انسان اس وقت تک اپنے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہوتا ہے
جب تک کہ وہ خود کو کسوٹی پر نہیں پرکھتا۔ جب میں کسی کے بچوں کو گلیوں میں
گندہ پھرتا دیکھتی تھی تو سوچتی تھی کہ لوگ بچے پیدا کیوں کرتے ہیں ، جب
انہیں بچوں کی پرورش اچھے سے کرنی ہی نہیں ہوتی۔جب کوئی ہمارے دروازے کی
گھنٹی بجا کر بھاگ جاتا اور کبھی مجھے دروازےپر دیکھنے کے لیے بھیجا جاتا
تو غصہ سے میرے دل میں یہ ہی آتا۔ جب بچے سنبھالے نہیں جاتے تو پیدا کیوں
کرتے ہیں ،اگر پیدا کر ہی لیتے ہیں تو اُنہیں گھر میں باندھ کر رکھا کریں۔
جیسے جیسے وقت گزرامجھے بچوں پر کم اور ماں باپ پر ذیادہ غصہ آنے لگا ۔میں
سوچتی بچے تو معصوم ہوتے ہیں ۔ ان کے بگار کی وجہ یہ والدین ہی ہیں ۔
وقت گزرا اور میری شادی کے بعد مجھے بچوں جیسی شرارتی مخلوق کا سامنا کرنا
پڑا ۔ تب سمجھ میں آئی کہ بچے اس قدر معصوم بھی نہیں ہوتے ۔جس قدر میں
سمجھتی تھی۔پہلے ہی بچےنے کانوں سے دھواں نکال دیا ۔ میں نے توبہ کر لی ۔اب
کچھ بھی ہو جائے ۔بچہ اور نہیں ہو گا۔ لیکن جو غلطی کی ہے ۔اسے تو سنوارنا
ہی ہے۔سو میں نے بچوں کی تربیت کے سلسلے میں ورق گردانی کی تو پتہ چلا۔
اک ہم ہی نہیں تنہا ۔اس غم میں یکتا
بچوں سے پریشان لوگ ہزاروں ہیں
ایسے ایسے آرٹیکل پڑھنے کو ملے کہ دماغ ہل گیا۔ بچوں سے متعلقہ مساہل ہی
مسائل ۔ہر کوئی حل تجویز کرنے کی بجائے ،مسائل بتانے کے بعد پتلی گلی
ڈھونڈنے لگتا۔ ذیادہ تر آرٹیکل مسائل کو تفصیلاً بیان کرتے اور آخر میں
بچوں کو محبت سے ڈیل کریں ،انہیں نمونہ پیش کریں ۔جیسے الفاظ لکھ کر جان
چھڑا لیتے ۔ خیر آرٹیکل لکھنے والے تو جان چھڑواسکتے تھے ۔ان کے لیے آسان
بھی تھا لیکن والدین کو یہ کڑواگھونٹ تو ہر حال میں منہ میں ہی رکھنا تھا۔
کسی بھی پروفیشن میں جانے کے لیے لوگ سرٹیفکیٹ لیتے ہیں ۔ماں باپ کی پوسٹ
بغیر کسی تعلیم اور تربیت کے یوں ہی ہمارے ہاں چلی آ رہی ہے ۔مزے کی بات
تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک خود کو اس کا اہل بھی سمجھتا ہے۔ اس سلسلے
میں بڑوں کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ۔حالات تو پھر نیم حکیم والے
ہی جنم لینے ہوتے ہیں اور وہ جنم لیتے ہیں ۔ بچہ جب ماں کے رحم میں سننے
لگتا ہے ،والدین کے لیے شروعات کی گھنٹی بج جاتی ہے۔ہمارے ہاں کا المیہ ہے
کہ لوگ چکی گندی رکھتے ہیں اورآٹا صاف چاہتے ہیں ۔ عورت کو اچھا ماحول
فراہم کرنے ،اسے خوش رکھنے کی کسی کو پروا نہیں ہوتی ۔عورت جہاں اپنے جسم
میں تبدیلی محسوس کر رہی ہوتی ہے ،وہاں اس کی محسوسات میں بھی شدت آ جاتی
ہے۔ بچہ ماں کے جذبے لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے ایک سال کے بچے
بُری طرح کاٹتے ہیں ۔ کھلونوں کو کھیلنے کے لیے کم اور توڑنے کے لیے ذیادہ
ہاتھ میں لیتے ہیں ۔ غصہ میں بڑوں کو مارتے ہیں۔میں جب اپنے ننھے منے مسائل
کو لے کر گئی تو کتابی دنیا میں مسائل کا ایک انبار لگا تھا۔میرے ننھے منے
مسائل مجھے کم ہی لگے سو میں نے نیم حکیم کی رائے پر ہی چلنے کا فیصلہ کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ میرے ننھے منے مسائل جوان ہونے لگے ۔مجھے پھر سے آرٹیکل
کی طرف رجوح کرنا پڑا ۔
بہت سی ویب سائٹ پر اچھے آرٹیکل بھی ملے ۔کچھ کتابوں سے بھی رہنمائی ملی ۔
مجھے اس سلسلے میں ایک دو ایسی کتابیں ملی کہ جنہوں نے مجھے ایک آرٹیکل
لکھنے پر مجبور کر دیا۔یہ آرٹیکل ان والدین کے لیے جو اپنے بچوں سے پریشان
حال اور خود کو بے بس سمجھتے ہیں ۔ اس سلسلے میں اچھی کتب سے استفادہ کرنے
کے بعد جو بنیادی اصول اور طریقے میری سمجھ میں آئے ہیں انہیں ۔۔ اس کتاب
کی روشنی میں بیان کر رہی ہوں ۔ how to talk so kids will listen& listen
so kids will talk.
اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ آپ کو سوچنے سمجھنے کی راہ فراہم کرتی ہے
۔ جس سے آپ اپنے مسائل کا حل خود تلاش کر سکیں ۔ حالات اور واقعات فراہم
کیے گئے ہیں ۔ اس کتاب کو میں آسان کر کے چند عنوانات کے تحت بیان کروں گی
۔اس میں اپنی معلومات کو شامل بھی کروگی جو میں نے دیگر مفید ذرائع سے حاصل
کی ہیں تا کہ میرے جیسے لوگ آسانی سے سمجھ سکیں ۔ان کے لیے بچوں سے مطابقت
کرنا آسان ہو۔وہ بچوں کی مدد کر کے خود اپنی مدد کر سکیں ۔
بچےکی در پیش محسوسات کو سمجھنے میں بچے کی مدد
بچہ اکثر رو رہا ہوتا ہے ہم تالیاں بجاتے ہیں ،کہ وہ ہنسے۔بچہ کچھ بڑا ہوتا
ہے وہ رو رہا ہوتا ہے ہم اسے کہتے ہیں ،جو چپ کرے گا اسے چاکلیٹ ملے گی۔
بچہ کچھ اور بڑا ہوتا ہے وہ اداس ہے اس کی نئی جینز اچھی طرح فٹ نہیں آئی
ہم کہتے ہیں کوئی بات نہیں ۔ ایسا ہوتا رہتا ہے۔ ہم بچے کو اس کی محسوسات
سے دور کرنا چاہتے ہیں ۔ بچے کو سمجھنے دیں کہ وہ کیا محسوس کر رہا ہے۔
مسائل اور حالات پر قابو پانے کے طریقے کار
پہلی مثال
ایک جگہ ایک تین سال کا بچہ جب بہت روتا چیختا ہے کہ اسے اس کی پسندکا ایک
اورکھلونا چاہیے تو ماں جو پہلے ہی اسے اپنے بجٹ سے ذیادہ کا کھلونا دلا
چکی ہے پریشان ہو جاتی ہے۔ وہ اسے گھسیٹ کر دوکان سے باہر لے جائے گی ۔اس
پر چیخےگی ۔ میں پہلے ہی تمہیں اچھا خاصا مہنگا کھلونا لے کر دے چکی ہوں اب
شرافت سے میرے ساتھ چلو ورنہ اچھا نہیں ہو گا۔ بچہ فرش پر لیٹ جائے گا۔
مذید ضدہ کرئے گا۔ وہ دو تین تھپڑ مارے گی ، نہیں بلکہ کتاب میں موجود ماں
اپنے پرس سے ایک کاغذاور پنسل نکالتی ہے اور بولتی ہے دیکھو بیٹا ایک
کھلونا تو ہم نے لے لیا ۔ آج تو ہم اور نہیں لے سکتے ۔ ہاں میں آپ کی
ڈیمانڈ کو کاغذ پر لکھ کر رکھ لیتی ہو ۔ کچھ اور بھی چائیے تو وہ بھی بولیں
۔ہم بعد میں آ کر باقی کے کھلونے لیں گئے بچہ کچھ دیر کہ لیے خاموش ہوتا
ہے ۔ کاغذ کو چھین کر دیکھتا ہے ،پھر اسے واپس کر کے اپنی مذید خواہشات کا
اظہار کرتا ہے ۔ اپنی بڑی بہن کے ساتھ کھیلنے لگتا ہے۔ خوشی خوشی گھر جانے
کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔
دوسری مثال
اسی طرح ایک چھوٹی بچی جس کا ایک پالتوجانور مر جاتا ہے روتی ہوئی اپنے باپ
سے کہتی ہے ۔ میرا کچھوا مر گیا۔ اس کا باپ کہتا ہے ۔ کوئی بات نہیں بیٹا
ہم دوسرا لے لیں گئے۔ وہ اور رونے لگتی ہے ۔زمین پر لیٹ جاتای ہے ۔ باپ سر
پکڑ کر رہ جاتا ہے ۔دوسری صورت دیکھیں ،بچی باپ سے کہتی ہے کہ میرا پالتو
کچھوا مر گیا۔ باپ افسردگی سے کہتا ہے ۔ہوں۔بچی پھر روتے ہوئے کہتی ہے رات
تک تو ٹھیک تھا۔ باپ کہتا ہے تم اس کا بہت خیال رکھتی تھی۔ بچی ہاں میں اسے
کھانا دیتی تھی۔ باپ یہ تو اچھا نہیں ہوا ۔ بچی۔ افسردگی سے باپ کی طرف
دیکھتی ہے۔ باپ ہم پارک چلتے ہیں ۔بچی ہاں چلتے ہیں ۔ ہم واپسی پر آپ کے
لیے کوئی نیا دوست لیں گئے۔ بچی خوشی خوشی ساتھ چل دیتی ہے۔
تیسری مثال
ایک بچی سکول سے گھر آتی ہے ۔سات سال کی چھوٹی سی بچی ۔ اداسی سے اپنی ماں
کو بتاتی ہے ۔ امی میں جب سکول میں واش روم گئی تو کسی نے میرا پن چوری کر
لیا۔ امی غصے سے چلاتی ہے ۔ روز روز یہی ہو رہا ہے ۔ تمہاری ہی چیزیں گم
ہوتی ہیں ۔ یہ تیسرا پن اس ماہ میں تم نے گم کیا ہے ۔ اگر آئندہ ایسا ہوا
تو میں تمہیں دوبارہ پن نہیں لے کر دوں گی۔بچی کو غصہ آتا ہے اور وہ غصہ
سے ماں کو دور کرتی ہے ۔
کتاب پڑھنے کے بعد اب ماں جانتی ہے کہ بچی سے کیا اور کیسے بات کرنی ہے
۔بچی جب گھر آتی ہے اپنی درد بھری داستان ماں کو سناتی ہے۔ ماں اس کی بات
مکمل ہونے پر اس کی طرف ایسی نگاہ ڈالتی ہے کہ بچی کو یقین آجاتا ہے کہ
ماں نے اس کی بات مکمل سن لی۔ بچی پھر بولتی ہے ۔ امی یہ پہلی بار نہیں ہوا
۔ ماں بچی کی طرف دیکھ کر نرم لہجے میں افسردہ چہرے کے ساتھ اچھا بولتی ہے۔
ایک ننھا سالفظ ( اچھا)۔بچی پھر بولتی ہے ۔امی جب بھی میں واش روم میں جانے
سے پہلے کوئی چیز ڈیکس پر چھوڑتی ہوں وہ مجھے نہیں ملتی ۔آئندہ میں کبھی
کوئی چیز باہر چھوڑ کر واش روم نہیں جاوں گی۔ بلکہ اپنے ڈیکس میں رکھوں کی
بیگ کے اندر ۔ماں کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ آ تی ہےوہ کہتی ہے ۔ٹھیک ہے
۔
ہم میں سے اکثر لوگ پہلی مثال کو ہی جیتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم سننے
