کرنے والے بھی توصیف ہی کرتے دکھائی دیئے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ کام اور بندوبست ہی کچھ ایسا تھا۔ کتاب میلہ میں یقینا بہت سے لوگوں کو سرکاری طور پر دعوت بھی دی گئی، بہت سے لوگ تو کتابوں کے سفیر مقرر تھے، عام شہروں سے بھی بہت سے لوگ حسبِ توفیق اسلام آباد پہنچے۔

یہ مایوسی اپنی جگہ ہے کہ پاکستان میں کتب بینی کی روایت زوال پذیر ہے، کتاب سے دلچسپی کے عمل کو فروغ نہیں دیا جاسکا۔ کتاب پڑھنے کا باقاعدہ بندوبست اور ماحول نہیں بنایا جاسکا، ادبی کتب کی دکانوں کو چلانا بھی دل جگرے کی بات ہے، کیونکہ یہ کاروبار زیادہ فائدہ مند نہیں۔لائبریریوں کی کمی ہے، چند بڑی لائبریریوں کے علاوہ چھوٹے پیمانے پر یہ اہتمام ہی نہیں،بڑے کتب خانوں میں بھی قاری خال خال ہی دکھائے دیتے ہیں۔ پڑھنے والے تو پہلے ہی کم تھے، رہی سہی کسر موبائل اورا نٹر نیٹ نے پوری کردی ہے۔ انٹرنیٹ کوایک اہم ضرورت قرار دیا جاسکتا ہے، مگر اپنے ہاں بدقسمتی سے اس کا استعمال زیادہ تر غیر ضروری کیا جاتا ہے۔ نوجواں نسل جو ہر وقت موبائل اور لیپ ٹاپ تھامے مصروفِ عمل دکھائی دیتے ہیں، وہ کوئی تحقیقی کام نہیں کر رہے ہوتے، یا کوئی سائنسی منصوبہ کی تکمیل نہیں کر رہے ہوتے، یا کوئی سماجی پراجیکٹ مکمل نہیں کر رہے ہوتے۔ بلکہ زیادہ تر یہ ہوتا ہے کہ فیس بک کی رونق بڑھائی جارہی ہوتی ہے، جس سے معلومات کم اور فضولیات کو زیادہ وقت دیا جاتا ہے، خودنمائی کی روایت اس قدر فروغ پذیر ہے کہ یار لوگ ہر ہر لمحے کی روداد فیس بک پر ڈالنا چاہتے ہیں، اور فضول مباحث میں وقت ضائع کرتے رہتے ہیں۔خیر انٹر نیٹ کی اس قدر خامیاں مناسب نہیں لگتیں، گزشتہ روز خادمِ پنجاب نے اپنے صوبے کے پانچ بڑے شہروں میں مفت انٹرنیٹ کی سہولت جاری کردی ہے، وائی فائی کا یہ نظام مختلف مقامات تک محدود ہوگا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ جو لوگ نیٹ پر مصروف رہتے ہیں، اگر اُن کے پاس یہ مصروفیت نہ ہوتی تو ضروری نہیں تھا کہ وہ اس وقت میں کتاب کا ہی مطالعہ کرتے۔

اسلام آباد میں ہونے والے کتاب میلے کے کامیاب انعقاد سے یہ خیال (او ر کسی حد تک مطالبہ) بھی زور پکڑ رہا ہے کہ اس کارِ خیر کا دائرہ دیگر بڑے شہروں تک بھی پھیلایا جانا چاہیے۔ پہلے تو صوبائی دارالحکومتوں میں یہ میلے سجائے جا سکتے ہیں، اس کے بعد ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز پر ان کا انعقاد کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لئے مرکزی یا صوبائی حکومتوں کی مدد اور سرپرستی تو یقینا درکار ہوگی، مگر ہاتھ پاؤں وہاں کی انتظامیہ اور خود ادیبوں کو بھی ہلانے پڑیں گے۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن بھی اس قسم کی منصوبہ کر کے اسے عملی جامہ پہنا سکتی ہے۔ مقامی سطح پر بھی صلاحیتوں کی کمی نہیں ہوتی، مگر پریشانی یہ ہوتی ہے کہ اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا، بلکہ یہ ستم بھی ڈھایا جاتا ہے کہ اگر چھوٹے علاقے سے کسی نے کوئی کتاب لکھ بھی دی تو بڑے ادیبوں کی طرف سے ان کی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی، نہ ہی بڑے شہروں میں ا ن کوکوئی پذیرائی ملتی ہے۔ اول تو اسلام آباد یا دیگر صوبائی دارالحکومتوں میں ہونے والے کتاب میلوں میں مقامی لوگوں کی شرکت کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، انہیں مرکزی دھارے میں لانے کے لئے سہولیات بہم پہنچائی جانی چاہیئں۔ دوسری صورت میں جب مقامی سطح پرایسا میلہ منعقد ہو تو بڑے ادیبوں کی وہاں آمد کو یقینی بنایا جائے۔ تاکہ آخری مسافروں کو یہ احساس ضرور رہے کہ وہ بھی اسی قافلے کے ساتھی ہیں۔

muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472400 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.