رمضان المبارک کااستقبال اور فضیلت !!

 ماہ رمضان المبارک کی آمد آمد ہے،انشاء اﷲ ایک ہفتے بعد نیکیوں کاموسمِ بہاریعنی ماہِ رمضان المبارک ہم مسلمانوں پر سایہ فگن ہونے والا ہے، معلوم نہیں کس کو نصب ہوتا ہیں ؟رمضان اﷲ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایتوں والا مہینہ ہے ، رمضان المبارک میں اﷲ تعالیٰ انسان کو قسم در قسم انعامات سے نواز تے ہے ۔ رمضان المبارک میں روزہ ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہوجاتا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے مہمان بن کر آتا ہے اور اس کا اکرام کرنے والے اور قدر دانی کرنے والے کو انعامات الہی سے نواز کر جاتا ہے،اسی لئے اس مہینہ کی آمد کا انتظار ہر مسلمان کو رہتا ہے،اور جس کی آمد سے ہر مسلمان کو بے پناہ خوشی ومسرت مُیسر ہوتی ہے اس مہینہ کا انتظار خود نبی محترم ﷺ کو بھی رہتا تھااور آپﷺ رجب کے مہینہ سے اپنی دعاؤں میں اس کا اضافہ فرماتے تھے کہ: اﷲم بارک لنا فی رجب و شعبان وبلغنا رمضان۔(مسند احمد:2257)یعنی اے اﷲ!ہمارے لئے رجب وشعبان میں برکت عطا فرمایااور رمضان کے مہینہ تک ہمیں پہنچا۔

ماہ مبارک ہزاروں برکتوں اور سعادتوں کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہم پر سایہ فگن ہو رہا ہے۔ ہر بندہ مومن اپنی اپنی استعداد اور قوت کے مطابق اس مبارک مہینہ کی برکتوں سے فائدہ اٹھائے۔رمضان کی برکتوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے سب سے اہم اور ضروری کام یہ ہے کہ گزشتہ زندگی کی ساری کوتاہیوں، لغزشوں، گناہوں سے توبہ کرلی جائے، ظاہر و باطن کو خوب پاک و صاف کرکے رمضان المبارک کا استقبال کیا جائے۔اﷲ تعالی نے سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا ’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بنو (تقوی اختیار کرو)

رمضان المبارک کی آمد سے قبل اور رمضان عبادات کے پیشِ نظر آپ ﷺ شعبان کے مہینہ میں عبادتوں کا اہتمام دیگر مہینوں کے مقابلے میں زیادہ فرماتے اور رمضان المبارک کی تیاری کا عملی نمونہ پیش کرتے۔نبی محترم ﷺ نے اس مہینہ کی عظمت اور اہمیت ہی کی بنیاد پر اس کی آمد سے پہلے شعبان کے آخری ایام میں حضرات صحابہ کرامؓ کوجمع فرماکر اس کی فضیلت بیان کیا اور اس کی خصوصیتوں کو بیان فرمایا،اور ایک عظیم الشان خطبہ دے کر اس کی اہمیت اور عظمت کو اجاگر کیا۔ خطبہ نبوی ﷺ: حضرت سلمان فارسیؓ روایت کرتے ہیں کہ:شعبان کی آخری تاریخ کو نبی محترم ﷺ نے ہمیں ایک خطبہ دیا اور اس میں فرمایا:اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہورہا ہے اس مہینے میں ایک رات ہے (شبِ قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے کے روزے اﷲ تعالی نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں قیام (تراویح) کو غیر فرض (یعنی سنت) کیا،جو شخص اس مبارک مہینے میں اﷲ کی رضااور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت کرے گا تو اس کا ثواب دوسرے زمانے کی فرض نیکی کے برابر ملے گا اور اس مہینے میں فر ض نیکی کا ثواب دوسرے زمانہ کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا،یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی و غم خواری کا مہینہ ہے اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے،جس نے اس مہینہ میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے) افطار کرایا تو یہ اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور دوزخ کی آگ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کوروزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا بغیر اس کے کہ روزہ دا ر کے ثواب میں کمی کی جائے۔

کتنے لوگ جو گذشتہ سال ہمارے ساتھ روزے میں شریک تھے آج قبرمیں مدفون ہیں،کتنے چہرے جنہیں ہم نے گذشتہ سال رمضان میں صحیح سلامت دیکھاتھا‘آج بسترِ مرگ پر پڑے موت وحیات کے بیچ ہچکولے کھارہے ہیں۔ کیاخبرکہ آنے والا رمضان ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو، اس لیے آنے والے مہینے کا خیروخوبی سے استقبال کریں،ہمارے اوپر طلوع ہونے والارمضان کا چاند خیروبرکت کاچاند ہو،اسے دیکھ کر ہمارا دل جذبہ اشتیاق سے امڈ آئے، ہماری زبان گویاہو ’’اے اﷲ! تو یہ چاند ہم پر امن وایمان اورسلامتی واسلام کے ساتھ طلوع کرنا،اے چاند میرا اورتیرا رب اﷲ ہے ۔ماہ مبارک کی آمد سے پہلے اس کے مقام،اس کی عظمت، اس کی فضیلت،اس کے مقصد اوراس کے پیغام کو اپنے ذہن میں تازہ کریں تاکہ اس کی برکات سے بھرپور فائدہ اٹھاسکیں اوراس بات کا پختہ ارادہ کریں کہ ہم اس ماہ مبارک میں اپنے اندر تقوی کی صفت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جو روزہ کا ماحصل ہے۔