سے ذیادہ سنانے پر یقین رکھتے ہیں ۔ بعض اوقات تو بات پوری سنی نہیں جاتی
مشورہ پہلے دماغ میں اچھلنے لگتا ہے۔ بس انتظار ہوتا ہے کہ اگلے کا منہ
بندہ ہو اور مشورے کا بال اس کی طرف اچھال دیں۔ ایسی صورت میں بعض اوقات تو
بچوں کی بات مکمل سنی بھی نہیں جاتی۔ مثال لیجئے۔
چوتھی مثال
ایک عورت کا بارہ سالہ بیٹا منہ لٹکا کر گھر آیا تو اس نے وجہ پوچھی ۔وہ
بولا اس کے دوست سے اس کی لڑائی ہوئی ہے۔ میری دوست نے اس کے ماتھے پر نشان
دیکھ کر کہا۔تو تم کھا کر آ گئے ۔ آگے سے مارا نہیں اسے ۔ آج کل بھولا
بننے سے کچھ نہیں ملتا ۔ تو لڑکے نے افسوس سے ماں کی طرف دیکھا۔ماں تو اپنے
خیالات کو بیان کرنے میں مگن تھی وہ کمرے سے چلا گیا۔شام کو کھانے کی میز
پر ماں نے لڑکے کو پھر اداس پایا تو ۔اس نے باپ کو بتایا۔آج آپ کا بیٹا
مار کھا کر آیا ہے ۔ لڑکے نے مایوسی سے ماں کی طرف دیکھا۔ باپ نے بیٹے پر
سوالیہ نگا ہ ڈالی ۔لڑکے نے ایک نظر باپ کی طرف دیکھا اور بولا ۔ مجھے کسی
نے نہیں مارا ۔ باپ نے پھر اس کی طرف دیکھا اور بولا ۔ کیا تم اداس ہو؟لڑکے
نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا۔ ہاں۔ میرے دوست سے میری لڑائی ہوئی تھی
۔ باپ نے افسردہ لہجے میں کہا ۔یہ تو اچھا نہیں ہوا۔لڑکا مایوسی سے بولا
۔ہاں ۔میں نے اسے دھکا دیا ۔اس نے قریب کا درخت پکڑ لیا میں سلپ ہو گیا اور
گِر گیا ۔ اس نے مجھے ہاتھ دے کر اُٹھایااور کہاانسان کو کبھی اپنے غصے کو
خود پر حاوی نہیں کرنا چاہیے ۔ اب دیکھو تمہیں چوٹ لگ گئی ۔باپ نے اس پر
ایک نگاہ ڈالی اور کہا اوہ یہ تو اچھا نہیں ہوا ۔ اس لڑکے نے کہا ۔ ہاں
مجھے بھی افسوس ہو رہا ہے ۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا۔باپ نے کہا کچھ بھی
نہیں تو لڑکا بولا۔ ہاں کچھ بھی نہیں ۔ مجھے اسے سوری کہنا چاہیے تھا۔ میں
کل اسے ضرور سوری بولوں گا۔
پانچویں مثال
ایک بچہ جب سکول کام کام کرتے ہوئےمشکل محسوس کرتا تھا تو وہ کاغذ پھاڑنا
شروع کر دیتا۔ پنسل کو ذور ذور سے کتاب پر رگڑنے لگتا اور کتاب پھاڑ دیتا ۔
اس کی ماں اس کی ان حرکتوں سے سخت پریشان تھی ۔ پانچ سال کے بچےکے لیے وہ
ہر ممکن طریقہ آزماٗ چکی تھی ۔ پھر اسے کتاب سے ایک نیا طریقہ اسے ملا ۔اس
کو جیسے ہی محسوس ہوا کہ بچہ اب غصہ ہو گا تو اس نے ایک کاغذاسے دیا
اوربولی بیٹا ۔ آپ کو جس قدر بھی غصہ آیا ہے مجھے اس پر ڈرائینگ کر کے
بتاو مجھے جب غصہ آتا ہے تو میں ایسے ذک زیک بناتی ہوں ۔ یوں ٹیڑھی لائین
لگاتی ہوں ۔ بچہ نے کچھ دیر ماں کو ٹیڑھی لائین لگاتے دیکھا ۔ پھر کاغذ لے
لیا دیر تک اس پر ذور ذور سے لائن لگاتا رہا پھر اس نے کاغذ میں پنسل سے
جگہ جگہ سوراخ کر دیئے۔ کچھ دیر بعد اس نے لا کر وہ کاغذ ماں کو دیکھایا
اوربولا ۔ مجھے اتنا غصہ آیا تھا۔
1۔بچے کی محسوسات کو قبول کریں ۔ اگر وہ کہتا ہے کہ اسے سردی لگ رہی ہے
اگرچہ شدید گرمی ہو تو آپ یہ نہ کہیں کہ گرمی ہے ۔ سردی تو ہے ہی نہیں
۔آپ کو کہنا چاہیے ۔اچھا آپ کو سردی لگ رہی ہے۔ مجھے تو گرمی لگ رہی ہے۔
ایسا ہو سکتا ہے۔ ہم دو مختلف لوگ ہیں ۔لازمی نہیں جو میں محسوس کروں وہ
آپ بھی محسوس کرو۔
2۔بچے کی محسوسات کو نام دیں۔مثلاً اگر بچہ کہتا ہے کہ آج استاد نے مجھے
سب کے سامنے ڈانٹ دیا اگرچہ میں باتیں نہیں کر رہا تھا وہ تو میرا دوست تھا
جو مجھے اپنی سیر کے متعلق بتا رہا تھا ۔ آپ بچےکو کہہ سکتے ہیں ۔ اچھا۔تو
آپ نے افسردگی محسوس کی۔
3۔بچے کو بچے کے مسائل حل کرنے میں مدد دیں نہ کہ اسے حل فراہم کریں۔
4۔بچہ کی خواہش کو فوراً رد نہ کریں بلکہ اسے کہیں کہ کاش ایسا ہو سکتا ۔
کاش یہ ممکن ہوتا تو ہم ایسا ہی کرتے۔
باہمی تعاون کے ذریعے بچے کی مدد
اکثر و بیشتر ہم بچے کو ایک ہی بات بار بار کہہ رہے ہوتے ہیں مگر سن کر بچے
ان سنی کر دیتے ہیں ۔مثلاًکچھ بچے دانت صاف نہیں کرتے،نلکا کھلا چھوڑ دیتے
ہیں۔ اپنے ناخن کھاتے ہیں ۔ مٹی کھاتے ہیں۔ کچرا ڈسٹ بن میں نہیں
پھینکتےوغیرہ وغیرہ۔ماں باپ ہونے کے ناطے ہم میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ بچے
کہ مدد کرے اچھی چیزیں سیکھنے کے لیے ہم اسے بار بار کہتے ہیں ۔ جب بچہ
پیار سے نہیں سن رہا ہوتا تو ہم غصہ اور مار کو استعمال کرتے ہیں ۔اس کی
بنیادی وجہ بچوں کی نفسیات سے نا آشنائی ہے۔ بچے کیا چاہتے ہیں۔ ہم میں سے
اکثر ماں باپ اس سے انجان ہی رہتے ہیں ۔ ہم جو خود چاہتے ہیں ۔ چاہتے ہیں
بچہ بھی ویسا ہی سوچے اور دیکھے ۔جبکہ بچہ کے دیکھنے ،سوچنے ،سمجھنے اور
ہمارے سوچنے سمجھنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بچے چیزوں کو سمجھ بوجھ کے تحت
نہیں کرتے ۔ اب ایک بچے سے کہہ دیا جائے کہ یہ موتی ہے ،ٹافی نہیں ہے ۔ اسے
کھاتے نہیں ۔سال ،سوا سال کا بچہ ضرور منہ میں لے کر دیکھے گا۔ اسی طرح
پانچ سال کے بچہ سے کہہ دیا جائے ۔وہ بیڈ پر نہ کودے ،بیڈ خراب ہو گا تو وہ
نہیں سمجھے گا ۔ بچوں کو آپ ان کی سوچ سمجھ کے حساب سے لے کر چل سکتے ہیں
۔عموماً جب بچوں پر جب ہم اپنی سوچ تھونپ دیتے ہیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ
بچہ ہماری نہیں سنتا ہم پھر مذید غلط طریقے سے اپنی منوانے کی کوشش کرتے
ہیں ۔
ایسی باتیں جو نہیں کرنی چاہیں۔
1:الزام تراشی و بے عزتی۔جیسے تم نے ہی پردے پر یہ سالن والے ہاتھ لگائے
ہوں گئے ۔تمہارے علاوہ کون یہ کام کر سکتا ہے۔
2:بُرے نام دینا۔بے وقوف دس دفعہ بات کہو سمجھ میں آتی ہی نہیں تمہارے ۔تم
سے بڑا پاگل میں نے نہیں دیکھا۔
3:ڈراوےاور خوفزدہ کرنا:تم نے دو منٹ میں کپڑے تبدیل نہیں کیے تو میں اکیلا
ہی باہر چلا جاوں گا۔
4:حکم دینا:ایک منٹ میں باہر آو۔ فوراً پھینکو۔ جلدی چلو۔
5:اخلاقیات کا درس:اگر تم اچھا کرو گئے تو تمہارے ساتھ اچھا ہو گا۔جو صاف
ستھرا رہتا ہے اللہ اس سے خوش ہوتے ہیں۔
6:اپنی بچارگی کا اظہار: میری قسمت بُری ہے کہ تم مجھے ملے۔پتہ نہیں کیا
گناہ کیا تھا کہ تم جیسی اولاد میرے حصے میں آئی۔
7:مقابلہ پیش کرنا: اُسے دیکھو، اِسے دیکھو ۔فلاں ایسا ہے اس سے سیکھو۔فلاں
ویسا ہے اس سے سیکھو۔
8:طنز کرنا:اچھا تم کرسی پر اچھلتے ہوئے گِرے ہو ذبر دست۔ یہ تو بہت اچھا
ہوا ۔ مزا آیا۔
9:پیشکوئی کرنا:تمہارا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تم پڑھتے نہیں فیل ہو جاوگئے۔
تمہارے سارے دانت سڑنے والے ہیں۔کوئی تم سے دوستی نہیں کرئے گا۔
آپ نے محسوس کیا ہو کہ کہ ہم یہ سب چیزیں کسی نہ کسی موقع پر شعوری یا
لاشعوری طور پر کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ ہم بچے کا
بُرا چاہتے ہیں بلکہ ہم جانتے ہی نہیں کہ درست طریقہ کیا ہے درست طریقہ
سیکھنے سے پہلے لازمی ہے کہ آپ یہ محسوس کریں کہ آپ بچے ہیں۔
آپ نے باتھ دھولیا اور نلکا کھلا چھوڑی دیا ۔باتھ روم سے نکل رہے تھے کہ
امی نے دیکھ لیا۔ غصہ سے بولیں ۔تم کیا چاہتے ہو پورے گھر کو باتھ ٹپ بنا
دو ۔ کبھی تو کوئی کام ٹھیک سے کر لیا کرو دس سال کے ہو چھوٹے منے نہیں ہو۔
پتہ نہیں کب بڑے ہو گئے۔
آپ نے کیا محسوس کیا؟جو میں نے محسوس کیا یہ تھا۔
امی کو تو ہر وقت غصہ ہی آیا رہتا ہے۔ نہیں کرتا ۔ہر وقت کہتی ہیں بڑے ہو
گئے ہو ۔ جب باہر دوستوں کے ساتھ جانے لگتا ہوں تو کہتی ہیں جھوٹے ہو۔امی
کو خود نہیں پتہ کہنا کیا ہے چھوٹا ہوں یا بڑا؟
مسائل کے حل کے بنیادی طریقہ کار۔
بچہ کو اگر سمجھنا ہے تو خود کو اس کی جگہ رکھ کر دیکھنا ہو گا۔ ماہرین کی
رائے کے مطابق اگر آپ کو بچے سے اپنی بات منوانی ہے تو آپ اوپر بیان کیے
گئے نو طریقوں میں سے کوئی بھی استعمال نہ کریں ۔یہ نہ صرف معاملات کو خراب
کرتے ہیں ۔بلکہ ان کے باعث بچے بڑوں سے بغاوت پر اُتر آتے ہیں ۔بچوں سے
غلط کام ہو جاتے ہیں۔ مختلف حالات کے پیش نظر ہمیں مختلف قسم کے طریقہ کار
ماہرین فراہم کرتے ہیں۔ اگر بچے نے کوئی غلط کام کیا ہے تو اسے دیکھتے ہی
فوراً اپنا آپ اس پر نہ ٹھونس دیں ۔ مثال لیں۔ایک بچہ نے فریج سے دودھ کی
بوتل نکالی ۔واپس رکھنے کی بجائے اُسے ٹیبل پر ہی کھلا چھوڑ دیا۔ امی آئیں
انہوں نے دیکھا ۔دودھ کافی دیر میز پر پڑے رہنے کی وجہ سے خراب ہو چکا تھا۔
