بیدار بخت کی مرتب کردہ کتاب ’باقیاتِ اخترالایمان ‘ کے
گراں قدر علمی ارمغان کے وسیلے سے ہماری ذہنی اور وجدانی ملاقات پورے
اخترالایمان سے ہوتی ہے۔اس میں ان کی بائیس متروکہ نظمیں شامل ہیں۔ یہ تمام
متروکہ منظومات اینگلو عربک کالج،دھلی کے رسالے میں شائع ہوئیں ہیں۔ جن میں
شاعر کے نام کے طور پر محمد اخترالایمان اور بعض جگہوں پر محمد اختر
الایمان انجم مرقوم ہے۔ جس کو بعد میں انھوں نے یکسر ترک کر دیا۔ یہ تمام
متروکہ نظمیں ان کے کسی بھی نظمیہ مجموعے ’گرداب‘ (1943)،’تاریک سیارہ
(1946)،’سب رنگ‘ (1948)،’آب جو‘(1956)،’یادیں‘(1961)،’بنتِ لمحات‘(1969)،
’نیا آہنگ‘ (1977)،’سرو ساماں‘ (1983)،’زمین زمین‘ (1990)، اور ’زمستاں سرد
مہری کا‘ (1997)میں شامل نہیں ہیں۔حتیٰ کہ کلیات اخترالایمان میں بھی یہ
نایاب ہیں۔ سلطانہ ایمان اور بیدار بخت نے مشترکہ طور پر ’زمستاں سردِ مہری
کا ‘ کو اخترالایمان کی وفات کے بعد مرتب کیا ہے۔
اخترالایمان اپنی مکتبی تعلیم کے درمیان ہی غزل پر طبع آزمائی کرنے لگے تھے
لیکن اسکولی تعلیم کے ایّام میں غزل گوئی کو ترک کر دیا اور پابند نظمیں
لکھنے لگے۔ جس کا سلسلہ بی۔اے کلاسیس تک چلتا رہا لیکن ان کے یہ بیشتر
غزلیہ اور نظمیہ کلام کلامِ موضوعversification) (سے زیادہ معنویت و اہمیت
کا حامل نہیں تھا۔ لہٰذا اختر الایمان نے ان کو اپنے کسی بھی شعری مجموعہ
میں شامل نہیں کیا ہے۔ تا ہم اس سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ وہ غزل بنیاد
تہذیب اور پابند نظم بنیاد تہذیب سے آشنا تھے لیکن جب وہ ترقی پسند ادب اور
بعد میں حلقۂ ارباب ذوق کے بڑے شعرا کی رفاقت میں آئے تو وہ نئی تجرباتی
نظمیہ گوئی کی طرف شعوری طور پر مائل ہوئے۔ پہلے وہ ترقی پسند تحریک کی طرف
راغب ہوئے۔ پھر وہ اس کے سِحر سے آزاد ہوکر حلقۂ ارباب ِ ذوق کے نمائندہ
ترین شعرا میرا جی،ن۔م۔راشد اور مختار صدیقی کی طرف مائل ہوئے۔ ان تمام بڑے
تجربہ پسند شعرا سے تخلیقی فیضان حاصل کر کے نئی تجرباتی نظموں پر طبع
آزمائی کرنے لگے۔ جب ان کے پاس تقریباً ایک سو پچاس نظمیں تیار ہو گئیں تو
انھوں نے نئی نظم کے علمبرداروں ن۔م راشد اور میرا جی کو اپنا طبع زاد کلام
منتخب کرنے کے لیے دیاکہ وہ ان میں سے اپنے شعور و وجدان کی رہنمائی میں
رَطب و یابس کو ترک کردیں۔ جس کے بعد تقریباً سوا سو نظمیں ن۔ م۔ راشد اور
میرا جی نے ’گرداب‘ سے شعوری طور پر متروک کر دیا۔ ’گرداب‘ میں صرف چوبیس
نظمیں اخترالایمان کی شامل ہیں۔ جو حسب ذیل ہیں:۔
(1) نیند سے پہلے (2) نقشِ پا (3) سوگ
(4) محلکے (5) اظہار (6) مآل
(7) لغزش (8) موت (9) محرومی
(10) مسجد (11) نئی صبح (12) وداع
(13) فیصلہ (14) پرانی فصیل (15) قلو بطرہ
(16) ادھوری بات (17) زندگی کے دروازے (18) واپسی
(19) آمادگی (20) تنہائی میں (21) جواری
(22) تارِ عنکبوت (23) تصور (24) پگڈنڈی
ان متروکہ نظموں کے سلسلے میں اخترالایمان کا بیان ہے کہ سوا سو متروکہ
نظمیں ان کے ایک دوست نے ان سے لی اور پھر وہی متروکہ نظمیں کوئی صاحب زادی
ان کے اس دوست لے گئیں جن کی بابت بعد میں معلوم ہوا کہ ملک کے بٹوارے کے
زمانے میں وہ خاتون اپنے گھر پر حملہ کرنے والے فسادیوں سے سامنا کرتے ہوئے
