بچوں کی کہانی
از قلم : صائمہ راجپوت، لاہور
’’رمضو بابا ! رمضو بابا ‘‘ ندیم غصے سے اور بدتمیزی سے اپنے بزرگ ملازم کو
آوازیں دے رہا تھا۔ ’’ جی چھوٹے بابا‘‘ پچپن سالہ رمضو بابا ہانپتے جلدی سے
بھاگتے ہوئے آئے۔ ’’ میرا ناشتہ لے کر آئیں ‘‘ ندیم نے بدتمیزی سے رمضو
بابا کو کہا۔ ’’ چھوٹے بابا آپ بس پندرہ منٹ انتظار کریں میں جلدی سے آپ کا
ناشتہ بنا کر لاتا ہوں‘‘ رمضو بابا نے ڈرتے ڈرتے کہا۔
سلیمان بیگ صاحب ندیم کے والد جن کا شمار شہر کے رئیس لوگوں میں ہوتا ہے۔
بچپن میں ہی ماں کے گزر جانے کی وجہ سے بیگ صاحب نے ْاس کو بہت لاڈوپیار سے
پالا تھا کچھ پیسے کی فروانی اور رہی سہی کسر اکلوتے ہونے نے پوری کر دی جس
کی وجہ سے وہ تھوڑا بدتمیز ہو گیا اور بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ندیم کی
بدتمیزیاں بھی بڑھتی جا رہیں تھیں جس کی وجہ سے بیگ صاحب بھی بہت پریشان
تھے۔ ندیم کی بدتمیز یوں کی وجہ سے آئے دن نوکر بدلتے رہتے صرف ایک رمضو
بابا کے علاوہ۔ ندیم چھٹی جماعت کا طالب علم تھا پر اب بھی وہ اپنے آپ کو
چھوٹا بچہ سمجھتا۔ وہ نہ نماز پڑھتا اور نہ روزے رکھتا تھا بیگ صاحب نے بہت
کوشش کی تنگ آکر اْس کو اْس کے حال پر چھوڑ دیا۔آج دیسواں روزہ تھا اور
ندیم کی امی کی برسی بھی۔ بیگ صاحب آج کے دن ندیم کی امی کے نام سے غریبوں
کو کھانا کھیلاتے تھے۔ ندیم بھی ناشتہ کر کے باہر آگیا اور لوگوں میں کھانا
تقسیم ہوتے دیکھنے لگا۔ جہاں ندیم بیٹھا تھا اْس جگہ کے پاس ہی تین سال کا
بچہ بیٹھا کھانا کھا رہا تھا جس کی طرف کوئی متوجہ نہیں تھا۔ بچہ اپنی ماں
کے پاس جانے کے لیے اٹھا اْس کے ہاتھ میں سالن کی پلیٹ تھی ندیم کے پاس سے
گزرتے ہوئے بے دھیانی میں اْس کا پاؤں مڑ گیا اور سالن اْس کے ہاتھ سے زمین
پر گر گئی۔ سالن کی چھینٹے ندیم کے کپڑوں پر بھی گریں۔
’’تم بدتمیز ! میرے کپڑے گندے کر دئیے تمہاری ہمت کیسے ہوئی‘‘ندیم نے بولتے
ہوئے بچے کو بے دریغ مارنا شروع کردیا۔ رمضو بابا نے آگے بڑھ کر ندیم کو
روکنے کی کوشش کی تو ندیم نے غصے سے رمضو بابا کو دھکا دیا جس کی وجہ سے
اْن کو چوٹ لگ گئی۔ بچے کی ماں روتی جاتی اور منتے کرتی جاتی پر ندیم کسی
کی نہیں سن رہا تھا۔ شوروغل کی آواز سن کر بیگ صاحب وہاں پر پہنچے وہاں کا
منظر دیکھ کر ندیم پر ان کا ہاتھ اٹھ گیا۔ ندیم غصے سے اور دکھ سے روتے
ہوئے اپنے کمرے میں بھاگ گیا۔ بیگ صاحب نے بچے کی ماں سے اور رمضو بابا سے
معافی مانگی۔ پر رمضو بابا نے سوچ لیا تھا کہ وہ آج یہ گھر چھوڑ کر چلے
جائیں گے کیونکہ جہاں چھوٹے بڑوں کی عزت نہ کریں وہاں سے چلے جانا ہی بہتر
ہے۔
بیگ صاحب کو اچانک ہی فیکٹری جانا پڑ گیا وہ جانے سے پہلے ندیم کے پاس گئے
اور رمضو بابا سے معافی مانگنے کا کہا پر ندیم نہیں نہایت بدتمیزی سے انکار
کر دیا۔ ندیم کا انکار اور اْس کی بدتمیزی دیکھ کر بیگ صاحب بہت دل برداشتہ
ہو گئے۔ وہ فیکٹری جانے کے لیے سیڑھیاں اتر رہے تھے جہاں سے ان کا پاؤں
پھسل گیا اور وہ پہلی سیڑھی سے آخری سیڑھی پر لڑھکتے ہوئے آئے۔بیگ صاحب کی
چیخ سن کر ندیم اور رمضو بابا بھاگتے ہوئے آئے اور دونوں جلدی سے بیگ صاحب
کو اٹھا کر اسپتال بھاگے۔ سیڑھیوں سے گرنے کی وجہ سے بیگ صاحب کو سر پر بہت
گہری چوٹ آئی تھی باقی جسم میں بھی چوٹیں لگیں پر سر کی چوٹ بہت شدید تھی
جس کی وجہ سے ڈاکٹر نے چوبیس گھنٹے کا وقت دیا تھا۔ ندیم رمضو بابا کے گلے
لگ کر رونے لگ گیا۔
’’ چھوٹے بابا آپ نہ روئیں نماز پڑھیں اور صاحب کی زندگی کے لیے دعا
مانگیں‘‘ ’’ رمضو بابا مجھے نماز پڑھنی نہیں آتی‘‘ندیم نے روتے ہوئے اور
شرمندگی سے کہا ’’ چھوٹے بابا آپ پریشان نہ ہوں میں سیکھاؤں گا آپ کو‘‘
رمضو بابا نے ندیم کو چھپ کرواتے ہوئے کہا ’’رمضو بابا پلیز آپ مجھے معاف
کر دیں میں اب کسی سے بھی بدتمیزی نہیں کروں گا میں نماز پڑھوں گا اور قرآن
بھی پڑھوں گا۔روزے بھی رکھوں گا میں ہر اچھا کام کروں گا اچھا انسان بنوں
گا ان شاء اﷲ‘‘ندیم نے روتے ہوئے رمضو بابا سے معافی مانگی اور اﷲ سے بھی
معافی مانگی۔ ندیم کی دعاؤں سے بیگ صاحب کو ہوش آگیا۔ ندیم نے اپنے آبو سے
بھی معافی مانگی۔بیگ صاحب ندیم کو اچھے بچے کے روپ میں دیکھ کر بہت خوش
ہوئے۔ اب ندیم بہت اچھا بچہ ہے وہ سب سے بہت اچھے سے پیش آتا ہے۔ نماز قرآن
پڑھتا ہے۔روزے رکھتا ہے اور غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ آپ بھی اچھے مسلمان اور
اچھے انسان بنیں۔ دوسروں کے ساتھ نیکی کریں تاکہ آپ کے ساتھ بھی نیکی ہو۔
ضروری نہیں کوئی ٹھوکر یا حادثہ ہمیں ہوش دلائے وقت سے پہلے ہی ہوش میں آ
جانا ایک اچھے مسلمان اور اچھے انسان کی علامت ہے۔ |