غصہ سے امی کی پارہ چڑھ گیا۔ غصہ سے چلائیں ۔کہاں ہو تم کہاں ۔بولو جواب دو
مجھے۔بچہ اپنی بال ہاتھ میں اُٹھائے فوراً سے آیا۔ امی پھر چیخی ،ایسے
کرتے ہیں ۔ تمہیں احساس ہے کہ دودھ کتنا مہنگا ہے۔خبر دار تم نے آئندہ
فریج کو ہاتھ بھی لگایا ۔ میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔
پہلا طریقہ:بچے کو معلومات دیں ۔
بچہ کی امی آئیں دودھ کی بوتل کھلی تھی۔ دودھ خراب ہو چکا تھا۔ انہوں نے
بچے کو آواز دی۔ جب بچہ آیا تو بولیں ۔ دودھ میں بو پیدا ہو گئی ہے۔ پینے
کے بعد اگر دودھ فریج میں نہ رکھا جائے تو وہ خراب ہو جاتا ہے ۔ اب میں اور
آپ رات کو دودھ نہیں پی سکیں گئے۔ کیونکہ آپ دودھ کو میز پر ہی چھوڑکر
جلدی جلدی کھیل کے لیے چلے گئے۔
دوسرا طریقہ:ایک لفظ ۔ ایک اشارہ۔
بعض اوقات والدین بچوں کو نصیحت کرنے کے لیے لمبی لمبی تقریں کرتے ہیں ۔بچے
اس الفاظی سے بور ہوتے ہیں ۔وہ ایک کان سے سنتے ہیں اور دوسرے سے نکال دیتے
ہیں ۔ جیسے کہ میں نے اوپر مثال دی کہ بچے کو ماں نے باتھ روم سے نکلتے
دیکھا ،جبکہ نکلا کھلا تھا تو اس نے اسے نہ صرف اچھی خاصی سنائیں بلکہ بچے
کی شخصیت پر لیبل بھی لگا دیا کہ وہ کبھی ٹھیک کام نہیں کرتا۔یہ ذیادتی ہے
، بچے کی شخصیت کے متعلق ،کبھی نہ بولیں۔ ماں نے جب دیکھا بچہ نے نلکا بند
نہیں کیا تو اسے فقظ کہنا چاہیے تھا۔
بیٹا ، وہ نلکا۔یا پانی گیا۔
تیسراطریقہ:مسلہ بیان کرنا۔
مسلہ دیکھیں۔بچہ نے تولیہ سے اپنا گیلا سر خشک کیا اور آپ کے بستر پر
تولیہ پھینک کر چلا گیا۔ اب آپ کیا کریں گئے۔ اسے ڈانٹیں گئے۔دو سنائیں
گئے تو کیا ہو گا ۔ وہ سنی ان سنی کر کے چلتا بنے گا۔آپ کی بات کا اثر بھی
نہیں لے گا ۔ مسلہ کا درست حل یہ ہے کہ آپ مسلہ کو بیان کر دیں۔ بچے کو
بلا کر بولیں۔گیلا تولیہ بدبودار ہو جاتا ہے۔ بستر کو بھی بدبو دار کرتا ہے
۔ بچہ کو پتہ چل جائے گا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔
چوتھا طریقہ: اپنی محسوسات بیان کریں ۔نہ کہ بچے پر چلائیں۔
مسلہ دیکھیں ۔ایک بچہ بار بار کبھی ماں کے دوپٹہ کو کھنچتی ہے تو کبھی شرٹ
کی بازو کو اگرچہ اسے کوئی کام نہیں ہوتا ۔ نہ ہی اس نے کوئی بات کرنی ہے۔
ماں پہلے پیار سے کہتی ہے ۔بیٹا کپڑے نہیں کھنچتے۔ہاتھ پیچھے کرو۔ بچہ
ہنستا ہے پھر سے ذرا ذور سے کھنچتا ہے۔ اب ماں تھوڑے غصے میں ہے۔وہ کہتی
ہے۔اب کیا کر رہے ہیں ۔ آئندہ میں آپ کو ساتھ نہیں لے کر آوں گی۔بچہ کو
ماں کی توجہ پا کر مزا آ رہا ہے ۔وہ پھر سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتا
ہے ۔ اب کی بار ماں کو شدید غصہ آتا ہے اور وہ چلاتی ہے۔ اب اگر تم نے
مجھے ہاتھ لگایا تو میں ایک تھپڑ ماروں گی ۔ سمجھے۔
مسلہ کا حل دیکھیں ۔ ماں بچے کی طرف دیکھتی ہے اور کہتی ہے ۔مجھے اچھا نہیں
لگتا کہ کوئی میری شرٹ کی بازو یا دوپٹہ کھنچے ۔اگر آپ کو کوئی بات کرنی
ہے تو اپنی ذبان سے کریں ۔میں سن رہی ہوں۔
پانچواں طریقہ:ایک تحریر۔
کبھی کبھی جو مسلہ تقریر سے حل نہیں ہوتا ،اسے ایک تحریر حل کر دیتی ہے۔
مثلاًماں اپنی بیٹی کو بار بار کہہ کر تھک چکی تھی کہ وہ جب کمرے سے باہر
نکلے تو لائٹ او پنکھا بند کر کے نکلے ۔آخر اس نے اس مسلہ کا حل یہ نکالا
کہ دروازے پر ایک کاغذ پر لکھ کر لگا دیا۔ آپ اگر کمرہ چھوڑنے لگے ہیں تو
پنکھا اور لائٹ آف کریں۔ لڑکی نے دروازےسے نکلتے ہوئے تحریر دیکھی اور
پنکھا اور لائٹ بند کیے۔
اسی طرح بچوں کو کھلونے ادھر اُدھر ہی پھینک کر جاتے ہوئے ماں نے دیکھا تو
ایک نوٹ لکھا اور اس کا ہوائی جہاز بنا کر جاتے ہوئے بچوں کی طرف پھینکا
۔جس پر لکھا تھا،کہ آپ کا کھلونوں سے کھیل کر دل بھر گیا ہو تو انہیں ان
کی اصل جگہ پہنچا دیں ۔ آپ کی مہربانی ہو گی۔ بچوں نے مسکراتے ہوئے کھلونے
سمیٹ دیے۔اگر ماں غصہ میں چلاتی ۔تم لوگ ہمشہ کھلونے نہیں سمیٹتے ۔میرے لیے
کام چھوڑ کر چلے جاتے ہوئے۔ آئندہ ہاتھ نہیں لگانا کھلونوں کو ۔ چلے جاو۔
سوچیں بچوں کے دل پر کیا گزرتی۔
لازمی نہیں کہ آپ کوبیان کردہ مساہل ہی درپیش ہوں ۔لیکن اپنے مسلہ کو
سامنے رکھتے ہوئے آپ ان پانچ طریقوں کواستعمال کریں اپنے مسلہ اور ضرورت
کے پیش نظرطریقہ کا استعمال آپ کو اچھے نتائج دے گا۔
حل کے طریقہ کا انتخاب کرنے کے ساتھ۔کیا باتیں اہم ہیں۔
ان طریقہ کار کے ساتھ ساتھ اور بھی کچھ ایسی ٹیکنیک ہیں جنہیں اپنانے سے
بچوں کے ساتھ اپنے تعلق کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔ ان کے بارے میں بھی
جاننا بہت ضروری ہے۔
1۔ بچوں سے بات جیت کے دوران الفاظ کا چناو سوچ سمجھ کر کریں۔
2۔ بچوں کے ساتھ بات جیت کرتے ہوئے ۔اپنی آواز ،انکھوں ۔ہاتھوں کا استعمال
کرتے ہوئے ۔بچے کو اس کی کم تر پوزیشن کا احساس نہ دلایا جائے۔
3۔بات جیت کرنے کے دوران بچوں کی عزت نفس کا مکمل خیال رکھا جائے۔
4۔کسی بھی کام کے لیے کہنا ہو تو بچے کو پلیز کہہ کر بولیں۔
5۔ کام کے ختم کر لینے پر بچے کو شکریہ کہیں ۔ اظہار تشکر کی عادت بچے میں
بھی جنم لے گی۔ اس طرح آپ ایک تیر سے دو شکار کریں گئے ۔بچے کو اظہار تشکر
کا عادی بنانے کے ساتھ ساتھ اسے اس کی اہمیت کا احساس دیں گئے۔
ان پانچ باتوں کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ ان نو باتو ں سے گریز کریں جو ہم
عمومی طور پر کرتے ہیں ۔ جن کا تذکرہ پیچھے میں بیان کر کے آئی ہوں۔آپ کی
تنقید بچے کو سچ میں ویسا بنا سکتی ہے جیسا آپ اسی کی شخصیت کو پیش کریں
گئے ۔ بچوں کے لیے تنقید ان کی شخصیت پر لگائے گئے دھبہ آپ کے اور ان کے
درمیان ایک دیوار بنا سکتے ہیں ۔
نہیں کی بجائے متبادل الفاظ کا چناو
اکثر اپنے مسائل میں الجھے ہوئے والدین بچوں کی بات کو مکمل سنے بغیر ہی
کہہ دیتے ہیں ۔نہیں یہ نہیں ہو سکتا ۔ یا صرف نہیں کہہ کر خاموش ہو جاتے
ہیں۔بچہ جو ایک امید کے ساتھ آپ کے پاس آتا ہے آپ کو چاہیے کہ اس کی بات
مکمل سن لیں۔ہر ممکن کوشش کریں کہ آپ نہیں نہ کہیں ۔مثلاً بچہ آپ کے پاس
آیا اور بولا امی میں کرکٹ کھیلنے چلا جاوں۔ امی نے دیکھا اور بولیں ۔بیٹا
آپ کو پتہ ہے کہ آپ نے سکول کا کام نہیں کیا۔ پڑھائی کے بعد کھیل ہوتا
ہے۔
بچہ نے ماں سے کہا ۔ امی میں آپ جیسا بننا چاہتا ہوں ۔ مجھے ساڑھی پہننا
ہے۔ ماں نے غور سے بچے کی طرف دیکھا اور بولیں ۔ بیٹا آپ ڈیڈی جیسا بننا
پسندنہیں کرتے کیا ۔ ان کے پاس بہت اچھے سوٹ اور پرفیوم ہیں ۔ بچہ میں سوٹ
پہن سکتا ہوں ۔ ماں کیوں نہیں۔ جب آپ بڑے ہو جاو گئے تو ڈیڈی کی طرح سوٹ
پہنا کرنا ۔ کیونکہ آپ لڑکے ہو۔ لڑکے بڑے ہو کر سوٹ پہنتے ہیں۔ بچہ میں
بڑا ہو کر ڈیڈی بنوں گا۔ ماں مسکراتے ہوئے ۔او ۔ کے بیٹا آپ بڑے ہو کر
ڈیڈی بن جانا۔
بچہ ماما کیا ہم بے بی کو واپس نہیں چھوڑ کر آسکتے جہاں سے لے کر آئے ہیں
۔ ماما کو بے بی کے ساتھ جانا ہو گا۔ کیونکہ بے بی کا وہاں کوئی خیال رکھنے
والا نہیں ۔ کیا آپ چاہتے ہو کہ ماما چلی جائیں۔
سزا کی بجائے متبادل طریقہ کار
بچہ لازمی نہیں کہ ہر صورت میں آپ کی بات مانے ۔ کچھ بچوں کے ذہین بہت
باغی ہوتے ہیں ۔ ہمارے ہاں ایسے ہی بچوں کے لیے ایک جملہ مشہور ہے ۔ لاتوں
کے بوت ،باتوں سے نہیں مانتے۔ ہمارے بڑوں سے یہ بھی سننے کو ملتا ہے ۔ کہ
ڈنڈا پیر ہے۔ بچوں کے معاملہ میں سختی ضروری ہے ۔ ان پر قابو پانے کے لیے
ان کی لگامیں کس کر رکھنی چاہیے۔ یہ سب باتیں بچوں کے دل میں ماں باپ کے
لیے یاتو ڈر بیٹھا دیتی ہیں یا پھر نفرت ۔ بچے کبھی اپنے والدین سے پھر دل
کی باتیں نہیں کرتے۔ ماں باپ کبھی ایسے میں بچوں کے دوست نہیں بن پاتے۔
بچوں اور ماں باپ کے درمیان ایک فاصلہ جنم لے لیتا ہے ۔ سوال پھر یہ پیدا
ہوتا ہے کہ بچوں کو غلط کام سے روکا کیسے جائے۔ اکثر والدین کہتے ہوئے نظر
آتے ہیں کہ اگر گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلے تو انگلی ٹیڑھی کرنی پڑھتی ہے۔
بچوں کو اگر کچھ نہ کہا جائے تو وہ سر پر چڑھ کر بیٹھتے ہیں ۔
میں یہاں سزا کی بجائے ان متبادل طریقوں کا ہی بتانے بیٹھی ہو ۔ جو میں نے
مختلف آرٹیکل اور اس عمدہ کتاب (کیسے بولیں کہ بچہ سنے گا، سنیں پھر بچہ
بولے گا)سے اخذ کیے ہیں ۔
بچوں کو انتخاب کا موقع دیں