حلاک ہو گئیں۔ انجام کار اخترالایمان کے ابتدائی دور کی متروکہ نظمیں
فسادات کی نذر ہو گئیں۔ یہ تمام متروکہ منظومات اینگلو عربک کالج، دھلی کی
میگزین میں 1938 سے 1943 تک شائع ہوتی رہی ہیں۔ ان کے عنوانات مندرجہ ذیل
ہیں:
(1) چند آنسو (2) سرمایہ دار اور مزدور (3) بغاوت
(4) بھکارن (5) میکالے کی تقریر فرنگی افسران کے روبرو (6) پہلی کرن (7)
باغی روحوں کے نام (8) ترے بغیر ہم نشیں (9) گزری ہوئی شام (10) انتظار
(11) حمیدہ کے نام (12) کالج کے راستے میں (13) آس (14) دام اور متفرق
اشعار
طالب علمی کے زمانے میں ہی اختر الایمان کی نظمیں شاہد احمد دھلوی کی مشہور
ِ زمانہ جریدے ’ساقی‘ (دھلی) اور دیگر رسائل میں مُتواتر شائع ہو رہی تھیں۔
یہ تمام منظومات ’گرداب‘ کی اشاعت سے قبل شائع ہوئی تھیں۔ ان کو انھوں نے
’گرداب‘ میں شامل نہ کرکے انھیں بھی شعوری طور پر متروکہ کلام قرار دیا ہے۔
یہ متروکہ منظومات ’رقاصہ‘ (مارچ 1941)، ’مجرم‘ (فروری 1942)، ’ارادہ‘ (اگست
1942) اور ’واپسی‘ (اپریل 1942) وغیرہ’ساقی‘ دھلی میں شائع ہوئی ہیں۔
اختر الایمان کی یہ تمام متروکہ پابند نظمیں نظم اساس تہذیب کی ترجمان ہیں۔
وہ لوگ جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اخترالایمان صرف نئے تجربہ پسند شاعر تھے
وہ ان کے اس شعری اور تہذیبی رخ کو نظر انداز کرتے ہیں کہ وہ غزل اساس
تہذیب اور پابند نظم اساس تہذیب سے آشنا نہ تھے۔ انھوں نے ایک عمر تک اس
میدان میں طبع آزمائی کے بعد نہایت شعوری طور پر نظم موریٰ کو باقاعدہ
اختیار کیا۔ جب کہ میرا جی اور ن۔م۔ راشد آزاد نظم میں طبع آزمائی کرتے
تھے۔ صنفی اور تکنیکی طور پر اختر الایمان نے ان سے ایک قدم آگے اُٹھایا
تھا۔ انھوں نے نہایت شعوری طور پر غزل اساس تہذیب اور پابند نظم اساس تہذیب
سے انحراف کیا تھا۔ مندرجہ ذیل چند پابند نظمیہ مثالیں خاطر نشیں ہوں۔ اختر
الایمان کی نظم ’چند آنسو‘ کمال اتا ترک مصطفیٰ کی وفات پر سے چند منتخب
اشعار ملاحظہ فرمائیں جو شعریت اور معنویت سے روشن و منور ہے:
وہ قصۂ رنگیں کی بنا ڈالنے والا
اغیار کی دنیا کو ہلا ڈالنے والا
وہ خارِ وطن، باغِ جناں جاننے والا
وہ خاکِ وطن، شام و سحر جاننے والا
وہ عہدِ براہیم کی نایاب نشانی
وہ دور فرد رفتہ کی انمول کہانی
وہ مرد مسلماں، وہ مجاہد وہ سپاہی
میں کیسے کہوں وائے مری تنگ نگاہی
ہر دیدۂ خونبار کا دل توڑ گیا ہے
دنیا کے لیے درسِ عمل چھوڑ گیا ہے
(اینگلو عربک کالج،دھلی میگزین دسمبر 1938)
متروکہ نظم ’سرمایہ دار اور مزدور‘ کا آخری بند خاطر نشان ہو۔ اس بند میں
مزدور نے اپنی ذاتی قدر و قیمت کی نشاندہی کی ہے۔بند ملاحظہ فرمائیں:
رنگینیِ عالم ہے مرے خون کی سرخی
یہ میری تباہی نہیں دنیا کا زیاں ہے
میں راز ہوں قدرت کا کہاں اوجِ ثریا
دنیا کا تغیر مری ٹھوکر میں نہاں ہے
اخترالایمان کی متروکہ نظم ’بھکارن‘ پہلی مرتبہ اینگلو عربک کالج،دھلی کی
میگزین مارچ 1939 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس نظم میں اخترالایمان نے
ہندوستان کے سماجی اور طبقاتی فرق کو نظمیہ اشعار کے ذریعہ پیش کیا ہے۔
