عوامی مسلم لیگ پاکستان کے سربراہ شیخ رشید احمد ایسے
جرات مند دلیر لیڈر ہیں جنہوں نے زمانہ طالب علمی سے محنت ،ریاضت مشکل کٹھن
حالات کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے جاگیرداروں ، صنعت کاروں اور مالی اثر و
رسوخ کا لامنتاہی سلسلہ رکھنے والے سیاستدانوں کی موجودگی میں اپنا ایک الگ
، منفرد مقام ، پہچان بنا ئی ہوئی ہے۔ جس کے ساتھ ہیں ڈنکے کی چوٹ پر
ہیں۔کوئی منافقت مصلحت پسندی ہے نہ کرپشن کا الزام ان پر لگایا جاسکتا ہے،
شیخ رشید اور لال حویلی ایک دوسرے کا ایسا تعارف ہیں جو کسی بڑی جماعت،
عہدے اور مروجہ سیاست کے محتاج نہیں ہیں، برصغیر پاک و ہند سمیت جہاں جہاں
اردو، پنجابی سمجھنے والے ہیں ان کو جانتے پہچانتے ہیں ۔ خالصتاً عام عوامی
مزاج کے مالک شیخ رشید میڈیا کی مجبوری ہیں، میڈیاان کی مجبور ی نہیں ہے۔
الیکٹرانک میڈیا کے تو محسن ہیں اور میڈیابھی اپنے محسن کا خاص خیال رکھتا
ہے وہ قومی سیاست کے ایسے کھلاڑی ہیں جن کے پاس وسیع مال دولت ، جائیداد،
اندرون بیرون ملک اثاثے جائیدادیں ہوتیں تو کسی بڑی جماعت کے سربراہ اور
وزیراعظم بھی ہوجاتے بحیثیت پاکستانی، کشمیریوں کے لیے ان کے دل میں بے
پناہ محبت خلوص کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔1988 کی تحریک کشمیر کے دوران
مقبوضہ کشمیر سے آنے والے حریت پسند نوجوانوں کی راولپنڈی میں رہائش سے لے
کر کھانے سمیت سہولیات دیتے ہوئے طویل عرصے تک میزبانی کا فریضہ۔ بغیر کسی
شور و غل اور تشہیر کے سرانجام دیتے رہے جن کا ذکر لبریشن فرنٹ کے قائد
امان اللہ خان مرحوم نے اپنے کتاب جہد مسلسل میں خصوصی طور پر کیا ہے۔ ملکی
مفاد، عوامی مفاد سے ہی تعلق رکھتا ہے اور قومی، ملی مفادات کے حوالے سے
بڑی سے بڑی بات کرجاتے ہیں جو اور کوئی بڑے سے بڑا سیاستدان کر سکتا ہے نہ
کسی بھی اور تیس مارخان کی ہمت ہے۔ مزاج عادات کے حوالے سے اپنے ہی انداز
ہی آزادکشمیر میں صاف و شفاف انداز میں بات کرنے والے خالد ابراہیم ہیں ،
وزیراعظم فاروق حیدر کا بھی بغیر لگی پٹی کے بات کرنے والوں میں شمارہوتا
رہا ہے مگر جو بات پاکستان میں شیخ رشید کی ہے وہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا
۔ دو تین ماہ قبل اسمبلی اجلاس کے دوران میڈیا گیلری میں خالد ابراہیم نے
صاف لفظوں میں کہا کہ ہمیں کوئی ایسا سی پیک نہیں چاہیے جو تحریک آزادی پر
آنچ آنے کا باعث بنے۔ وہ گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت سے متعلق ایشو پر
اظہار خیال کر رہے تھے گزشتہ دونوں کے خبر نامے میں شیخ رشید کے سی پیک سے
متعلق اظہار رائے کی خبر چلی جنہوں نے کہا کہ منصوبے کی اہمیت سے انکار
نہیں مگر پاکستانی قیادت کو اس پر آنکھیں بند نہیں رکھنی چاہئیں ملکی خود