عموماً بچہ جب صوفہ پر چھلانگیں لگا رہا ہوتا ہے تو ہم اسے ڈانٹتے ہیں ۔ اب
اچھلنا بند کر دو۔ جب وہ نہیں مانتا تو ہم اسے کہتے ہیں ،اگر تم نے صوفہ پر
چھلانگیں لگانا بند نہیں کیا تو اچھا نہیں ہو گا۔ جب وہ پھر بھی نہیں سنتا
تو امی کا دماغ گھوم جاتا ہے اور وہ اُٹھ کر اسے ہاتھ سےپکڑ کر نیچے اُتار
دیتی ہیں ۔ وہ پھر سے صوفہ پر چڑھ جاتا ہے ۔ اگر آپ کسی مہمان کے ساتھ
بیٹھے ہوں اور بچہ اس طرح کرئے تو آپ کیا کریں گی۔ غصہ میں آ کر آپ بچے
کی مہمان کے سامنے بے عزتی کریں گی۔ یہ دوسروں کو دیکھ کر ایسا کرنے لگتا
ہے۔اسے غصے سے دیکھیں گی۔بچہ کے دل و دماغ میں کیا محسوس ہو گا۔ خود کو اس
کی جگہ رکھ کر سوچیں۔
جب بچہ مہمان کے سامنے یا یوں ہی آپ کی مرضی کے مخالف کام کر رہا ہو تو سب
سے آسان طریقہ جو بچے اور آپ کے لیےبہتر ہے وہ بچے کو چوائس دینے کا ہے۔
آپ کہہ سکتی ہیں کہ بیٹا آپ کو اگرکو اگر بیٹھنا ہے تو صوفہ پر بیٹھ
جائیں ورنہ آپ کو چھلانگیں لگانی ہیں تو آپ کمرے سے باہر جا کر یہ کام کر
سکتے ہیں ۔ آپ کی مرضی ہے۔ بچے کو آپ کسی دوسرے کام کی طرف بھی متوجہ کر
سکتے ہیں ۔ مثلاً بیٹا آپ اپنی کلر کی ہوئی تصاویر آنٹی کو دیکھائیں ۔
صوفہ پر چھلانگیں لگا کر دیکھانے سے ذیادہ اچھا نہیں ہے۔ بچے کو اپنی باتوں
میں شریک کریں ۔ آپ یہ بھی کہہ سکتی ہیں جو بچہ میری دوست کے جانے تک
دوسرے کمرے میں جا کر آرام سے کھیلے گا میں اسے گفٹ دوں گی۔ اب یہ بچے پر
ہے کہ وہ گفٹ لینا چاہتا ہے یا نہیں۔
بچوں پر اپنی رائے مسلط کر دینے سے نہ صرف بچہ نا خوش ہوتا ہے بلکہ اس سے
قائم کردہ تعلق میں بھی خرابی ہی آتی ہے۔ آپ خود کو بچے کی جگہ رکھ کر
دیکھیں ۔ کسی بھی رشتے میں آپ کبھی نہیں چاہتے کہ لوگ اپنی رائے آپ پر
مسلط کر دیں ۔بلکہ آپ کی خواہش ہوتی ہے کہ آپ کے عمل کو آپ کے کام کو
سراہا جائے ۔آپ کی رائے کو اہمیت دی جائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ انسان اپنی
تعریف ہر عمر، ہر حالت میں پسند کرتا ہے اور بے عزتی اسے دُکھ سے دوچار
کرتی ہے۔
اپنی محسوسات کوسخت الفاظ میں بیان کریں
اپنی محسوسات کو بیان کرتے ہوئے آپ سخت الفاظ کا استعمال کر سکتے ہیں ۔
ایسے میں بچہ کے کردار کو زیر بحث نہ لائیں۔
مثال
بچی قینچی باغ میں ہی بھول کر اپنے کاموں میں لگ گئی ۔آپ نے اپنی نئی
قینچی کو تیسری بار ایسی حالت میں دیکھا ۔اب آپ بچی کمرے میں آئے وہی
قینچی اس کے پڑھائی کے میز پر رکھی اور غصہ سے چلائیں ۔ یہ کیا ہے ۔ تم
کوئی کام ٹھیک سے بھی کر سکتی ہو ۔ کبھی تو انسانوں کی طرح کام کیا کرو۔ یہ
میری نئی قینچی ہے۔ تمہیں ٹھیک ٹھاک چیزیں پسند نہیں ہیں ۔تو اپنی خراب
کرو۔ خبر دار اگر آئندہ میرا سلائی باکس کھولا تو پھر دیکھنا۔بے وقوف
لڑکی۔ تم سے مجھے کسی اچھا ئی کی امید نہیں۔
اب زرا خود کو بچی کی جگہ رکھ کر دیکھیں آپ کی محسوسات کیا ہیں ۔ آپ کیا
سوچیں گی۔
اگر خود کو بچی کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو دل میں ہی خیال آتا ہے۔ جب آپ
مجھ سے کسی اچھائی کی امید نہیں رکھتی تو ٹھیک ہے ۔یوں ہی سہی میں تو ہر
بار اب ایسا ہی کروں گی میں بے وقوف جو ہوں۔اب تو دیکھنا ہی پڑے گا کہ آپ
اگلی دفعہ ایسا کرنے پر کیا کرتی ہو۔
آپ کو چاہیے کہ آپ بچی کے پاس قینچی لے کر جائیں اور اسے دیکھائیں ۔ بیٹا
یہ دیکھیں ،میں نے اپنی قینچی کو کہاں پایا ۔ یہ باغ میں زمین پر پڑی
تھی۔بچی نے جب آپ کی بات سنی تو وہ کیا کہے گی۔
اوہ وہ در اصل امی میں پودے سے پھول کاٹنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے پھول
کاٹا ہی تھی کہ میری دوست کا فون آیا اور میں اندر آ گئی ۔ قینچی میں باغ
میں ہی بھول گئی۔ مجھے نہیں پتہ تھا کہ بارش ہو جائے گی ۔ سوری امی۔
امی بچی کی طرف دیکھ کر کہتی ہیں ۔ بیٹا یہ پہلی بار نہیں ہے ۔ میں نے
تیسری دفعہ اپنی قینچی کو ایسی حالت میں پایا ہے۔مجھے بہت افسوس ہو رہا ہے۔
مجھے آپ پر شدید غصہ بھی آ رہا ہے۔ آئندہ آپ جب میری کوئی چیز لیں۔ اسے
اپنی جگہ پر ہی رکھیں ۔ ورنہ آپ کو وہ چیز دوبارہ نہیں ملے گی۔ امید کرتی
ہوں کہ آپ سمجھ گئی ہیں۔
بچے کو اپنی اس سے متعلقہ امید سے متعلق آگاہ کریں
بچوں سے کبھی نہ کہیں کہ آپ ان سے اچھائی کی امید نہیں کرتے ۔ بچوں سے آپ
جو چاہتے ہیں وہ کروانے کے لیے لازمی ہے کہ ان کو بتائیں کہ آپ ان سے کیا
چاہتے ہیں ۔ آپ کو ان سے کیا امیدیں ہیں۔ایک چھوٹی سی کہانی اس سلسلے میں
گوش گزار کرتی ہوئی ۔ ایک بنگلہ میں ایک ملازم تھا جس کے دو بیٹے تھے ۔ بڑا
بیٹا پڑھائی میں کچھ کمزور تھا جب کہ چھوٹا بیٹا لائق تھا۔ ایک بار وہ
بیٹوں کے ساتھ ملازم بنگلہ میں آیا ،اور صفائی کرنے لگا۔لڑکےیونہی ادھر
اُدھر گھوم رہے تھے۔ مالک اچانک سے کمرے میں آیا ملازم کو صفائی کرتے
دیکھا تو مسکراتے ہوئے اس سے کہا ۔ آج تم جلدی آ گئے ۔ ملازم نے اپنے
بیٹوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ مجھے اصل میں بچوں کو چیزیں لے کر دینی
ہیں اس لیے سوچا کام جلدی ختم کرکے چلا جاوں گا۔ مالک نے بچوں کو پاس بلایا
اور پیار سے پوچھا ۔ آپ لوگ پڑھنے ہیں ۔ بچے اس سے پہلے بولتے ملازم بول
پڑا ۔ جی یہ چھوٹاوالا بڑا لائق ہے پر بڑا والا بہت نالائق ہے۔ اس سے مجھے
کوئی امید نہیں ۔ مجھے نہیں لگتا یہ ذیادہ پڑھے گا ۔ چھوٹا والا ضرور افسر
بنے گا ۔ بڑے بچے کے چہرے پر افسردگی چھلکنے لگی اورچھوٹا والا خوشی سے
مسکرایا۔
دس سال بعد واقعی ایسا ہی ہوا۔ اس ملازم کا بڑا بیٹا سال بھر بھی مذید
تعلیم جاری نہیں رکھ پایا ۔ وہ کسی میدان میں بھی کامیاب انسان نہیں بن
پایا ۔ جب کہ اسی کے چھوٹے بچہ نے تعلیم جاری رکھی ۔وہ ہر لحاظ سے اپنے بڑے
بھائی سے کامیاب انسان بنا۔
ایڈیسن جس کو کون نہیں جانتا اس کی مثال :
ایڈیسن جب پانچ سال کا تھا تو اس کے سکول والوں نے اس کی والدہ کے نام ایک
خط بھیجا ۔ اس خط میں لکھا تھا کہ آپ کے بچہ کو پڑھنے لکھنے سے متعلق کوئی
بیماری ہے ۔ یہ عام بچوں کے ساتھ پڑھنے لکھنے کے قابل نہیں اس لیے آپ اپنے
بچے کو گھر ہی میں رکھیں ۔ اسے سکول نہ بھیجیں ۔ایڈیسن کی ماں کو خط پڑھ کر
بہت دُکھ ہوا ۔ایڈیسن نے اپنی ماں سے پوچھا کہ خط میں کیا لکھا ہے ۔ تو اس
کی ماں نے کہا ۔بیٹا سکول والوں نے جو خط لکھا ہے ۔ اس میں کہا ہے کہ آپ
کا بیٹا ایک جینئیس ہے ۔عام بچوں کے ساتھ اسے ہم پڑھا نہیں سکتے ۔ اس لیے
آپ اپنے بچے کی تعلیم گھر میں کریں ۔ ایڈیسن جب کامیاب ہو چکا تھا۔ تب تک
بھی وہ اس حقیقت سے آگاہ نہیں تھا۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا تو
گھر سے پرانا سامان نکالتے وقت والدہ کی چیزوں میں سے اسے سکول والوں کا وہ
خط ملا ۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی تمام تر کامیابی کی وجہ اس کی ماں کی وہ
بات ہی تھی کہ وہ عام بچوں سے ذیادہ لائق ہے۔
بچوں کو اپنی غلطیاں درست کرنے کے طریقہ کار سے اگاہ کریں۔
بچہ بعض اوقات ایسی غلطیاں کرتے ہیں ۔جن کو درست نہیں کیا جا سکتا اس کے
لیے آپ ان کو اپنی ان سےامید آگاہ کر سکتے ہیں ۔ مثلاً بچہ نے کانچ کا کو
بڑا پیس توڑ دیا ہے ۔ آپ اسے جوڑنے کا نہیں کہہ سکتے لیکن اگر آپ کی
بیٹھی نے آپ کی قینچی باکس سے نکالی اور واپس نہیں رکھی ۔ باغ میں رہنے کی
وجہ سے وہ زنگ آلود ہو چکی ہے تو آپ قینچی کو صاف کرنے کا طریقہ بچی کو
سمجھائیں ۔ وہ خود اسے صاف کرئے۔ اس طرح کام کرنے کے بعد اسے چیز کو سنبھال
کر رکھنے کا احساس ہو گا۔
اسی طرح اگر بچہ بار بار دودھ گِراتا ہو جبکہ وہ بارہ سال کا ہے ۔ آپ اس
سے بار بار اپنی امید بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ۔ بیٹا اب آپ بڑھے ہو گئے ہو ۔
بیٹھ کر آرام سے دودھ پیو گئے تو دودھ نیچے نہیں گِرے گا۔ وہ پھر بھی بیٹھ
کر دودھ نہیں پیتا تو آپ سے کپڑا ساتھ ہی دیں جبکہ کہ اسے دودھ پینا ہو
اور بولیں بیٹا اگر دودھ نیچے گِرے تو آپ اسے صاف کریں گئے۔
عمل انگیزی
بچے کو اگر کوئی اور طریقہ نہ سمجھ آئے تو آپ درست عمل کے ذریعے اس کے
غلط کام کو روک سکتے ہیں ۔ مثلاآپ ہر طریقے سے اپنی بیٹی کو سمجھا چکی ہیں
کہ جب وہ آپ کی سلائی کے باکس سے کوئی بھی سامان لے اسے اپنی جگہ پر رکھے
