مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا

محمد میاں مالیگ [لندن]

خالق کائنات اﷲ جل مجدہٗ نے قرآن کریم میں (مفہوم) ’’مومنین کو ناموں کے بگاڑنے سے واضح لفظوں میں منع فرمایا‘‘ (۴۹/۱۱) بلکہ اپنے برگزیدہ نوری بشروں کے ذو معانی ناموں اور خطابات میں سے مذموم معانی اختیار کرنے اور اچھے معانی سے صرفِ نظر کرنے سے بھی منع فرمایا بلکہ حضور سیدالبشر صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے سلسلے میں تو جن کے قدموں کی دھول کے برابر بھی اب کوئی نہیں بن سکتا، ہرگز نہیں بن سکتا، بالکل نہیں بن سکتا۔ ان حضرات خلفائے راشدین، امہات المومنین، عشرۂ مبشرہ، اصحاب بدر و احد حتیٰ کہ تمام صحابائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان کو متنبہ فرمایا کہ (مفہوم) ’’مومنو! تم تو میرے رسول کو بلا شبہہ نیک نیتی سے…… راعنا یا رسول اللّٰہ…… کہہ کر مخاطب کرتے ہو لیکن منکرین فضائل رسالت بھی چوں کہ اب…… راعنا…… کے ذو معانی ہونے کے سبب اس کے ایک مذموم معنی کے بل بوتے پر ہنسی مذاق بلکہ توہین و تنقیص کی نیت سے رسول کے لیے اس لفظ کو استعمال کرنے لگے ہیں لہٰذا کسے باشد اب آئندہ کوئی خلیفۂ راشد یا ام المومنین یا مبشر بالجنت یا صحابی بدر و احد یا صحابی رسول میرے محبوب کے لیے ……راعنا…… کا لفظ ہرگز ہرگز استعمال نہ کرے ورنہ منکرین فضائل رسالت کافروں کی طرح اسے بھی عذاب الیم کا شکار ہونا پڑجائے گا۔‘‘ (۲/۱۰۴)

ایسے ہی ایک حدیث قدسی میں اﷲ رب العزت جل جلالہٗ نے ارشاد فرمایا کہ (مفہوم) ’’جو بشر میرے کسی ولی سے دشمنی رکھے گا وہ مجھ سے جنگ کے لیے تیار ہو جائے‘‘…… بلکہ خالق کائنات جل جلالہٗ کے یہاں تو اﷲ کے سوہنے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی یہ شان ہے کہ حضرات خلفائے راشدین یا امہات المومنین یا عشرۂ مبشرہ یا اصحاب بدر و احد یا صحابائے کرام علیہم الرحمۃوالرضوان میں سے کوئی بھی بشر رسول محترم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی موجودگی میں اگر اتنی اونچی آواز سے تو تو میں میں کر لے جتنی اونچی آواز سے ان کی عدم موجودگی میں اپنے جیسے معمولی بشروں کے ساتھ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کی ساری نمازوں، تمام حجوں، سارے روزوں اور تمام زکوٰتوں حتیٰ کہ ایک ایک نیک عمل کو نیست و نابود کر دے گا نسیاً منسیا کر دے گا اور اسے پتہ بھی کچھ نہ چلے گا۔‘‘(۴۹/۲)…… تو اﷲ کے دربار میں تو اﷲ کے نیک بشروں کی یہ قدر و منزلت قرآن و احادیث سے ثابت ہے، لیکن کتنے بڑے ماتم کا ہے یہ مقام کہ موجودہ دور کے منکرین فضائل رسالت ان برگزیدہ بشروں کو اپنے جیسا معمولی بشر قرار دے کر علامہ اقبالؔ کے تجزیے کے مطابق یہود و نصاریٰ کی شہ پر خوب خوب ان کی تنقیص و توہین کرنے لگے ہیں اور خدا کا ذرہ برابر بھی خوف نہیں کرتے……

وہ چھٹی صدی ہجری تھی اور ابھی تک ہندوستان میں ناریوں کا دور تھا دل جل رہا تھا نور کا…… ایسے میں اﷲ کے رسول صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اور شیخ عبدالقادر جیلانی بغدادی رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ کے اشارے پر ’’سنجر‘‘ کے ایک سید معین الدین اجمیری یہاں تشریف لائے، اور شرک و بدعات میں ڈوبے اس خطۂ زمین کو ’’بقعۂ نور‘‘ بنا گئے، ہزاروں منکرین فضائل رسالت آپ کے دست حق پر مومن فضائل رسالت بنے اور آج بر صغیر پاک و ہند و بنگلہ دیش میں جتنے بھی مومنین ہیں اکثر و بیشتر انھیں کے مرہونِ منت اور اولادوں کی اولاد ہیں۔ لیکن کیا بتائیں کہ گزشتہ دنوں یا بارہ برس پہلے ہی سہی اسی ہندوستان کے ایک بد بخت منکر فضائل رسالت سید معراج ربانی نے سید معین الدین اجمیری سنجری کے نام کے ایک ذو معانی اہم جز……خواجہ…… کی آڑ میں اپنے بلکہ پورے بر صغیر کے ان بہت بڑے محسن رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہ کو جی بھر کر کوسا اور خوب خوب جلی کٹی سنائیں،ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ہند کے راجہ سرکار خواجہ کا کیا قصور اور کون سا جرم تھا جو یہ محروم القسمت دشمنِ اولیا منکر فضائل رسالت ان کا اتنا بڑا دشمن بن بیٹھا ہے، حالاں کہ احسان کا بدلا احسان ہوتا ہے (۵۵/۶۰) اندریں حالات ’’ہماری دعوت کا اصل محور قرآن و سنت کی دعوت ہے‘‘ کے برائے نام مدعی، اﷲ کے ایک سچے ولی کے بلا وجہ ہی دشمن بن بیٹھنے والے اس منکر فضائل رسالت کے خلاف کیاہم یہ دعا کرنے میں حق بہ جانب نہیں؟ کہ اے اﷲ! اس دشمن ولایت اور منکر فضائل رسالت کو بھی پاکستان کے اس دشمن ولایت اور منکر فضائل رسالت غلام اﷲ کی طرح ایسی عبرت ناک سزا عنایت فرما کہ یہ بھی کہیں منھ دکھانے کے قابل نہ رہے اور اس کے بدن میں بھی اتنا تعفن بلکہ اتنے کیڑے پیدا ہو جائیں کہ اس کے بیوی بچے اور ماں باپ بھی اسے در در کرنے لگ جائیں، اور پھر ہم مومنین فضائل رسالت جناب غوث کے فرستادہ ہند کے خواجہ رحمۃاﷲ تعالیٰ علیہما کے دشمن پر برسنے والے تیرے کوڑۂ لعنت کی روشنی میں کہہ سکیں کہ:
الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا
مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا

واضح ہو کہ ہندوستان کے انگلش وائسرائے لارڈ کرزن نے خواجۂ اجمیر کی ولایت کے بارے میں لندن کی ایک میٹنگ میں کہا تھا کہ (مفہوم) ’’میں نے ہندوستان میں ایک قبر کو سارے ہندوستان پر حکومت کرتے دیکھا ہے۔‘‘…… الفضل ما شھدت بہ الاعداء ع
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
فقط: محمد میاں مالیگ، مالیگاؤں

Ghulam Mustafa Rizvi
About the Author: Ghulam Mustafa Rizvi Read More Articles by Ghulam Mustafa Rizvi: 277 Articles with 255150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.