رمضان المبارک کو اﷲ نے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے نبی محترم ﷺ نے فرمایا کہ اس مبارک مہینہ کا پہلا حصہ رحمت ہے، درمیانی حصہ مغفرت ہے،اور آخری حصہ دوزخ کی آگ سے آزادی ہے۔جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں ہلکا پن اور کمی کردے گا اﷲ تعالی اس کی مغفرت فرمادے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا،اور اس مہینہ میں چار چیزوں کی کثرت رکھا کرو جن میں دو چیزیں ایسی ہیں جس کے ذریعہ تم اپنے رب کو راضی کرسکتے ہو،اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تم کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتے وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے،اور دوسری دوچیزیں یہ ہیں کہ جنت کا سوال کرو اور دوزخ سے پناہ مانگو، اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پانی سے سیراب کرے اس کو اﷲ تعالی (قیامت کے دن) میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔(صحیح ابن خزیمہ:1785)

اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: ترجمہ: رمضان کا مہینہ، جس میں قرآن اترا، لوگوں کے لئے ہدایت اور رہنمائی اور فیصلہ کی روشن باتیں (سورۃالبقرہ،آیت 185)جب کلام الٰہی سب کلاموں کا سردار ہے تو جس ماہ مقدس میں اس کا نزول ہوا، وہ مہینہ دیگر مہینوں کا سردار کیوں نہ ہو؟ قرآن مجید کے علاوہ اﷲ تعالیٰ کی دیگر کتابیں بھی اسی ماہ رمضان میں نازل ہوئی ہیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صحیفے یکم یا تین رمضان کو نازل ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت چھ رمضان المبارک کو، حضرت عیسٰی علیہ السلام پر انجیل بارہ یا چودہ رمضان المبارک کو، حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور بارہ یا اٹھارہ رمضان المبارک کو نازل ہوئی اور قرآن مجید لیلۃ القدر ( رمضان کی ستائیسویں شب) میں نازل ہوا۔ لہذا اس مہینے کو قرآن مجید سے خاص مناسبت ہے۔ اسی لئینبی محترم ﷺ اس مہینے میں جبریل علیہ السلام کے ساتھ قرآن مجید کا دور فرماتے تھے اور آپ اس مہینے میں چھوٹی ہوئی تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت فرماتے تھے۔
حدیث شریف: حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی محترم ﷺ نے فرمایا جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو آسمانوں اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخر رات تک بند نہیں ہوتے جو کوئی بندہ اس ماہ مبارک کی کسی بھی رات میں نماز پڑھتا ہے، تو اﷲ تعالیٰ اس کے ہر سجدہ کے عوض(یعنی بدلہ میں) اس کے لئے پندرہ سو نیکیاں لکھتا ہے اور اس کے لئے جنت میں سرخ یاقوت کا گھر بناتا ہے جس میں ساٹھ ہزار دروازے ہوں گے اور ہر دروازے کے پٹ سونے کے بنے ہوں گے جن میں یاقوت سرخ جڑے ہوں گے۔ پس جو کوئی ماہ رمضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اﷲ تعالیٰ مہینے کے آخر دن اس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کے لئے صبح سے شام تک ستر ہزار فرشتے دعائے مغفرت کرتے رہتے ہیں۔ رات اور دن میں جب بھی وہ سجدہ کرتا ہے اس ہر سجدہ کے عوض (یعنی بدلے) اسے (جنت میں) ایک ایسا درخت عطا کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں گھوڑے سوار پانچ سو برس تک چلتا رہے وہ ختم نہیں ہوتا، (شعب الایمان جلد 3 صفحہ نمبر 314)

ہر مسلمان کو رمضان المبارک کی آمد سے قبل ہی اپنے معمولات کا ایک جائزہ لینا ضروری ہے،اور بے فضول کاموں سے اجتناب کرتے ہوئے رمضان لمبارک کا نظام لعمل ترتیب دینا چاہیے تاکہ سلیقہ و سہولت کے ساتھ وقت کی رعایت و پابندی کے ساتھ رمضا ن المبارک کو گذارا جائے اور عبادتیں انجام دی جائیں۔ حضرت مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں کہ:میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع ؒ صاحب فرمایاکرتے تھے کہ رمضان کا استقبال اور اس کی تیاری یہ ہے کہ انسان پہلے یہ سوچے کہ میں اپنے روز مرہ کے کاموں میں سے مثلا تجارت، ملازمت، زراعت وغیرہ کے کاموں میں سے کن کن کاموں کو مؤخر کرسکتا ہوں، ان کو مؤخر کردے،اور پھر ان کاموں سے جو وقت فارغ ہو اس کو عبادت میں صرف کرے۔(اصلاحی خطبات:۷۵/۰۱)اس طرح اگر رمضان لمبارک کا استقبال ہو تو پھر واقعی ہر مومن نیکیوں کو سمیٹنے اور اعمال کو انجام دینے میں اس قدر مصروف ہوگا کہ اسے بے کار اور لایعنی امور میں پڑنے اور وقت کو غیر ضروری چیزوں ضائع کرنے موقع ہی نہیں ملے گا۔ اﷲ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ ( آمین )

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 94157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.