۔ آپ بتا چکے ہیں کہ سوئی کسی بھی جگہ پر رکھ دینا چھوٹے بہن بھائی اور
دوسروں کے لیے کس طرح بُرا ثابت ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ پھر بھی بار بار ایسا
ہی کرتی ہے تو آپ اپنا سلائی کا باکس لاک میں رکھ سکتے ہیں اور چابی کو
بھی کسی سیف جگہ رکھ سکتے ہیں ۔
بچی آپ سے آکر کہتی ہے امی مجھے سلائی کا باکس نہیں مل رہا مجھے قینچی
چاہیے ۔ مجھے بھائی نے بتایا کہ آپ نے لاک میں رکھ دیا ۔ آپ نے سلائی
باکس لاک میں کیوں رکھا۔ تو آپ بچی سے کہہ سکتی ہیں ۔ آپ بتائیں میں نے
باکس لاک میں کیو ں رکھا۔
جب آپ میری چیزوں کو واپس جگہ پر نہیں رکھیں گی تو وہ آپ کو نہیں ملیں
گی۔اسی طرح سے اپنے دیگر مساہل کو حل کر سکتے ہیں۔
مسلہ کے حل میں بچہ کی شمولیت
بہت سے مسائل میں بچوں کو شامل کرنے سے مسلہ کا حل آسانی سے نکل آتا ہے ۔
مثال لیں ۔ایک لڑکا عموماً دیر سے گھر آتا ۔ ماں ہر بار اسے کہتی کہ بیٹا
کھانا ٹھندا ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا میری گھڑی ٹوٹ گئی ۔کبھی کہتا میں بھول
گیا تھا۔ ماں بہت پریشان تھی کہ آخر کیا حل کیا جائے۔پھر ایک دن جب لڑکا
گھر آیا تو ماں نے اسے کھانا دینے کے بعد کہا ۔ کیوں نا آج ہم آپ کے
مسلہ کا حل کریں ۔ مل کر اپنے اپنے خیالات دیتے ہیں اور مسلہ کے حل بتاتے
ہیں ۔ جو ٹھیک لگے گا ،اور دونوں کے لیے قابل قبول ہو گا وہ ہم رکھ لیں
گئے۔ ٹھیک ہے۔ بچہ نے کہ ٹھیک ہے۔ گیارہ سال کا بچہ اور ماں دونوں ایک جگہ
کاغذ اور پنسل لے کر بیٹھ گئے۔ماں آپ شروعات کریں ۔حل بتایں۔
بچہ: میں خواہ کسی بھی وقت آوں ، آپ پریشان نہ ہو۔
ماں: لکھتے ہوئے ، کاش میں ایسا کر سکتی ۔ حل نمبر ایک ۔ آپ جب مرضی ہی
واپس آو میں پریشان نہ ہوں۔
ماں : حل نمبر دو، میں آپ کو لینے کے لیے روز آ جاوں تا کہ کھیل کے بعد
آپ کو واپس آنے میں دیر ہی نہ ہو۔
بچہ : نہیں نہیں، یہ ٹھیک نہیں ہے ۔ سارے بچہ میرا مذاق اُڑائیں گئے ۔ پہلے
ہی میرا ایک دوست مجھےماما بوائے اور کبھی کبھی بے بی کہتا ہے۔
ماں : لکھ لیتے ہیں ۔ بعد میں کراس کر لیں گئے ، قابل عمل حل وہی ہو گا ،جو
دونوں کے لیے قابل قبول ہو۔
اب آپ کی باری ہے ،کوئی اورحل تجویز کرو۔
بچہ :میری گھڑی ٹوٹی ہے اگر وہ ٹھیک ہو جائے تو میں جلدی آنے کی کوشش کروں
گا۔
ماں : آپ کی گھڑی پہلے بھی ٹوٹ چکی ہے ۔ہم اس پر بار بار پیسے خرچ نہیں کر
سکتی ۔
بچہ : میرے پاس کچھ پیسے ہیں ۔ ایک سو پندرہ روپے۔ کیا ان سے گھڑی ٹھیک ہو
سکتی ہے ۔
ماں : نہیں ، مگر کچھ کیا جا سکتا ہے ۔لکھتے ہوئے۔ حل نمبر تین ۔ گھڑی کو
ٹھیک کروایا جائے۔
ماں :حل نمبر چار، آج کل دن ویسے بھی بڑے ہو گئے ہیں ۔ہم پندرہ منٹ دیر سے
کھانا بھی کھا سکتے ہیں ۔آپ کا انتظار کرتے ہوئے۔
بچہ: صرف پندرہ منٹ۔
ماں : آپ کو ذیادہ وقت چاہیے۔
بچہ: جی ہاں ،بیس منٹ۔
چلیں اب دیکھتے ہیں مسلے کے حل کیا کیا ہیں ۔ کراس کس کس حل کو کیا جائے۔
پہلا حل ممکن نہیں ۔ کہ آپ لیٹ آو ۔میں پریشان نہ ہوں۔ بچہ نے کہا ۔دوسرا
حل بھی ممکن نہیں ہے ۔ آپ مجھے لینے آئیں ۔ مجھے میرے دوستوں کے سامنے
بُرا لگے گا۔ ماں نے او ۔ کے کہا۔ تیسرا حل دیکھ لیتے ہیں۔آپ کی گھڑی ٹھیک
کروا لیتے ہیں مل جل کر۔بچہ نے کہا یہ ٹھیک ہے۔
چوتھا بھی ٹھیک ہے بچہ نے کہا آپ پندرہ منٹ دیر سے کھانا بنایں ۔ماں نے
بچے کی طرف دیکھا اور کہا ۔ٹھیک ہے ۔ آپ جب بھی لیٹ آئیں گئے مجھے پہلے
سے بتا دیں گئے۔ تا کہ میں آپ کا کھانا اون میں رکھ سکوں ۔ وہ گرم رہے۔
مل جل کر مسلہ کے حل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچہ خود کو ایک زمہ دار
فرد سمجھنے لگتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی بات پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ بلکہ
اسے اپنی اہمیت کا احساس بھی ہوتا ہے۔
سزا کے نقصان :
سزا کے بہت سے نقصان ہیں ۔چنداہم نقصان یہ ہیں کہ :
1۔ بچہ وہی سیکھ لیتا ہے ۔جو آپ اس سے کرتے ہیں ۔ بات منوانے کا طریقہ کار
نرمی پر مبنی نہ ہو تو بچہ بھی سخت گیر ہو جائے گا۔
2۔بچہ کے ساتھ آپ کا تعلق استوار نہیں ہو گا۔ وہ چھوٹ بولنے لگے گا۔
3۔ بچہ جب بار بار ڈانٹ یا مار کا شکار بنے گا تو وہ عادی ہو جائے گا ۔ اسے
خاص فرق نہیں پڑے گا کہ اسے کیا کہا جا رہا ہے۔
4۔ بچہ مارنے والے سے دل ہی دل میں نفرت محسوس کرتا ہے۔
5۔ بچہ میں اپنی اہمیت کا احساس ختم ہو جاتا ہے اور اس میں عزت نفس مرجاتی
ہے۔
6۔ بچہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جس کی بنا پر وہ ہر میدان میں
پیچھے رہ جاتا ہے۔
7۔ بچہ میں باغی جذبات جنم لیتے ہیں۔
تمام ماہرین نفسیات اور بچوں کی تربیت کے ماہر افراد کا کہنا ہے کہ بچوں پر
سزا کے بہت بُرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ جو ان کی ہر قسم کی صلاحتوں کو
مثاثر کرتے ہیں۔ لہذا سزا کی بجائے متبادل طریقہ کار استعمال کر کے بچوں کی
تربیت درست انداز میں کی جا سکتی ہے۔
ایک عورت اپنی مثال بیان کرتی ہے کہ اس نے اپنی پانچ سالہ بچی کوکلر پنسل
دیے اور بولا کہ اگر وہ دیوار پر کلر کرئے گی تو اس سے کلر پنسل لے لی
جائیں گی۔ جب وہ واپس کمرے میں آئی تو بچی نے ای کلر پنسل سے دیوار پر کچھ
لکھا ہوا تھا۔ عورت نے اپنی بات کے مطابق اس سے کلرپنسل لے لیں ۔ دوسرے دن
عورت نے دیکھا کہ بچی نے اس کی لپ اسٹک سے واش روم کی دیوار پر لکھا ہوا
تھا۔ عورت کو بہت غصہ آیا لیکن اس نے اب کی بارسزا نہیں دی ۔ بلکہ بچی سے
کہا ۔ بیٹا آپ کو پتہ ہے ماما کو آپ کی وجہ سے کس قدر کام کرنا پڑے گا یہ
دیوار اور زمین صابن سے رگڑ رگڑ کر صاف کرنا ہو گی۔ کچھ دیر بعد عورت نے
دیکھا بچی دیوار اور ذمین صاف کرنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ پھر ماں نے اسے
صاف کرنے کا درست طریقہ سمجھایا تو تقریبادس منٹ تک بچی نے صفائی کرنے کی
کوشش کی ۔ ماں کو یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ۔ سزا کسی طور بھی بچوں کے دماغ
پر اچھا اثر نہیں ڈالتی ۔
بچہ کی خودمختاری کی حمایت
ہمارے ہاں اکثر بچوں کو ہر دُکھ درد سے بچانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اکثر
مائیں یہ ہی چاہتی ہیں کہ ان کے بچوں کو گرم ہوا بھی نہ لگے ۔ ایسی سوچ کے
ساتھ بچوں کو کچھ بھی خود سے کرنے نہیں دیا جاتا ۔ اکثر ان کے مسائل کے حل
ماں ،باپ تالی میں سجا کر دے دیتے ہیں ۔ ایسے بچہ خود سوچنے کی بجائےمسلہ
آنے پر بغلیں جھانکنے لگتے ہیں ۔ بچوں نے ایک دن خودمختار انسان کی طرح
جینا ہوتا ہے ۔ لازمی ہے کہ انہیں ماں باپ سوچنے سمجھنے۔ فیصلہ کرنے۔اور
اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع دیں۔ آپ دیکھیں گئے کہ بچہ جب خود سے کسی
مسلہ کا حل کر لیتا ہے۔تو کس قدر خوش ہوتا ہے۔
جو عام طور پر بچہ کے ساتھ کیا جاتا ہے ،اس کی مثالیں دیکھیں۔
1۔ایک چار سال کا بچہ ،بڑے بچوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھ رہا ہے۔ ماں کہتی ہے
بیٹا آپ اندر آجاہیں ۔ یہ نہ ہو گیند آ کر آپ کے سر پر لگ جائے۔
2۔کرسی پر بیٹھ کر بچہ ،کرسی کو پیچھے کی طرف حرکت دے کر جھولہ لے رہا ہے
،باپ اکر کرسی لے لیتا ہے ۔ بیٹا یہ کرسی الٹ جائے گی۔ اسے چھوڑ دو۔
3۔بچہ ٹیک لگا کر بیٹھا ہے۔ ماں کہتی ہے ۔ بیٹا آپ تھک گئے ہو سو جاو۔
4۔پڑوس سے کھانا آیا ہے۔ بچہ دیکھ کر کھانے کے لیے ہاتھ بڑھاتا ہے ۔ ماں
پلٹ پیچھے کر لیتی ہے۔ نہیں آپ یہ نہیں کھا سکتے۔ اس میں مرچی بہت تیز
ہوگی۔
5۔سمندر کا پانی گندا ہوتا ہے ، آپ اندر ہاتھ نہیں کریں گئے۔
6۔ اپنا غبارہ پنکھے کی طرف نہ پھینکو یہ پھٹ جائے گا۔ اگر اب یہ اتنا
اونچا گیا تو میں لے لوں گی۔
7۔سات سال کا بچہ رو رہا ہے اس کے دوست نے اسے مارا ہے۔ ماں کو بتا رہا ہے۔
تو ماں کہتی ہے۔ آپ آئندہ اس سے نہیں ملیں گئے۔ اب جب وہ آئے تو مجھے
بتانا ۔ میں دیکھ لوں گی۔
8۔ کپڑے لیتے ہوئے دوکان پر بچہ منہ بنا کر آگے پیچھے دیکھ رہا ہے۔ ماں
کپڑے دیکھتی ہے۔ کچھ کو انتخاب کرتی ہے،کچھ کو چھوڑ دیتی ہے۔
9۔ بچہ دودھ پی کر آدھا چھوڑ دیتا ہے۔ ماں آپ کو اپنا دودھ ہر حال میں
ختم کرنا ہے ۔
