رمضان کچھ دنوں میں شروع ہونے والا ہے اور اللہ پاک نصیب
کرئے ہم سب کو اور رمضان اور روزے کی اصل روح سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ...
آج آپ سب کی توجہ کچھ بہت اہم معاملات کی طرف کرنا چاہونگی .... رمضان کا
آغاز شروع ہوتے ہی آج کل ہمارے ذہین میں عبادات نہیں ٹرانسمیشن آتی ہے
فالاں کا شو فالاں چینل دیکھے گے فالاں ٹرانسمیشن میں بہت گفٹ ملتے ہیں اس
میں اس بار پھر جائے گے اک لمحہ رکے سوچے ذرا یہ ہم کہا جا رہے ہیں ...? یہ
ہم کیا کر رہے ہیں آغاز تو ہوتا ہے ماہ صیام کا اور ہم..... دکان رمضان کا
حصہ بن کر رہ گے ہیں کبھی سوچا ہے کہ ہمیں دین سکھا کون رہا ہے...ادکار
گلوکار کھلاڑی کیا کیسا کھیل جاری ہے ذرا سوچے تو...کیا ہم اب ٹی وی سے دین
کی سمجھ لے گے جو سوائے گمرائی کے ہمیں کچھ نہیں دے سکتے خدارا ہوش کے ناخن
لے .... رمضان میں تو ہم نے رب کے قریب ہونا تھا یہ کیا کہ ہم اپنے رب کے
قریب ہونے کے بجائے ٹی وی کے قریب ہو جاتے ہیں اور کیا پاتے ہیں سوائے وقت
کی بربادی کے کھیل کود طوفان بد تمیزی کے مخلوط محافل کے..!?... ہو سکتا ہے
یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو تو کیا ہم ٹرانسمیشن کو برو حشر اپنی بخشش
کا ذریعہ بنا بیھٹے ہیں? کیا یہ ممکن ہے یا ہمیں کم از کم رمضان میں تو صوم
صلات کا پابند ہو جانا چاہیے یہ انمول مواقع ہم کن فضولیات میں گنوا رہے
ہیں سوچے تو.... بس مہمان ہے رمضان جو آتا ہے تو ہماری بخشش کروانے کیا ہم
کروا پاتے ہیں کوشش کرتے ہیں .اب وقت ہے کہ ہم سوچ لے کہ آخر ماہ صیام مہں
اپنے رب کو راضی کرنا ہے سارا سال ہم اپنا رانجھا راضی کرتے ہیں ایک ماہ آ
رہا ہے اگر ہم زندگی کو رمضان کی طرح گزرنا شروع کر دیے تو ان شاء اللہ
انجام عید کی طرح ہوگا.ہم آئے کس لیے تھے ہمیں مصروف کن کاموں نے کر رکھا
ہے .
سب کھیل تماشے لگا رکھے ہیں اور ہمیں اپنے رب سے دور کر رہے ہیں گفٹ تو وہ
ہوگا جو بروز حشر روذے داروں کو ملے گا پھر ہم کیوں ان عارضی تماشوں میں
کھو کر اپنے رب سے غافل ہورہے ہیں وہ ٹی وی ہو یہ تمام سوشل سائیڈ موبائیل
ان تمام چیزوں نے جہاں ہمیں معلومات دی وہاں ہماری ترجحات کو متاثر کیا ہے
..حقیقی مقصد حیات سے دور کردیا ہے ذرا سوچے..بہتر ہے کہ ہم اب فیصلہ کرلے
کہ ہمیں بحثیت ایک مسلمان ایک قوم کے کن معاملات کو اختیار کرنا ہے کن سے
کنارہ کشی اختیار کرنی ہے .
تحریر فاطمہ بنت اسلام
|