کہتے ہیں فلمیں معاشرے کی عکاس ہوتی ہیں جوکہ کچھ اِس
انداز سے بنائی جاتی ہیں کہ جس میں شائقین کے لیے سبق نصیحت یا رہنمائی کا
پہلو نکلتا ہو. آج کل دوسال قبل ریلیز ہونے والی ساؤتھ انڈین مووی باہوبلی
دی بگنیگ کے بڑے چرچے ہیں. جسکا دوسرا حصہ باہوبلی دی کنکلوژن 28 اپریل
2017 کو دنیا بھر کے سینما گھروں میں ریلیز ہوچکا ہے. اِس فلم کو تین
زبانوں ہندی تامل اور تیلگو میں ایک ساتھ ریلیز کیا گیا ہے. ڈھائی سو کروڑ
کے بجٹ سے بننے والی یہ فلم بھارت میں اب تک کی تمام سپرہٹ فلموں کے ریکارڈ
توڑ چکی ہے . جو کہ اپنی ریلیز کے پہلے دن سو کروڑ اور دو ہفتوں کے دوران
بارہ سو کروڑ روپے کا کامیاب بزنس کرتے ہوئے باکس آفس پر اب تک کی سب سے
بڑی سپرہٹ فلم ہونے کا اعزاز اپنے نام کراچکی ہے. فلم کی اسٹوری دو بھائیوں
کے درمیان راج سنگھاسن کی وہی رواتی کشمکش پر مبنی ہے جسے ایک نئے منفرد
انداز میں فلمایا گیا ہے. ایکشن سے بھرپور اِس فلم میں انتہائی جدید
ٹیکنالوجی کا استعمال شائقین میں مزید دلچسپی کا سبب بنا. بظاہر تو فلم کی
مقبولیت کی دو اہم وجوہات سامنے آتی ہیں. جس میں ایک تو فلم کا وہ سسپنس ہے
جو فلم کے پہلے حصہ میں ادھورا چھوڑ دیا گیا تھا جس میں باہوبلی کا انتہائی
قریبی وفادار ساتھی کٹپا کے ہاتھوں باہوبلی کو قتل ہوتے دکھایا گیا تھا.
جبکہ فلم میں شائقین کی دلچسپی کی دوسری بڑی وجہ فلم کا مرکزی کردار
امریندر باہوبلی ہے جو اپنے کردار میں مکمل ڈھل کر ایک نائیک کا کردار
نبھانے میں کامیاب رہا جس میں اسے انتہائی نڈر جانباز سپہ سالار ہونے کے
ساتھ ساتھ اپنی ماں راج ماتا شیوگاموی دیوی کا انتہائی فرمانبردار بتایا
گیا ہے. جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی باعث راج ماتا شیوگاموی دیوی کا اعتماد
اور رعایا کی ہمدردیاں سمیٹنے میں کامیاب ہوجاتا ہے. راج ماتا شیوگاموی
دیوی باہوبلی کو مہیشمتی سنگھاسن کا راجہ بنائے جانے کا اعلان کرتی ہے. جس
پر اس کا دوسرا بیٹا بھلال دیو جو فلم کا کھل نائیک ہے امریندر باہوبلی کے
خلاف سازشیں شروع کردیتا ہے. اور بالآخر ایک کامیاب سازش کے تحت باہوبلی
اور راج ماتا شیوگاموی دیوی کے درمیان دراڑیں ڈالنے میں کامیاب ہوجاتا ہے
اور ایک ماں سے اس کے بیٹے کو باغی قرار دلواکر قتل کروادیتا ہے اور خود
راج کے سنگھاسن پر براجمان ہوجاتا ہے.
اب آتے ہیں کمال اِن ایکشن کی طرف جو چودہ مئی کی رات نشر ہوئی بلکہ نشرِ
مقرر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا. اِس کا پہلا حصہ میرا دیکھا ہوا ہے جو کہ
تیس سال پہلے ریلیز ہوچکا تھا. شاید آپکو یاد ہوکے نہ یاد ہو اور اب اِسکا
دوسرا حصہ گذشتہ روز دیکھنے کو ملا. پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال
نے کراچی کے حقوق کے لیے ملین مارچ کا اعلان کیا اور دورانِ مارچ شیلنگ کا
سامنا کرتے لاٹھیاں ڈنڈے کھاتے ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیے گئے. اُس دن کمال
صاحب کا غصہ دیکھنے لائق تھا. سب کو ڈر یہ کہ جذبات کی رو میں بہہ کر کہیں
22 اگست نہ کردیں خیر کچھ ہوتا اِس سے پہلے گرفتار کرلیے گئے. اس دن سوشل
میڈیا پر جیسے ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہو ایکٹیوسٹ ایسے ہائی الرٹ ہوئے کہ
اتنی افراتفری تو کمال صاحب کے مارچ میں نہیں دیکھنے کو ملی جتنی بے چینی
سوشل میڈیا پر دیکھنے میں آئی جبکہ تمام ایکٹوسٹ نے اُس وقت تک سوشل میڈیا
پر دھرنہ دئیے رکھا جب تک کمال صاحب اپنے گھر کو نہ ہولیے. قصہ مختصر یہ کہ
اگر میں کمال اِن ایکشن کو فلم باہوبلی کے تناظر میں دیکھوں تو فلم کے دیگر
کرداروں کو آپ پر چھوڑتے ہوئے جس کی جس سے چاہیں مشابہت کی آزادی دیتے ہوئے
میں فلحال صرف یہ دیکھنا چاہونگا کہ کیا کمال صاحب امریندر باہوبلی کے بیٹے
مہیندر باہوبلی کا کردار ٹھیک سے نبھاپاتے ہیں اور عوام کا اعتماد حاصل
کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا وہ بھی بھلال دیو جیسے سازشی عناصر میں گھر کر
غداری کا سرٹیفکیٹ ہاتھ میں تھامے ریاست کےلیے اچھوت قرار دیدئیے جاتے ہیں. |