10۔کھیلنے کے بعد کوئی کھلونا اگر اپنی جگہ پر نہیں رکھا گیا تو وہ کھلونا
آپ کو دوبارہ نہیں ملے گا۔
اگر آپ ان جملوں پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم بچوں کو کٹپتلی کی طرح
سے ڈیل کرتے ہیں ۔ بچہ کو انتخاب کا موقع ہی نہیں دیتے۔ عمل کرنے کے بعد
عمل کے نتائج سے سیکھنا بچہ کے لیے کس قدر مفید ہو سکتا ہے۔ اس کا اندازہ
ہم کرنے پر راضی نہیں ہوتے۔ خود کو عقل کل قرار دے کر اپنی مرضی بچے پر
تھونپ دیتے ہیں ۔ جس سے بچہ کی صلاحتیوں کو اجاگر کرنا بھول جاتے ہیں۔
بچوں کو خود مختاری دینے کے طریقے
آپ اس بات کو ہمیشہ یاد رکھیں کہ بچہ نے کل ایک خودمختار فرد ہی بننا ہے۔
آپ نے تمام عمر اس کے ساتھ نہیں رہنا ۔ اسے فیصلے کرنے کی آزادی دینے سے
آپ اس کے اندر اس کی اہمیت کا احساس پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی
جیسے جذبہ کو اجاگر کریں گی۔ خودمختاری کو مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ تین سال
کے بچہ کو سڑک پر اکیلا چھوڑ دیں ۔کہ بیٹا خود سے سڑک کراس کر کے میری طرف
آ جاو۔ نہ ہی خود مختاری کا مطلب یہ ہے کہ بچہ کو ماچس سے کھیلنے دیا جائے
۔ بلکہ خود مختاری سے مراد بچے کو فیصلہ کرنے اور سوچنے کی اس حد تک آزادی
دینا ہے۔ کہ اس کا کوئی بہت بڑا نقصان نہ ہو۔ چھوٹی موٹی چوٹ ، تکلیف ۔ درد
کو سہنے سے بچہ کو پتہ چلے گا کہ اس کے عمل کا نتیجہ بُرا نکلا۔جو اس کے
لیے بہت اچھا ہو گا۔
فیصلہ کرنے کی رہنمائی مگر آزادی و خودمختاری
بچہ کی رہنمائی کریں لیکن اس پر اپنا فیصلہ نہ تھونپیں۔اکثر بچہ جو کرنے جا
رہا ہوتا ہے اس میں بڑا نقصان نہیں ہوتا ۔ آپ اسے اس کے عمل سے سیکھنے کا
موقع دیے سکتے ہیں ۔
مثالیں :
آپ پانی بھر رہی ہیں اور ٹینکی کا پانی گرنے لگا ۔ بچے نے دیکھا تو وہ
بھاگا ہوا آیا وہ بھی پانی کے نیچے آنا چاہتا ہے۔ آپ اسے بتاتی ہیں کہ
پانی جو ٹینکی سے گِر رہا ہے چیزوں کو چھو کر گِرتا ہے وہ گندہ ہے ۔ آپ
ابھی نہائے ہیں ، آپ کو پھر نہانا پڑے گا ۔ بچہ کچھ دیر سوچتا ہے اور اپنی
خواہش کے مطابق ٹینکی کے نیچے آ جاتا ہے ۔ اس کے کپڑے اور وہ گندے ہو چکے
ہیں ۔وہ اپنے منہ پر ہاتھ مار کی مٹی کی گندگی کو محسوس کرتا ہے۔
آپ مسکراتی ہیں اور بچہ کو واش روم میں جانے کا بولتی ہیں ۔ اس کی نہانے
میں مدد کرتی ہیں ۔ اب یہ بچہ جب سکول سے آ رہا ہوتا ہے تو ایک ٹینکی کا
پانی گِر رہا ہوتا ہے ۔ وہ اپنی امی سے فوراًٍ بولتا ہے امی سائیڈ پر ہو
جائیں ۔یہ پانی گندہ ہوتا ہے ۔ ہم گندے ہو جائیں گئے۔ نہانا پڑے گا۔ کپڑے
بھی دھونے پڑھیں گئے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ تھا۔ جو میرے بیٹے پر میں نے کیا۔
دوسری مثال دیکھیں۔
بچہ نے چاکلیٹ کا جار پورا اُٹھا لیا ۔ آپ نے اسے بتایا۔ بیٹا جار کا ڈھکن
بہت ٹائٹ ہے۔ بچہ نے آپ کی نہیں سنی اور بھاگ کر خود چاکلیٹ نکالنے کے لیے
جار اندر لے گیا۔ آپ نے بچہ کو جار کھولنے کا موقع دیا ۔اپنے کام میں لگی
رہیں ۔ تھوڑی دیر بعد بچہ جار لے کر واپس آگیا ۔ ممی یہ جار مجھ سے نہیں
کھلا۔ آپ نے مسکراہٹ کے ساتھ جار کھول کر ایک چاکلیٹ نکال کر بچے کو دے
دی۔
تیسری مثال
پروس سے کھانا آیا ہے ۔ وہ لوگ مرچ بہت تیز کھاتے ہیں ۔ بچہ نے جب کھانے
کی شکل دیکھی تو متاثر ہو گیا اور کھانے کی خواہش ظاہر کی۔ ماں نے بتایا کہ
بیٹا اس کھانے میں مرچ بہت تیز ہو گی۔ آپ کو لگے گی۔ کیا آپ پھر بھی
کھانا چاہو گئے۔ بچہ نے ہاں کہا ۔ ماں نے ایک گلاس پانی کا کھانے کے ساتھ
رکھا اور پیار سے کہا تھوڑا سا لے کر پہلے شروعات کرنا بچے نے ایسا ہی کی
میکرونی کو تھوڑا سا چھکنے کے بعد اس نے پورا گلاس پانی کا پی لیا ۔افسوس
سے بولا ،اوہ اس میں بہت مرچی ہے۔ مجھے تھوڑا اور پانی چاہیے۔یہ بھی میرا
ذاتی تجربہ ہے۔ اس سے بچہ کو نہ صرف آپ کی باتوں کا یقین ہو گا ۔ بلکہ اس
کی عزت نفس بھی برقرار رہے گی۔ اگر آپ ذبردستی بچہ سے کھانا چھین لیتے تا
کہ اسے مرچیں نہ لگیں تو اس کے دل میں کسک رہ جاتی کہ نہ جانے کس قدر مزے
کی چیز سے ماں نے مجھے دور کر دیا۔
بچہ کو ان کے عمل سے آگاہ ضرور کریں ،آپ کا بچہ اگر بجلی کے بورڈ سے کھیل
رہا ہے تو آپ اسے ایسا کرنے نہیں دیں کیونکہ یہ اس کے لیے بہت خطر ناک ہے
لیکن اگر آپ کا بچہ غبارہ کو چلتے ہوئے پنکھے کے ساتھ مارنا چاہتا ہے تو
آپ اسے بتانے کے بعد کہ غبارہ پنکھے کے ساتھ ٹکرانے کے بعد پھٹ جائے گا ۔
آپ اس سے مذید کھیل نہیں سکو گئے۔ آپ بچہ کو فیصلہ کرنے دیں کہ اسے غبارہ
کو پھاڑنا ہے یا پھر پنکھے سے دور ہی رکھ کر کھیلنا ہے۔
بچہ کی کوشش کو عزت دینا
عموماً بچہ کسی چیز کے لیے کوشش کر رہے ہوتے ہیں تو جب ہمیں لگتا ہے کہ وہ
نہیں کر پائے گا تو ہم اس کا مذاق اُڑا دیتے ہیں یا ہنستے ہیں ۔ بچہ ہر بات
اچھی طرح سمجھتا ہے ۔ بچہ کو مشاہدہ ہمارے مشاہدات سے بھی ذیادہ گہرا ہوتا
ہے۔
مثالیں :
پانچ سال کا بچہ خود اپنے بٹن بند کرنا چاہتا ہے۔ جبکہ آپ جلدی سے اسے
کپڑے پہنا کر کچن کا کام کرنا چاہتی ہیں ۔ وہ آپ کی بات نہیں سنتا اور
روتا اور چلاتا ہے کہ بٹن وہ خود ہی بند کرئے گا ۔ آپ غصے سے کچن میں چلی
جاتی ہیں ۔ کچھ دیر بعد بچہآتا ہے ۔اس نے بٹن تو بند کر لیے ہوتے ہیں لیکن
ان کو درست سوراخ میں نہیں ڈالا ہوتا ۔ آپ اس کی شرٹ کو دیکھتی ہیں اور
ہنستی ہوئی کہتی ہیں ۔ میں نے کہا تھا نا ،اب یہ دیکھیں آپ نے سارے بٹن
غلط بند کیے بچہ غور سے دیکھتا ہے تو اسے بھی غلطی محسوس ہو جاتی ہے ۔ وہ
جس خوشی کے ساتھ اپنا کارنامہ دیکھانے کے لیے آپ کو آیا تھا وہ شرمندگی
میں بدل جاتا ہے۔ دوسرے دن جب وہ سکول سے آتا ہے ۔ اسے کپرے پہنانے کے لیے
شرٹ کے بٹن بند کرتی ہیں تو کہتی ہیں ۔یہ لیں بند کر لیں تو وہ کہتا ہے
نہیں ،مجھے بند کرنا نہیں آتے۔
سوچیں اگر آپ اس کے کام کو سراہتی تو ایسا نہ ہوتا۔ بچہ اپنی معصوم کی
خواہش کے ساتھ آپ کو دیکھتا ہے ۔خواہش فقط اتنی ہوتی ہے کہ اسے سراہا جائے
۔ اس کی تعریف کی جائے ۔ جب ایسا نہیں ہوتا تو اس کے دل میں مایوسی کی
کیفیت جنم لیتی ہے۔ وہ کوشش کرنے کی بجائےآپ کے پیچھے پیچھے سر تسلیم خم
کیے چلتا جاتا ہے۔ پھر جب اسے آپ کی عادت ہو جاتی ہے تو آپ چاہتے ہیں کہ
وہ بڑا ہو جائے اور اپنے مسائل خود حل کرنے لگے ۔ یہ بچے میں ایک رات میں
پیدا نہیں کیا جا سکتا۔
ایک چھوٹابچہ جب پہلی بار اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہوتا ہے تو اس کو ملنے والی
مسکراہٹ ہی اس کا حوصلہ بڑھاتی ہے کہ وہ دوبارہ سے کھڑا ہونے کی کوشش کرئے۔
بچہ کو عزت و محبت کا احساس دینا بہت ضروری ہے۔ بچہ کو اپنے کاموں میں شامل
کریں ۔ایسے کام جو وہ کر سکتا ہے اس کو دیں تا کہ اس میں اپنی اہمیت کا
احساس پیدا ہو۔ وہ اپنی زمہ داری کو سمجھنے لگے۔ کام دینے کے بعد بچے کو
کام کرنے کی آزادی دیں ۔وہ جس طرح چاہے اس کام کو انجام دے۔ مثلاًدو بھائی
لڑتے ہوئے جوتا بیڈ کے نیچے پھینک دیتے ہیں ۔ امی آتی ہیں تو بڑے بچے کو
بتاتی ہیں کہ ہم باہر جا رہے ہیں ۔ پتہ چلتا ہے کہ اس کا جوتا بیڈ کے نیچے
کونے میں گِر گیا ہے۔ امی کہتی ہیں ۔ آپ جلدی سے جوتا نکال کر پہن لیں تا
کہ ہم باہر جا سکیں۔ ایسا کہنے کے بعد امی کمرے سے چلی جاتی ہیں ۔ بچہ اب
خود طے کرے گا کہ اسے جوتا کیسے نکالنا ہے۔
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ بچہ کو مدد دینا لازمی ہے تو اسے عزت کے ساتھ مدد کی
پیشکش کریں ۔ مثلاً حساب کے سوالات مشکل ہوتے ہیں ،کیا میں آپ کی مدد
کروں۔
بہت ذیادہ سوال کرنے سے گریز کریں
بچوں کی خودمختاری کی حمایت کرتے ہوئے لازمی ہے کہ بچوں کو بہت ذیادہ
سوالات کا نشانہ نہ بنایا جائے۔ بچہ سے بہت ذیادہ سوال کرنے سے وہ پریشان
ہو سکتا ہے۔ مثلاً بچہ کرکٹ کھیل کر آیا ہے۔ آپ اسے دیکھتے ہی پوچھتی ہیں
۔ کافی دیر ہو گئی۔ کیوں تم تھکے ہوئے لگ رہے ہو۔ کون کون کرکٹ کھیلنے آیا
تھا۔ تم کیسا کھیلے۔ کیا تم اپنا ہوم ورک کر کے گئے تھے۔ اس طرح سوالوں ایک
سلسلہ بچہ کے آگے رکھنے سے بہت اچھا ہے کہ آپ مسکراہٹ کے ساتھ اسے خوش
آمدید کہہ کر چھوڑ دیں ۔ اگر اسے کچھ بتانا ہو گا تو وہ خود بتائے گا۔
مثلاًبچہ کرکٹ کھیل کر آیا ہے۔ آپ اسے مسکراہٹ کے ساتھ کہتی ہیں ۔فریش ہو
