دنیا بھر کی اقوام و مذاہب میں ملاقات کے وقت
خیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص
کلمہ کہنے کا رواج ہے۔ خالق کائنات اﷲ ربّ العزت کی طرف سے ہمیں ملاقات کے
وقت ’’السلام علیکم‘‘ کہنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس مبارک کلمہ میں دوسروں
کے لئے صرف اظہار محبت ہی نہیں بلکہ اﷲ تعالیٰ سے دعا بھی ہے کہ تم پر
سلامتی ہو، اﷲ تعالیٰ آپ کو تمام آفات سے محفوظ رکھے۔ سلام کی سنت حضرت آدم
علیہ السلام سے چلی آرہی ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جب اﷲ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ
السلام کو پیدا فرمایا تو ان سے کہا اے آدم! فرشتوں کی اس جماعت کے پاس جاؤ
اور ان کو سلام کہو، چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام گئے اور فرشتوں کی ایک
جماعت کو السلام علیکم کہا، فرشتوں نے جواب دیا وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ
۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا اے آدم قیامت تک تیری ذریت (اولاد ) کا یہی سلام ہو
گا ( صحیح بخاری )۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا تم جنت میں داخل نہیں ہو گے جب تک کہ ایمان
نہیں لاؤ گے، اور پورے مومن نہیں بنو گے، جب تک کہ آپس میں محبت نہیں کروگے،
کیا میں تمہیں وہ چیز نہ بتاؤں جب تم اس پر عمل کروگے تو آپس میں محبت کرنے
لگو گے وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو عام کرو ( صحیح مسلم )۔ سلام کے لغوی
معنی اطاعت و فرمانبرداری کے لیے جھکنا، عیوب و نقائص سے پاک اور بری ہونا،
کسی عیب یاآفت سے نجات پانا،نیز سلام کے ایک معنی صلح وآشتی کے بھی ہیں۔
سلام اﷲ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے ایک نام ہے جس کے معنی سلامتی والا
ہے ، اﷲ تعالیٰ ہر عیب سے پاک ہے۔ بلاشبہ مسلمانوں کا سلام اﷲ تعالیٰ کے
قریب کرنے والا، محبتوں کو پیداکرنے والا، نفرتوں کدورتوں اور عداوتوں کو
مٹانے والا ہے، باہمی تعلق واعتماد کا وسیلہ اور فریقین کے لیے موجب طمانیت
ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم اور احادیث رسول صلی اﷲ علیہ وسلم میں
مسلمانوں کو باہم سلام کو رواج دینے اور عام کرنے کی بڑی تاکید فرمائی گئی
ہے۔ سلام کرنا سنت اورجواب دینا واجب قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد
باری تعالیٰ ہے ’’اور جب سلام کے ذریعے تمہاری تکریم کی جائے تو تم اس سے
بہتر (لفظ کے ساتھ) سلام پیش کیا کرو یا (کم از کم) وہی لوٹا دیا کرو۔ بے
شک اﷲ ہر چیز پر حساب لینے والا ہے۔ ‘‘ ( سورۃالنساء آیت86) اس آیت مبارکہ
میں سلام کا جواب بہتر الفاظ میں دینے کا حکم دیا گیا ہے یعنی جواب کے لئے
اس سے بہتر الفاظ استعمال کیے جائیں یا کم از کم ان ہی الفاظ میں جواب دے
دیا جائے ۔ مثال کے طور پر کوئی آپ کو ’’السلام علیکم‘‘ کہے تو آپ اسے جواب
میں ’’وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ‘‘ کہیں ، اور اگر کوئی ’’السلام علیکم و
رحمتہ اﷲ ‘‘ کہے تو آپ جواب میں وعلیکم السلام و رحمتہ وبرکاتہ کہیں۔ سلام
کے جواب میں بہتر جواب دینا مستحب ہے اور برابر کا جواب دینا واجب ہے،
اگربغیر کسی عذر شرعی کے جواب نہ دے تو گنہگار ہوگا۔ ایک مرتبہ نبی کریم
صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس ایک صاحب آئے اور کہا ’’السلام علیک یا رسول اﷲ
صلی اﷲ علیہ وسلم۔ آپ نے جواب میں ایک کلمہ بڑھا کر فرمایا کہ ’’وعلیکم
السلام ورحمۃ اﷲ‘‘ پھر ایک صاحب آئے انہوں نے سلام میں یہ الفاظ کہے
’’السلام علیک یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ورحمتہ اﷲ ‘‘ آپ نے جواب میں
ایک اور کلمہ بڑھا کر فرمایا وعلیکم السلام ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘‘ پھر ایک
اور صاحب آئے انہوں نے اپنے سلام ہی میں تینوں کلمے بڑھا کر کہا ’’السلام
علیک یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ‘‘ آپ نے جواب میں صرف
ایک کلمہ ’’وعلیک‘‘ ارشاد فرمایا، ان کے دل میں شکایت پیدا ہوئی اور عرض
کیا یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپ پر قربان، پہلے جو حضرات
آئے آپ نے ان کے جواب میں دعاء کے کئی کلمات ارشاد فرمائے اور میں نے ان سب
الفاظ سے سلام کیا تو آپ نے ’’وعلیک‘‘ پر اکتفاء فرمایا، آپ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے فرمایا کہ تم نے ہمارے لیے کوئی کلمہ چھوڑا ہی نہیں کہ ہم جواب میں
اضافہ کرتے، تم نے سارے کلمات اپنے سلام ہی میں جمع کردیے، اس لیے ہم نے
تمہارے سلام کا جواب قرآنی تعلیم کے مطابق جواب بالمثل دینے پر اکتفاء کیا
‘‘ (معارف القرآن)۔ حضرت عمران بن حصین رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور السلام علیکم کہا،
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور وہ شخص بیٹھ گیا، آپ نے ارشاد
فرمایا’’ دس نیکیاں‘‘۔ کچھ دیر بعد ایک دوسرا آدمی حاضرخدمت ہوا اور السلام
علیکم ورحمتہ اﷲ کہا، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جواب دیا، وہ آدمی بیٹھ گیا
آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ بیس نیکیاں‘‘۔ کچھ دیر بعد ایک
تیسرا شخص حاضر خدمت ہوا اور عرض کیا، السلام علیکم ورحمتہ اﷲ وبرکاتہ، آپ
صلی اﷲ علیہ وسلم علیہ نے ارشاد فرمایا’’ تیس نیکیاں‘‘ ۔ ( روایت ترمذی،
ابوداؤد) اس روایت سے معلوم ہوا کہ سلام کے ہر ایک کلمہ پر دس ، اور مکمل
سلام کرنے پر تیس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا
لوگوں میں اﷲ کے قرب اور اس کی رحمت کا زیادہ مستحق وہ بندہ ہے جو سلام
کرنے میں پہل کرنے والا ہو۔کیونکہ سلام میں پہل کرنے سے عاجزی وتواضع
پیداہوتی ہے، اﷲ تعالیٰ کو بندوں سے تواضع نہایت محبوب ہے۔ سلام اتنی بلند
آواز سے کرے کہ سلام کیے جانے والے کو بآسانی آواز پہنچ جائے ورنہ جواب کا
مستحق نہ ہوگا، نیز جواب دینے والا بھی اسی طرح بلند آواز سے جواب دے ورنہ
جواب اس کے ذمہ سے ادا نہ ہوگا۔سنت یہ ہے کہ سوارپیدل چلنے والے کو سلام
کرے، کھڑا اور چلنے والا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے، تھوڑی جماعت والے زیادہ
جماعت والوں کو، اور چھوٹی عمر والا بڑی عمر والے کو سلام کرے۔ جب کہیں سے
دو آدمی گزر رہے ہوں یا دو ملاقات کرنے والے ہوں تو ان میں جو بھی سلام میں
پہل کرے گا وہ زیادہ ثواب پائے گا۔ جب بچوں کی جماعت کے پاس سے گزرے تو
انہیں سلام کرے کہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ و سلم ایسا ہی کیا کرتے۔ جب اپنے
گھر میں داخل ہو تو گھر والوں بیوی بچوں کو سلام کرے، اس سے اتحاد و اتفاق
پیدا ہوگا اور رزق میں خیر و برکت آئے گی۔ جب دو مومن آپس میں ملاقات کریں
تو سلام کرنے کے بعد ہاتھ ملانا بھی سنت ہے، مگر مرد مرد سے ہاتھ ملائے اور
عورت عورت سے ہاتھ ملائے، مرد و عورت کا ہاتھ ملانا یا مصافحہ کرنا گناہ ہے۔
ہمیں چاہیے کہ اپنا طرز زندگی بدلیں ، خود کو اسلامی اصولوں اور ضابطوں کا
پابند بنائیں، اور جو ہمارا واقف ہو یا اجنبی ہر ایک سے سلام کی عادت
اپنائیں، سلام کو عام کریں۔ گڈ مارننگ، گڈ بائے، گڈ نائٹ، ہیلو ، ہائے کے
ذریعے اغیار کی نقالی کی بجائے السلام علیکم و رحمتہ اﷲ و برکاتہ کہنے کی
عادت ڈالیں ،جو ہمیں پیدا کرنے والے، پالنے والے خالق کائنات کا حکم اور
سید المرسلین صلی اﷲ علیہ وسلم کا مبارک طریقہ، اور امت مسلمہ میں باہمی
خیر و برکت، اخوت و ہمدردی اور محبت و مروت کے بڑھنے کا ذریعہ ہے،اﷲ پاک
ہمیں عمل کی توفیق عطاء فرمائے ۔آمین |