کلبھوشن دھشت گرد ھے اور ھمیں باھم سول ملٹری ورکنگ شپ سے
باور کرانا ھوگا کہ ھم سب ایک ھیں : چوھدری نثار نے کہا یہ سب پریس کانفرنس
میں۔۔۔
سوشل میڈیا سمیت ھر طرح کے فورم پر اور پبلک مقامات پر بار بار صرف دو
باتیں کثرت سے کی جارھی ھیں
1- کلبھوشن بارے وزیراعظم کیجانب سے واضح مؤقف کا نہ آنا شبہات پیدا کرتا
ھے
2= بھارتی صنعتکار جندال کی مری آمد اور اسکے پیچھے کے محرکات جو میڈیا پر
بھی زیربحث ھے اسے مکمل کلیئر کیاجانا ضروری ھے
اور ان دونوں اھم معاملات کا حل یہی ھے کہ سول ملٹری قیادت یکسو ھوکر ایک
جگہ بیٹھ کر مشترکہ بیان جاری کرے اور کلبھوشن سمیت جندال کی آمد بارے
کامقصد کلیئر کیا جاناچاھیئے تاکہ سول ملٹری سرد تعلقات بارے ابہام کا
خاتمہ ھوسکے اور حالیہ فوجی ترجمان واضح کرچکے کہ وزیراعظم ریاست پاکستان
کی آئینی و قانونی طور اور جمہوری طور پر مکمل اتھارٹی کےمجازھیں۔۔۔ کیاھی
اچھا ھوکہ ملٹری قیادت ریاستی قیادت کیساتھ بیٹھ کر اس بات کو کلیئر کریں
اور جس طرح فوجی قیادت نے کھلے دل سے وزیراعظم کی اتھارٹی کو قبول کیا یوں
جمہوری طاقت کے حامل وزیراعظم بھی جندال بارے پھیلی باتوں پر ردعمل واضح
دیکر ساری قوم کو یکجہتی کا پیغام دیں تاکہ جہاں اپوزیشن مطمئن ھو وھاں
عوام کےاندر بےچینی کا خاتمہ ھو اور وزیراعظم خطے کی درپیش خراب صورتحال پر
سفارتی نقطہ نظر سے حکومت پاکستان کی پالیسی کو عسکری قیادت کی موجودگی میں
واضح کرے اور ھمسایہ ملک ایران سے اچھے تعلقات پر حکمت وضع کی جائے جبکہ
برادر اسلامی ملک سعودی عرب جہاں جنرل راحیل شریف اسلامی اتحاد فورسز کی
قیادت کیلۓ گئے اور میڈیا کی خبروں کیمطابق ایک بریگیڈ تازہ ریٹائر فوج کس
زمرے میں بھیجی گئی سمیت دلائل سے وضاحت کی جائے کہ مقدس مقامات کی حفاظت
مقصود ھے یا خطے میں چھڑی جنگ و خانہ جنگی میں کردار اد کرنے کیلئے گئی ھے؟
اور وضاحت ضروری ھےکہ پاکستان کی فورسز نہ سوویت یونین کیلئے اور نہ سعودی
اتحاد فورسز سمیت اقوام متحدہ کے زیرانتظام دنیابھر میں امن کے نام پر
کرائے کی فورسز کبھی نہیں بنی.. چونکہ کل کے جہادی آج دھشت گرد بن چکے یا
قراردیاجاچکا اور نائن الیون کے مبینہ واقعہ کی آڑ کے بعد جہادی قرار پانے
والوں پر ڈرون حملوں کا لامتناھی سلسلہ شروع ھوا ان ڈرون حملوں کو جہادیوں
نے فوج اور سول حکومت کی ملی بھگت قرار دیکر ان پر اسطرح حملہ آور ھوئے کہ
پاکستان بھر میں نہ رکنے والے بم دھماکے خودکش حملوں کے نتیجے میں 60 ھزار
پاکستانی جبکہ لگ بھگ 4 ھزار فوجی جوان و افسران کیساتھ ساتھ بڑی تعداد
پولیس اھلکاروں کی شہید کر دی گئی
پاکستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر تاحال داخلی صورتحال کو
تسلی بخش قرار نہیں دیاجاسکتاکہ کراچی، بلوچستان سمیت کئی مقامات پر مسائل
ابھی بھی موجود ھیں، آپریشن راہ راست، راہ نجات، ضرب عضب کے بعد اب
ردالفساد شروع ھے جس سے ثابت ھوتا ھے کہ ابھی سب اچھا نہیں ھے اور ملکی
سرحدوں کی صورتحال بھی قابل رشک نہیں کہ کشمیر کنٹرول لائن پر حالات کو
پرامن نہیں کہاجاسکتا اور پاک افغان سرحد پر بھی معاملات ابھی تک معمول پر
نہیں آسکے جبکہ ایران کے آرمی چیف نے بھی گزشتہ ھفتے پاکستان کےاندر
کاروائی کرنے کا بیان جاری کیا تھا اور کل کا مشرقی پاکستان جو آج بنگلہ
دیش ھے اس سے بھی ھمارے تعلقات اچھے نہیں اور نہ اچھے بنانے کی کوشش کی
گئی یوں سیاسی قیادت کو اب واضح کرناھوگا کہ اسقدر حالات کی خرابی میں جب
پاکستان کی فوجی قیادت بھانپ چکی کہ خطے کے تناظر میں معاملات ھاتھ سے نکل
سکتے ھیں یوں انہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سول قیادت کو آئینی
طور پر بالا دست مان کر گیند حکومت کی کورٹ میں پھینک کر ایک اچھی ترکیب کی
اور اب کہ حکومت کی ذمہ داری ھےکہ وہ داخلی سطح پر بااختیار اور ذمہ دار
وزیرداخلہ سے پوچھ گچھ کریں اور حکومت ان سے کہے کہ وہ حقیقی عملی کردار
ادا کریں نہ کہ لمبے وقت پر محیط بار بار پریس کانفرنسز کرکے وقت ضائع کریں
بلکہ اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کریں جبکہ اس بات سے الگ خود حکومت اس بات
کی جوابدہ ھے کہ وہ فل ٹائم وزیرخارجہ کا تقرر عمل میں کیوں نہیں لاسکی؟ اس
حوالے سے اصل باطنی معاملات کیا ھیں جسےمنظرعام پر نہیں لایاجاسکا اور اب
جب حکومت اپنا ٹائم پیریڈ مکمل کرتی نظر آرھی ھے اور پارلیمنٹ میں واضح
اکثریت کے باوجود قومی سلامتی کے حوالے سے داخلی و خارجی محاذ پر ناکام
کیوں رھی؟ حکومت کا سارے وقت بھارت کیجانب جھکاؤ کا پس منظر کیاھے؟ ایران
سے اچھے تعلقات استوار کرنے پر سنجیدگی کا مظاھرہ کیوں نہیں کیاگیا جبکہ
ایرانی اھم رھنماء حسن روحانی ایک موقع پر پاکستان دورے پر تشریف بھی لائے
مگر ان سے دوطرفہ تعلقات کی بہتری کیلئے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار نہ
کیاگیا اور ایسے موقع پر حکومت کو اپنے خدشات بیان کرنا چاھیئں تھے مگر
انکے جانے کے فوری بعد شور بلند نظر آیا.۔
یہ تمام حل طلب سوالات ھیں اور موجودہ خطے کی خراب صورتحال کے تناظر میں
عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے پارلیمنٹ میں اوپن بحث کی اشد ضرورت ھے تاکہ
تمام اداروں کیساتھ ساری قوم حکومت اور اپنی مسکح افواج کی پشت پر کھڑی نظر
آسکے۔۔
|