تاریخ انسانی کا ہر دور ایسے بے شمارواقعات سے بھرا پڑا
ہے جب با دشاہ وقت طا قتور لشکر وزیروں مشیروں کی فوج رکھتے ہو ئے بھی بے
بسی کی تصویر بنا کسی خاک نشین کے در پر ننگے پا ؤں دامن مراد پھیلائے کھڑا
نظر آیا ‘ ایسا ہی ایک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب بر صغیر پاک و ہند پر
سلطان محمدتغلق کی حکومت جا ری تھی دہلی میں تیز مو سلا دھا ربا رش ہو ئی
با رش اتنی شدید تھی کہ پرا نے اور شکستہ مکا نات منہدم ہو گئے ایک مکان
پرانی حویلی کی طرز پر تھا تیز با رش نے دیواریں وغیرہ بھی گرادیں تو
کھنڈرات سے محسوس ہو نے لگا کہ یہاں پر کو ئی پرانا شاہی محل تھا با رش
رکنے کے بعد کو ئی سرکاری اہلکار اُدھر سے گزررہا تھا تو اُس نے ملبے کے
ڈھیر پر ایک چمک دار تختی دیکھی وہ آگے بڑھا اور اُس تختی کو اٹھا لیا اور
جاکر با دشاہ کی خدمت میں پیش کر دی تختی بہت پرانی لگ رہی تھی اُس پر
پرانی پراسرار تحریر بھی کندہ تھی با دشاہ خو د عالم فاضل شخص تھا وہ دیر
تک تختی کی عبارت پڑھنے کی کو شش کرتا رہا لیکن دیر تک پڑھنے کے بعد بھی با
دشاہ عبا رت کو نہ سمجھ سکا آخر عاجزآکر با دشاہ نے آثار قدیمہ کے ما ہرین
کو دربا رمیں طلب کیا اوراُن کے سامنے تختی رکھ دی اورکہااِس عبا رت کو پڑھ
کر بتا ؤ اِس تختی پر کیا عبا رت یا پیغام لکھا ہے ماہرین کئی دن تک عرق
ریزی کر تے رہے آخر کار وہ اِس نتیجے پر پہنچے کہ اِس مکان کے ملبے کے نیچے
کو ئی بہت بڑا خزانہ دفن ہے ما ہرین نے یہ توبتا دیا کہ یہاں پر کو ئی
خزانہ موجود ہے لیکن وہ وسیع و عریض کھنڈر میں جگہ کی نشاندہی کر نے سے
قاصر تھے آخر با دشاہ نے حکم جا ری کیا کہ پو رے کھنڈر کو کھود دیا جا ئے
اور خزانہ نکا لا جا ئے اب ماہرین آثار قدیمہ نے جگہ جگہ کھدائی کر دی لیکن
خزانے کا کہیں بھی نام و نشان تک نہ تھا آخر بہت کو شش کے بعد با دشاہ کے
حضور حاضر ہو کر اپنی نا کامی کا اعتراف کیا کہ نشاندہی کے بغیر سارے کھنڈر
کی کھدا ئی کر نا بے کار ہے ۔ با دشاہ کسی بھی صورت میں اِس عظیم خزانے سے
دستبردار نہیں ہو نا چاہتا تھا اب وہ دن رات خزانے کی سوچوں میں غرق رہنے
لگا با دشاہ جب ناکامی کی حدوں تک پہنچ گیا تو اچانک اُسے حضرت نصیر الدین
چراغ ؒ کی یاد آئی تو با دشاہ پکا ر اُٹھا اب یہ مسئلہ حل ہو نے والا ہے
سلطان محمد تغلق نے فوری طو ر پر حضرت سید نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ کے نام
رقعہ تحریر کیا حضرت ما ہرین نے کھنڈر میں دفن خزانے کے با رے میں بتایا
ضرور ہے لیکن وہ اُس خاص مقام کو بتانے سے قاصر ہیں جہاں خزانہ مدفون ہے
ناکام ہو کر آپ سے رجوع کر رہا ہوں مجھ پر کرم فرماتے ہو ئے کشف سے معلوم
کریں کہ خزانہ کہاں دفن ہے تا کہ حاصل کر کے مخلو ق خدا کی خدمت کی جاسکے