جاو پھر ساتھ میں جوس پیتے ہیں۔ بچہ کو کون سی حالت اچھی لگے گی پہلی یا
دوسری؟
بچہ کو اپنے سوال کے جواب تک پہنچنے میں موقع دیں
بچہ عمومی طور پر جب سوال کرتا ہے تو والدین پوری پوری کہانی سنانا شروع ہو
جاتے ہیں جبکہ بچہ جب سوال کرے تو بچہ کو اس طرح سے جواب دیں کہ وہ خود
سوچے سمجھے۔ مثلاًبچہ بارش کو ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو سوال کرتا ہے۔ بابا
بارش کہاں سے آتی ہے۔ باپ اسے جواب میں کہتا ہے۔ بارش ، بیٹا بارش کہاں سے
آتی ہے ۔آپ اس کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
بچہ ماں نانی ہر تیسرے دن ہمارے گھر کیوں آتی ہیں ۔ ماں بیٹا نانی ہمارے
گھر آتی ہیں ۔یہ بات آ پ کو حیران کر رہی ہے۔ یا یہ بات کہ وہ کس کام سے
آتی ہیں۔
بچہ کو بنی بنائی سوچ یا جواب مل جانے کی صورت میں اس کے اندر کی سوچ ختم
ہو جائے گی۔ بچے کو مذید سوچنے کے مواقع مہیا کریں۔
بچہ کو گھر سے باہر مدد تلاش کرنے پر راغب کرنا
بچے اپنے والدین کو ہی عقل کل سمجھتے ہیں ۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے ہیں
انہیں باہر کی دنیا سے واسطہ پڑتا ہے ۔ بچوں کو گھر سے باہر دوسرے لوگوں سے
مدد لینے پر راغب کریں ۔ انہیں یہ احساس دیں کہ گھر میں والدین کے علاوہ
بھی پوری دنیا میں ایسے لوگ ہیں جو اس کی مدد کرنے کے لیے موجود ہیں ۔
مثالیں دیکھیں۔
بچہ کہتا ہے۔ بابا میری بلی بہت بیمار بیمار سی لگ رہی ہے ۔ میں کیا کروں ۔
بابا نے بچے کی طرف پیار سے دیکھا اور بولے ۔ آپ اس کو کسی جانوروں کے
ڈاکٹر کے پاس لے جاو۔ کیا آپ لے جانا چاہو گئے؟
بچہ کہتا ہے۔امی مجھ سے حساب کے سوال نہیں ہو رہے ، آپ میری مدد کریں گی۔
امی بیٹا حساب واقعی ایک مشکل مضمون ہے ۔ کیا آپ اس مضمون کی ٹیویشن لینا
چاہتے ہیں ۔ کسی ایسے استاد سے جو آپ کی اچھے سے مدد کر سکے۔
بچہ خواہش ظاہر کرتا ہے۔ امی میں گٹار سیکھنا چاہتا ہوں ۔ امی کیوں نہیں
بیٹا ۔آپ پتہ کرو۔ اگر یہاں کوئی قریب میں ایسی جگہ ہو یا کوئی گٹار
سیکھانے والا ہو تو ۔
بچہ ضد کرت ہے ۔ بابا میرے سارے دوست چیونگ گم کھاتے ہیں ۔ آپ مجھے بھی لے
کر دیں۔ بابا اچھا ٹھیک ہے ۔ پہلے ہم دانتوں کے ڈاکٹر کی رائے لے لیتے ہیں
۔کہ چیونگ گم کھانا کیسا ہے۔
بچہ سے اس کی امید نہ چھینیں
بچہ سے کبھی اس کی امید اس کا خواب نہ چھینیں ۔ ممکن ہے کہ آپ کی دی ہوئی
امید اسے وہ پانے کے لیے حوصلہ دے جو بظاہر ممکن نہیں ۔ مثالیں دیکھیں ۔
بچہ امی میں سکول میں پارٹی پر ہونے والے ڈرامہ میں ہیرو کے لیے درخواست
کرنے والا ہوں ۔ کیا آپ سوچتی ہیں کہ میں ہیرو بن سکتا ہوں ۔ ماں بیزاری
سے دیکھتی ہے۔کہتی ہے ۔ مجھے نہیں لگتا کہ تم اتنے لوگوں کے سامنے ٹھیک سے
پرفامس دے پاو گئے۔ یہ سب چھوڑ کر پڑھائی پر توجہ دو۔
دوسری صورت میں ماں کہتی ہے ۔ اچھا تم پہلی بار پرفارمس کا سوچ رہے ہو۔
بیسٹ آف لک ۔ میں ضرور دیکھنے آوں گی۔ مجھے یقین ہے کہ تم اچھا پرفام کرو
گئے۔ آپ اگر بچہ کی جگہ ہوں تو کون کی صورت حال آپ کو پسند آئے گی۔
ایک بچہ اپنی ماں کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے ۔ امی میں ڈیڈی بننا چاہتا
ہوں ۔ مجھے ڈیڈی بننا ہے۔ ماں غصے سے چلاتی ہے ،کوئی اس عمر میں ڈیڈی نہیں
بن سکتا۔ پہلے بڑے ہو جاو۔ پھر جو چاہے بنتے رہنا ۔ بچہ مجھے ابھی ڈیڈی
بننا ہے۔ ماں غصہ سے میں نے کہا ہے نا ۔یہ ممکن نہیں ۔ تمہاری سمجھ میں
کیوں نہیں آتا۔
دوسری صورت میں بچہ جب ماں سے کہتا ہے مجھے ڈیڈی بننا ہے تو ماں کہتی ہے ۔
اوہ آپ کو یہ خیال کیسے آیا ۔ آپ ڈیڈی بن کے کیا کیا کرنا چاہیں گئے۔
اور کیا کیا نہیں کرنا چاہیں گئے۔آپ بچہ کی جگہ ہوں تو آپ کو کون سی صورت
حال بہتر محسوس ہو گی۔
لڑکی اپنی امی سے امی میں ضرور ڈاکٹر بنوں گی۔ امی افسردگی سےکہتی ہیں
،تمہارے رپورٹ کارڈ پر موجود نمبر دیکھ کر نہیں لگتا کہ تم سائنس لے پاوں
گی۔ سائنس لائق بچیاں لیتی ہیں ۔
دوسری صورت میں امی نے بچی کی طرف اطمینان سے دیکھا اور بولیں ۔ ضرور ڈاکٹر
بن سکتی ہو۔ کیوں نہیں ۔ ڈاکٹر بننے کے لیے کچھ ذیادہ محنت کرنا ہوتی ہے۔
بچہ کی خودمختاری کی حمایت کے لیے لازمی ہے کے ان چھ طریقوں کو آپ اپنے
ذہین میں رکھتے ہوئے عمل کریں ۔اگر آپ ان طریقوں کو مدنظر رکھیں گی تو بچہ
میں نہ صرف فیصلہ کرنے کی صلاحیت جنم لے گی ۔بلکہ وہ دوسروں سے مدد لینے
اور دوسروں کی مدد کرنے میں پیش پیش ہو گا۔
ماں باپ کے لیے یہ ایک کڑوی خوشی ہوتی ہے ۔جب ان کا بچہ یہ کہنے کے قابل ہو
جاتا ہے ۔میں خود سے کر لوں گا۔ مجھے آپ کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسا موقع آنا
والدین اور بچے دونوں کے لیے انتہائی ضروری ہے۔والدین کاایک اہم فرض یہ بھی
ہے کہ وہ اپنی اولاد کو ذہنی طور پر معاشرے سے ہم آہنگ ایک پر مسرت زندگی
گزارنے کا اہل بنائیں ۔جو اپنی صلاحتوں کو پوری طرح بروے کار لا سکےاور جس
کا بچپن اور لڑکپن کسی بڑی جذباتی ہلچل سے محفوظ رہے ۔بچوں کی درست جذباتی
و نفسیاتی تربیت پر توجہ دینا انتہائی ضروری ہے۔
تعریف اور تربیت
انسان کی زندگی میں تعریف وتادیب دونوں ہی بہت اہمیت رکھتی ہیں ۔ کسی بھی
انسان کو جب اپنے کاموں پر لعنت ملامت سننا پڑھتی ہے تو اسے اچھا نہیں لگتا
۔ اس سے کام کی بُرائی کا اظہار ہوتا ہے۔ عبدالرحمن ڈکیت کو جب سزا سنائی
گئی تو اس نے کہا جو سزا مجھے سنائی گئی ہے وہ میری ماں کو بھی ملنی چاہیے
،جس نے مجھے انڈے چرانے پر شاباش دی تھی۔ چوری کے لیے ترغیب وہی شاباش تھی۔
انسان تعریف کا بھوکا ہوتا ہے۔ بچہ ہمشہ اپنی تعریف سننا چاہتا ہے ،یہی وجہ
ہے کہ ماں ، باپ گاہے بگاہے اس کی تعریف کر کے کام نکلواتے ہیں ۔ عموماً
تعریف کرنے کے ٹھیک طریقوں سے نا آشنا والدین کو یہ شکایت ہوتی ہے کہ ان
کا بچہ تعریف کرنے پر بھی جگہ سے نہیں ہلتا ۔نہ ہی بات مانتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ بچوں کو بھی پتہ چل جاتا ہے کہ ان کی تعریف فقظ کام
لینے کے لیے کی جا رہی ہے۔ورنہ جو ماں باپ تعریف کر رہے ہیں ۔ اس میں کوئی
سچائی نہیں۔آرٹیکل کے اس حصے میں ہم تعریف کے درست طریقے کو بیان کرنے کی
کوشش کریں گئے۔
1۔ تعریف بیانیہ کی جائے۔
بچہ جب کوئی اچھا کام کرتا ہے تو والدین کھلے دل سے اس کی تعریف کر دیتے
ہیں ۔ مثلاایک بچی سکول کا کام لکھ رہی ہے وہ جلدی سے ختم کر لیتی ہے۔ امی
نے پاس آ کر دیکھا اور بولیں ۔واہ بھئی شاباش ۔ذبردست کام ختم بھی کر لیا۔
بچی ماں کی طرف دیکھتی ہے ۔دل میں سوچتی ہے،کہاں ذبردست ،میں نے کافی چھوڑ
چھوڑ کر لیا ہے۔
دوسری صورت میں بیانیہ تعریف میں بچے کی نہیں کام کی تعریف کی جاتی ہے۔ جس
کے باعث بچہ خود اپنی تعریف اخذ کرتا ہے۔ بچی کے کام کو دیکھ کر ماں نے کہا
۔ کام ختم ،یہ اوپر کی چار لائین تو لفظوں کو اچھی بناوٹ کے ساتھ لکھا ہے
آپ نے ۔ آپ کی خوش خطی اچھی ہو رہی ہے۔مارکل کا استعمال بھی ٹھیک ٹھیک
کیا ہے ۔ بچی نے لفظوں کی بناوٹ پر غور کیا اور دل میں کہا ۔ ہاں میں نے
دیکھ بھال کر الفاظ کی بناوٹ کی ہے۔
جو آپ نے محسوس کیا وہ بولیں۔
جب آپ نے بچے کو اچھا عمل کرتے دیکھا تو جو آپ کی محسوسات تھیں، ان کو
بہترین الفاظ میں ڈھال کر بچے کے لیے پیش کریں ۔ جیسے بچہ سکول سے آیا ۔اس
نے اپنا یونیفارم پہلی دفعہ خود سے تبدیل کر لیا ۔ اپنی امی کے پاس آ کر
کھڑا ہوتا ہے تو اس کی امی کو بہت خوشی ہوتی ہے ۔وہ کہتی ہیں کہ ۔ میرادل
آج بہت ہی خوش ہے کہ میرابیٹا آج اپنا کام خود کرنے کے قابل ہو گیا۔ سارے
بٹن بہت اچھے سے بند کیے ہیں ۔وہ اب بڑا لڑکا ہے نہ کہ ایک چھوٹا بچہ۔ بچہ
کو بھی اس قسم کی تعریف سے اعتماد ملے گا۔جب وہ دوبارہ سے اپنے بند بٹن
دیکھے گاتو اسے مذید تقویت ملے گی۔
ایک لفظی تعریف۔
بعض اوقات پوری کہانی کہہ دی جاتی ہے۔لیکن اصل بات جو بچے تک پہنچانا مقصود
ہوتی ہے وہ نہیں پہنچ پاتی۔یہ تعریف کرنے کی ایک ایسی تکنیک ہے کہ جس کے
تحت بچہ کو پوری بات ایک لفظ میں ہی کہہ دی جاتی ہے۔ مثال دیکھیں۔
بچہ امی کے پاس آ کر بولتا ہے ۔ امی آج میں فٹ بال کھیلتے ہوئے گِرا ۔
مجھے شدید درد تھا مگر میں نے پھر بھی کھیل جاری رکھا۔ آپ کو پتہ ہے۔ جب