مختاری، مفادات کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے ۔ چینی کمپنییاں منصوبہ جات میں
مزدور تک اپنے لائی ہوئی ہیں۔ اسلام آباد میں جو ہوٹل وغیرہ بنائے جارہے
ہیں ان میں چائنیز کے علاوہ کوئی داخل نہیں ہو سکتا ۔یہ پاکستان چین اکنامک
کا ریڈور نہیں بلکہ چین کاریڈور ڈیفنس ہے۔ شیخ رشید کی خبر سے پہلے تحریک
انصاف کے سربراہ عمران خان کی گفتگو بھی خبرنامہ کا حصہ تھی جس میں انہو ں
نے کہا کہ مستقبل کے تناظر میں پیک کی مسلمہ حیثیت سے جس میں پاکستان کی
جغرافیائی اہمیت مرکزی حیثیت رکھتی ہے جس سے بڑے فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں
تاہم اس کے لیے پاکستان کے افغانستان، ایران ، بھارت سے اچھے تعلقات ضروری
ہیں اور یہ تب ہی ممکن ہے جب باہمی تنازعات ، ایشوز حل کرلیے جائیں، یقیناً
ان کی مراد کشمیر ایشو تھایہ حل ہو جائے تو ایک دن امن قائم ہو کر ہی رہے
گا جس کے بعد سی پیک کی اہمیت پاکستان کے بھارت افغانستان، ایران سے اچھے
تعلقات کے تناظر میں سونے پر سہاگہ جیسی ہو ئی جائے گی ۔ عمران خان اور شیخ
رشید کے سی پیک سے متعلق خیالات کی ٹی وی سکرین پر سنتے ہوئے چار چھ ماہ
قبل قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی خبر ذہن میں تازہ ہو گئی
چائنیز سارے روٹ پر پاکستان کے اندر راہداری ٹیکس دینے کے پابند بھی نہیں
ہے جس پر قائمہ کمیٹی نے حیرت کا اظہار کیا پھر پاکستان کو کیا ملے گا یہاں
نیلم جہلم ہائیڈل پراجیکٹ لاگت چوگنی ہو گئی ہے اور مدت سے زیادہ عرصہ گزر
جانے کے باوجود تکمیل باقی ہے۔ شاہراہ نیلم کے حالت زار بھی معیار نہ ہونے
کاکھلا ثبوت ہے اور بہت سارے ایشوز مستقبل میں بہت بڑے چیلنجزکے امکانات کا
ابھی سے ادراک ضروری ہے۔ اب ملکوں کے تعلقات خالصتاً معاشی، اقتصادی مفادات
کے تابع ہیں۔ اس لیے لازمی ہے کہ پاک چین ہمالیہ سے بلند اور مضبوط دوستی
کو فولاد سے زیادہ طاقت ور رکھنے کے لیے پاک چین باہمی مفادات کا مستقل
محفوظ اور پائیدار رکھنے کے لیے شیخ رشید نے جس طرف اشارہ کیا ہے اس کو
سمجھتے ہوئے فوری اقدامات کیے جائیں اور عمران خان کی گفتگو میں پوشیدہ بات
کو سمجھتے ہوئے موجودہ حالات کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے کشمیر ایشو سمیت
درپیش چیلنجز کا حل کرایاجائے۔جس کے لیے چین اور روس کی عالمی حیثیت سے
استفادہ ، محفوظ خوشحال مستقبل کا ضامن بن سکتا ہے۔ افغانستان ، ایران ،
بھارت پڑوسی ہیں جو بدلے نہیں جاسکتے ان سمیت خطے سے جڑی عالمی قوتوں کی
امن کی خواہش وایشیاء کی جانب عالمی قیادت سنبھالنے کی راہیں کشمیر کے
راستے سے گزرتی ہیں ۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے میں ہی پاکستان بھارت
افغانستان ، ایران سمیت ایشیا کی ریاستوں کا محفوظ خوشحال مستقبل کا راز
پوشیدہ ہے۔
|