خزانہ حاصل ہو نے پر اس کا دسواں حصہ بطور نذر آپ کی خدمت میں پیش کر دیا
جا ئے گا ۔ حضرت شیخ شاہی خط دیکھ کر مسکرا ئے اور فرمایا خاک نشینوں کو
خزانوں سے کیا مطلب پھر شاہی خط واپس کر دیا تو با دشاہ نے حضرت شیخ کو
دوسرا خط بھی اِس تحریر کے ساتھ لکھ دیا کہ میں اُس وقت تک درخواست کر تا
رہو نگا جب تک خزانہ مل نہیں جاتا ۔ حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ دوسرا خط
پڑھ کر مسکرا ئے اور اپنے چہیتے لا ڈلے نوجوان مرید خاص کو اپنے پا س بلایا
اور کہا جاؤ اور جا کر با دشاہ کی بے بسی کی زنجیریں تو ڑ آؤ نو جوان مرید
مرشد کا حکم سن کر احتراماً کھڑا ہو گیا تو مرشد پاک نے فرمایا جا ؤ جا کر
با دشاہ کے کام کو اچھی طرح انجام دے آؤ نوجوان مرید نے احتراماً اپنا سر
جھکا یا اور سرکا ری اہلکا روں کے ساتھ کھنڈر کی طرف روانہ ہو گیا نوجوان
درویش نے جاکر وسیع و عریض کھنڈر کا جا ئزہ لیا تو حیران کن طو ر پر نو ٹ
کیاکہ تما م عما رت ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی لیکن ایک کمرہ مکمل حالت میں
مضبو طی سے کھڑا تھا سرکا ری کا رندوں نے بتا یا کہ یہ تختی اِس کمرے کے
صحن سے ملی ہے درویش نے غو ر سے اُس پراسرار طلسماتی تختی کو پڑھا پھر اُس
کمرے کے وسط میں آکر بغو ر جائزہ لیا اور چھت کی طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا
وہ خزانہ یہاں پر دفن ہے درویش کی بات سن کر مزدور تیزی سے چھت کی طرف لپکے
تا کہ چھت کو توڑ دیں تو درویش نے با ٓواز اُن کو روکا اورکہامر شد کریم کا
حکم ہے کہ کام کو اچھے طریقے سے کر نا‘ تم ساری چھت کو برباد کر دو گے پھر
آپ خو دسیڑھی پر چڑھے اور چھت پر گو ل دائرہ لگا دیا اور مزدوروں سے کہا
صرف اِس جگہ کو کھو دو‘ مزدوروں نے اپنا کام شروع کر دیا ‘با دشاہ کا وزیر
خاص کام کی نگرانی کے لیے آیا ہوا تھا وہ خو شگوار حیرت سے درویش کی الہا
می قوت کو دیکھ رہا تھا کہ جب ما ہرین آثار قدیمہ اِس خزانے تک پہنچنے میں
بُری طرح ناکام ہو گئے تھے تو یہ خاک نشین تو آسانی سے خزانے تک پہنچ گیا
ہے اور پھر جب مزدوروں نے درویش کے دائرے کو کھودا تو اچانک پو شیدہ خزانہ
تیز دریا کی طرح اُبل پڑا یہ منظر دیکھ کر تمام لوگوں پر سکتہ سا طاری ہو
گیا تھا پھر جیسے ہی حواس نارمل ہو ئے تو وزیر آگے بڑھا‘ درویش کے سامنے
جھک گیا ہاتھ کو بو سہ دیتے ہو ئے عرض کی حضرت آپ نے جہاں اتنا بڑا احسان
کر دیا ہے اب اِس پراسرار تختی کے اسرار و رموز سے بھی آگا ہ فرمادیں تاکہ
میں با دشاہ کا مزیدقرب حاصل کر سکوں نوجوان درویش شفیق تبسم سے گو یا ہو
ئے جاؤ تم دنیا وی با دشاہ کا قرب حاصل کر لو اورپھر اِس کو تختی کے سارے