انگریزوں کی غلامی سے نجات ملنے کے بعد بھی آزادہندوستان کی حقیقی تصویر
نہیں بدلی ہے۔امیر اور غریب کے درمیان جو فاصلہ کل تھا وہ آج بھی موجود ہے
اور ملک کے اگر یہی ھالات رہے تو یہ سماجی اور طبقاتی فرق کا فاصلہ روز
بروز بڑھتا ہی جائے گا۔اخترالایمان اپنی اس متروکہ نظم’بھکارن‘ کے ذریعہ
ہندوستان کے امیر اور غریب کے درمیان سماجی اور طبقاتی فاصلے کے خلاف
احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس نظم کا تاثر انگیز بند خاطر نشان ہوں۔ نظم
کے اس بند میں ایک بھکارن خدا سے فریاد کر رہی ہے اور زندگی کی تلخ اور بے
رحم سچائی کوبیان کرتی ہوئی کہتی ہے :
مرے دل نے خدا سے التجا کی
کسی کی شوخیوں نے انتہا کی
یہ کیا تنظیم ہے تیرے جہاں کی
یہ رسم چہرہ دستی ہے کہاں کی
مجھے یہ رسم چنگیزی نہ بھائی
تو خود شاہد ہے خونریزی نہ بھائی
کوئی عیش و طرب میں دن گزارے
کوئی مجبور سڑکوں کے کنارے
کوئی دولت سے کھیلے شاد ہو کر
کوئی تڑپا کرے ناشاد ہوکر
کوئی سمجھے محض جنت ہے دنیا
کوئی سمجھے کہ اک دوزخ ہے دنیا
کوئی ناچے کوئی گائے خوشی سے
کوئی دیکھا کرے منہ بے کسی سے
کوئی دنیا کی کل دولت سمیٹے
پھٹے کمبل میں کوئی منہ لپیٹے
ادھر اک موتیوں سے کھیلتا ہے
ادھر مزدور پاپڑ بیلتا ہے
ادھر اک زینتِ آغوش ناگن
ادھر مجبور بیٹھی ہے بھکارن
سنبھال اس اپنی دنیا کو خدارا
مجھے یہ بدعتیں کب ہیں گوارا
اسی طرح اخترالایمان کی ایک اور متروکہ نظم ’ انتظار ‘ دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ متروکہ نظم پہلی مرتبہ اینگلو عربک کالج،دھلی ،کی میگزین جون1940 کے
شمارے میں شائع ہوئی تھی۔ اس نظم میں اخترالایمان نے انتظار کی کیفیت کو
بہت ہی خوبصورتی اور فنی حسن و جمال اور کمال کے ساتھ پیش کیا ہے۔نظم
’انتظار‘ کا ایک بند ملاحظہ فرمائیں:
کس کے وعدے پر فریبِ آرزو کھاتا ہے یہ
کون سمجھائے اسے یہ انتظار اچھا نہیں
رات کی خاموشیوں میں کون آئے گا یہاں؟
کتنے دل ٹوٹے پڑے ہیں اس زمیں پر کیا خبر
کتنی امیدیں کچل کر ہو گئی ہیں بے نشاں
کون دیکھے گا بھلا آکر ترا انجامِ اشک
ڈوب جائیں گی فضا کی خامشی میں سسکیاں
ماند پڑ جاتی ہے آخر انجمِ شب کی چمک
ڈوب جاتی ہے سحر کے بانکپن میں کہکشاں
ہو سکے تو عالمِ وہم و گماں کو چھوڑ دے
دیدۂ غم کی قسم دونوں جہاں کو چھوڑ دے
اخترالایمان کی ایک متروکہ نظم ’حمیدہ کے نام‘ ہے۔ یہ متروکہ نظم پہلی بار
اینگلو عربک کالج، دھلی ، کی میگزین مارچ 1941 کے شمارے میں شائع ہوئی تھی۔
نظم کا تاثر انگیز بند خاطر نشیں ہوں:
طلوعِ سحر جب دنیا کا دامن تھام لیتی ہے
عروسِ زندگی ہاتھوں میں رنگیں جام لیتی ہے
حسیں امید جب آہوں سے اپنا کام لیتی ہے
سہانے خواب میں کوئی کسی کا نام لیتی ہے
بہت چپکے سے جب کلیوں کو بھنورے چوم لیتے ہیں
مجھے اس وقت کچھ بھولے فسانے یاد آتے ہیں
ان محولہ بالا متروکہ نظموں کے حوالے سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ اخترالایمان
غزل بنیاد تہذیب اور پابند نظم بنیاد تہذیب کے بھی عارف تھے مگر انھوں نے
فرسودہ راہ پر چلنا پسند نہیں کیا اور روایت سے بغاوت کو زیادہ معنویت و
اہمیت دی اور بے مثال نو تجربہ پسند نظم نگار کے طور پر تاریخ ساز ہو گئے۔
٭٭٭٭٭ |