ہم جیت گئے تو درد میں شدت نہیں رہی۔ سب کہہ رہے تھے کہ اگر میں کھیل چھوڑ
دیتا تو ہم ہار جاتے۔ ماں نے قابل ستائش نظروں سے بیٹے کی طرف دیکھا اور
بولی۔ اسے کہتے ہیں قوت ارادی۔
ایک بچی ماں کے پاس آئی اور بولی امی آپ کو پتہ ہے۔آج میری دوست کچڑ میں
گِر گئی ۔سب نے اس کا خوب مذاق اُڑایا ۔ مجھے غصہ آیا میں نے سب کو ڈانٹا
۔میں اس کے گھر تک اس کے ساتھ گئی تا کہ اسے حوصلہ ہو۔ ماں نے بچی کو مسکرا
کر دیکھا اور بولی۔ واہ اسے کہتے ہیں ،وفاشعاری۔
تعریف کرتے ہوئے تعریف کے تمام پہلووں کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ تعریف عمر
اور وقت کو پیش نظر رکھ کر کرنی چاہیے۔ ایک چھوٹے بچہ کے لیے آپ کے جو
الفاظ تقویت کا باعث بنتے ہیں ۔ وہی الفاظ ایک نوجوان بچے کے لیے بے عزتی
ہو سکتے ہیں ۔ ممکن ہے وہ اس کے دل و دماغ میں آپ کے لیے دوری ڈال دیں ۔
الفاظ کے چناو میں دھیان سے کام لیں۔
ایک لفظ میں تعریف کو بیان کرنا۔
جب آپ بچے کی تعریف کرنا چاہتے ہوں تو ساری حالت کوبعض اوقات ایک لفظ میں
بیان کر سکتے ہیں۔ جس سے بچے میں فخر کا احساس جنم لے گا۔ مثلاًبچہ کو آپ
نے ایک وقت مقرر دیا تھا۔ وہ اس وقت پر آپ کے پاس آ کر اپنا کیا ہوا کام
دیکھا دے۔تو آپ اسے کہہ سکتے ہیں کہ ذبردست ٹائم مینجمینٹ ۔
بچہ کے پاس ایک ہی چاکلیٹ تھی اس نے جب اپنے بھائی کو روتے دیکھا تو وہ اسے
دے دی۔ آپ اس حالت میں اسے ایک لفظی تعریف کرتے ہوئے کہہ سکتے ہیں ۔اسے
کہتے ہیں مہربانی۔
اسی حالت کے پیش نظر آپ اپنے خیالات بھی بیان کر سکتے ہیں ۔ آپ نے بچے کو
اپنی چاکلیٹ اپنے چھوٹے بھائی کو دیتے دیکھا تو آپ کیا محسوس کر رہے ہیں
۔اپنی محسوسات کو بچے کو بیان کیجئے۔ ایسا کرتے ہوئے بچے کی عمر اور سمجھنے
کی صلاحیت کا خاص خیال رکھیں۔
بچوں کو کام کرنے کی آزادی دیں
آپ نے بھی عموماً سنا ہو گا کہ خواہ کوئی کتنا ہی بڑا ہو جائے ،ماں کے لیے
وہ بچہ ہی رہتا ہے۔ وہ اس کے لیے فکر مندرہتی ہے۔ ہمارے ہاں کا المیہ ہے کہ
مائیں اپنے بچوں کو خود سے سوچنے سمجھنے ،کچھ کرنے ۔ سہنے ،محسوس کرنے کی
اجاذت دینے سے کتراتی ہیں ۔ اکثر عورتیں اپنے بچوں کے لیے بہت انتہا پسند
ہوتی ہیں ۔ آپ نے اکثر عورتوں کو یہ کہتے سنا ہوگا۔ اللہ میرے بچوں کو گرم
ہوا بھی نہ لگنے دے۔ اللہ ان کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔ سوچنے کی بات
تو یہ ہے کہ اگر سچ میں بچہ کبھی کسی مشکل کا شکار نہیں ہو گا تو وہ مشکلات
سے نبرد آزما کیسے ہو گا۔ وہ نرم و نازک پھول ہی بن کر رہ جائےگا۔ جسے جو
چاہے مسل دے۔ بچوں کو مشکلات سے نکلنے میں ان کی مدد کریں ۔ مدد بھی اس
صورت میں کریں ، جب بچہ آپ سے مدد کا طلبگار ہو۔
بچوں کو لیبل نہ کریں
چھوٹے بچے اپنے بارے میں ماں باپ کی نظر رائے بناتے اور سوچتے ہیں ۔ بچوں
کو ہمیشہ اچھی نظر سے دیکھیں ۔ بچوں کے سامنے نہ کہیں کہ وہ غصہ والے ہیں ۔
اگر ان کے سامنے ایسا کہہ جائے گا تو وہ مذید غصے میں رہنے لگے گا۔
ایک بچہ جس کو آپ شرمیلا کہتے ہیں ۔ سب سے اس کے شرمیلا ہونے کا تذکرہ
کریں گئے ۔ آپ کے ساتھ ساتھ آپ کے دوست بھی اس کے شرمیلا ہونے کا تذکرہ
کرتے رہیں گئے تو بچہ کے دل میں نقش ہو جائے گا کہ وہ شرمیلاہے۔سب اگر اسے
شرمیلا کہتے ہیں تو اسے شرمیلا ہی ہونا چاہیے۔
اسی طرح بار بار بچے کو نالائق ، بے حس ، لالچی کہنے سے بھی گریز کریں ۔
آپ کے دیئےگئے لیبل بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ بچوں کے
بارے میں ان کو رائے دیتے ہوئے بھی اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ آپ کون سے
الفاظ کا استعمال کررہے ہیں ۔ الفاظ بچے کی عمر کے مطابق بھی ہیں یا
نہیں۔بچے کی جگہ خود کور کھ کر دیکھیں ۔ آپ کو کیسا لگے گا جب آپ کا دیا
ہوا لیبل آپ پر چسپاں کیا جائے۔ مثلاً آپ نے کچھ کرنے کی کوشش کی اور وہ
خراب ہو گیا۔ آپ سے آپ کا بوس کہتا ہے۔ تم سے کوئی امید نہیں ۔ تم کبھی
ٹھیک سے کام کر ہی نہیں سکتے۔ کیا آپ دوبارہ سے جذبہ کے ساتھ کوشش کریں
گئے۔
آپ کو کوئی کہتا ہے۔ تمہارے تو ہاتھ ہی ایسے ہیں جس کام کو کرو گئے خراب
ہی ہو گا۔ آپ کو کیسا محسوس ہو گا۔
بچوں کو لیبل کرتے ہوئے ضرور ان کی محسوسات کا خیال رکھیں ۔کیونکہ چیزیں
پھر بن جاتی ہیں لیکن بچہ اپنے بارے میں جو رائے بنا لیتا ہے ۔اسے تبدیل
کرنا انتہائی مشکل ہو جاتا ہے۔
ایسے حالات و مواقع پیدا کرنا کہ بچہ اپنے متعلق نئی رائے بنا سکے
ایسا بچہ جو اپنے متعلق بے وقوف اور نالائق ہونے کا لیبل عرصے سے برداشت کر
رہا ہے۔ اسے اس لیبل سے نکلنے میں مدد دینے کے لیے لازمی ہے کہ ایسے حالات
پیدا کیے جائیں کہ بچہ ایک نئی رائے اپنے متعلق بنا سکے۔ مثلاً بچہ کے زمہ
کوئی کام لگا دیں ۔ جس سے اسے احساس ہو کہ وہ بھی قابل ہے۔ اس سلسلے میں
ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بچہ بہت اداس بیٹھا تھا ۔ اس کی ماں نے اس سے
پوچھا ۔ بیٹا آپ کو کیا ہوا ہے تو بچے نے اداسی سے کہا۔ میں ہر شے بھول
جاتا ہوں ۔ میں بہت بے وقوف ہوں ۔ اس کی ماں نے کہا ۔ نہیں بیٹا ایسا نہیں
۔ لیکن پھر اس نے رٹ لگا لی ۔ میں کسی کام کا نہیں ۔ماں کو یاد آیا کہ جب
پچھلے ہفتے وہ سیر کے لیے جانے لگے تھے تو گاڑی کی چاپی نہیں مل رہی تھی۔
بچہ نے ڈھونڈ کر دی تھی۔
ماں نے ٹیکنیک کا استعمال کیا ۔ دھیرے سے بولی اس ہفتے کہاں سیر کے لیے
جانا چاہو گئے۔ بچہ کو فوراً یاد آیا ۔ کیسے اس نے اپنی ماں کی چاپی
ڈھونڈنے میں مدد کی تھی۔ وہ خود ہی خود سے بڑبڑھایا۔ میں اب اتنا بھی بے
وقوف نہیں ہوں ۔ پچھلے ہفتے میں نے ہی تو امی کوکار کی چابی ڈھونڈکر دی
تھی۔ میں بھی دوسروں کی مدد کر سکتا ہوں ۔ بچہ نے خود ہی اپنے متعلق رائے
بدل لی ۔ جبکہ ماں نے دوسری بار خود کو بے وقوف نہ کہنے کا نہیں کہا۔
میرے پانچ سالہ بچے نے پانی ڈالتے ہوئے گلاس بھر جانے کے بعد بھی پانی
ڈالنا بند نہیں کیا۔ جب میں نے اس کی طرف گھور کر دیکھا تو اس نے فوراًبوتل
میز پر رکھتے ہوئے ، مجھ سے سوال کیا۔ ماما کیا میں گندہ بچہ ہوں ۔ تو میں
نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ نہیں آپ گندے بچے نہیں ہو ۔ لیکن جو آپ کر رہے
ہو ۔وہ اچھی بات نہیں ہے۔ اس نے بوتل کو کیپ لگائی اور کرسی سے اُٹھ کر چلا
گیا ۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں پانی صاف کرنے والا
مپ تھا۔ اس نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ پانی صاف کر دے۔
بچہ کے اچھے عمل کا اعادہ کرنا
ماضی میں جو اچھے کام بچہ نے کیے ہوں ان کو بچے اور دوسرے لوگوں کے سامنے
دہرانا ۔ دوسروں کو بتانا کہ اس بچے میں یہ بہت اچھی بات ہے ۔بچے کو اچھے
کام کرنے کے لیے راغب کرتا ہے ۔ اسی طرح بچے کے غلط کاموں کو بار بار ذکر
کرنے سے نہ صرف بچے کو بُرے کام کرنے کی طرف رغبت ملتی ہے بلکہ بچہ کے دل
میں نفرت کا احساس بھی جنم لیتا ہے۔ کوئی بھی انسان دوسروں کے سامنے خود کو
اچھا ہی کہلانا چاہتا ہے۔
نئے عمل سے نئے ردعمل کا حصول
کسی بھی دوسرے انسان کے ساتھ آپ کے رویے،بات کرنے کے انداز اور عمل کے
باعث ہی رد عمل جنم لیتا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان پر اپنے رویے سے گہرے
اثرات مرتب کرتا ہے ۔ بچے بڑوں کے رویے اپناتے ہیں ۔ معاشرے اور اپنے ارد
گرد کے ماحول سے ہی سیکھتے ہیں ۔ آپ کے اندر صبر اور برداشت کو بچے محسوس
کرتے ہیں ۔ مشکل وقت میں وہ ویسے ہی رویے چنتے ہیں جیسے رویے وہ لوگوں کے
دیکھتے ہیں ۔ جیسا ان کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ جیسا ان سے امید کیا جاتا
ہے۔ جیسا ان کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اپنے بچوں میں تبدیلی چاہتے
ہیں تو آپ کو سب سے پہلے جو کام کرنا ہے وہ اپنی ذات میں تبدیلی ہے۔ یہ
مکمل آرٹیکل آپ کو اسی صورت میں فائدہ دے گا ۔ جب آپ اپنا مکمل تجزیہ
کریں گئے۔ کیسے اور کیوں بچہ غلط رویے ظاہر کرتا ہے۔ آپ کا اس میں کیا
کردار ہے۔ یہ سوچنے کی بجائے کہ بچے کو کیسے بدلا جائے یہ سوچنا چاہیے کہ
ہم خود میں کس طرح کی تبدیلی لائیں ،جس سے بچے کے ردعمل ایسے ہوں ۔جیسے ہم
چاہتے ہیں |