راز بتا دیے وزیر خاص اور ما ہرین آثار قدیمہ عش عش کر اٹھے‘ یقینا آپ ٹھیک
فرما رہے ہیں درویش نے اُن کی خوشامدی با توں کو نظر انداز کرتے ہو ئے سلام
کیا اور مر شد کریم کی خدمت میں حاضر ہو گئے آپ کو دیکھ کر مرشد مسکرائے
اور بو لے سید زادے کام کر آئے ہو‘ سید زادہ جھکا مرشد کریم کے ہا تھوں کو
بو سہ دیا اور بو لا سرکار آپ کے صدقے کام اچھے طریقے سے کر آیا ہوں اور
پھر با دشاہ نے اپنے وعدے کے مطا بق خزانے کا دسواں حصہ حضرت نصیر الدین
چراغ ؒ کی خدمت میں بھیج دیا حضرت نے کچھ دیر ہیرے جواہرات اور سونے چاندی
کے ڈھیر کو دیکھ اور پھر فرمایا یہ سید زادے کا حصہ ہے جا ؤ اُس کے مکان پر
چھو ڑ آؤ جب سرکار ی کا رندے سونے چاندی ہیرے جواہرات کی بو ریا ں سید زادے
کے گھر پر لا ئے تو بے نیاز سید زادے نے فرمایا اِس خزانے کو واپس مر شد
سرکار کے در پر لے جاؤ اور پھر سید زادہ مرشد کریم کی با رگاہ میں حاضر ہوا
اور پا ؤں سے لپٹ گیا زارو قطا ر روتے ہو ئے عرض کی سرکار آپ نے جو جو کچھ
مجھے عطا کر رکھا ہے وہ اِس فقیر کے دامن میں نہیں سماتا‘ سید زادے کا
والہا نہ عشق اورتا بعداری دیکھ کر مرشد کریم نے ارشاد فرمایا ۔
ہر کہ مرید سید گیسو دراز شد
واﷲ خلا ف نیت کہ او عشق باز شد
سید حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی ؒ نے خزانے سے بھری بو ریاں با دشاہ کے پاس
بھجوادیں اور کہا یہ خزانہ غرباء اور مساکین میں تقسیم کر دیا جائے ۔نوجوان
درویش کا نام حضرت مخدوم سید محمد حسینی گیسو دراز ؒ تھا آپ کا سلسلہ نسب
با ئیس واسطوں سے سرتاج الانبیاء ﷺ تک پہنچتا تھا آپ کا اسم گرامی محمد
کنیت ابو الفتح لقب صدر الدین ولی الاکبر صادق ہے آپ کوعام طو ر پر خوا جہ
بندہ نواز گیسو دراز ؒ پکارا جاتاہے ا اُس زمانے میں اکثر سادات سر کے
بالوں کو بڑھایا کر تے تھے آپ کی زلفیں جوکہ خو ب دراز تھیں اِس لیے گیسو
دراز کے نام سے مشہور ہو گئے 15 سال کی عمر میں ایک دن دہلی میں سلطان قطب
الدین ایبک کی مسجد میں نماز پڑھنے گئے وہاں پر حضرت نصیر الدین چراغ ؒ
تشریف لا ئے ہو ئے تھے سید محمد ؒ آپ کو دیکھتے ہی فریفتہ ہو گئے ایک دن
مرشد کریم پالکی میں سوار ہو نے لگے تو سید محمد نے بڑھ کر پالکی اٹھا لی
سید محمد کے با ل چونکہ لمبے تھے و ہ پالکی میں پھنس گئے شدید تکلیف ہو ئی
لیکن مرشد کے ادب کے لحاظ سے زاویہ تبدیل نہ کیا کئی میل تک پالکی اٹھا کر
چلتے گئے کئی با ل ٹوٹ گئے اور خون بہنا شروع ہو گیاتو سید محمد نے سارا
واقعہ سنا دیا کہ آپ کے سکون کے خاطر با لوں کو آزاد نہ کرایا مرید کا ادب
جنون عشق دیکھ کر مرشد نے پھر وہی شعر حالت جذب میں پڑھا ۔جو کوئی بھی سید
گیسو دراز کا مرید ہو گیا خدا کی قسم وہ کسی اختلا ف کے بغیر عشق باز ہو
گیا ۔
|