جھگڑالو خواتین اور مرد ہر ملک اور علاقے میں پائے جاتے
ہیں، بعض علاقے تو مشہور ہی جھگڑالو افراد کی وجہ سے ہیں۔بھارت کے کئ
علاقوں کو لڑاکا لوگوں کے شہروں کے نام سے جانا جاتا ہے، جن میں رام پو،
شاہ جہاں پورر اور الہ آباد سرفہرست ہیں، جب کہ پاکستان میں بیسویں صدی کے
آخری عشرے تک یہ اعزاز کراچی کے علاقے لالوکھیت کو حاصل تھا، جہاں
عورتوںاور مردوں کی لڑائی کے واقعات اکثر و بیشتردیکھنے میں آتے تھے۔ اس
علاقے میں ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والے افراد رہائش
پذیرتھے، جن میں رام پور، مراد آباد، کانپور اور الہ آباد سے تعلق رکھنے
والے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ ایک نمبر ،دو نمبراور تین نمبر لالوکھیت
میں رام پور، مراد آباد اور شاہ جہاں پور سے تعلق رکھنے والے لوگ ایک ہی
محلے میں برادری کی بنیاد پر مقیم تھے، جن میں زیادہ تعداد ان پڑھ افراد کی
تھی۔ ان کی خواتین اکثر و بیشتر آپس میں لڑتے جھگرتے دیکھی جاتی تھیں۔ وہ
اپنے دروازوں کی دہلیزپر کھڑے ہوکر ، ’’فل باڈی کانٹیکٹ ‘‘ اور زبان کے
ہتھیارکا بے دریغ استعمال کرتی تھیں ۔ ہاتھ لہرا لہرا کر ایک دوسرے کی
زندگی کے’’ خفیہ گوشوں‘‘ سے پردہ اٹھایا جاتا تھا۔اس دوران ان کے دروازوں
کے سامنے لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہوجاتا تھا۔ لڑنے والی خواتین ایک دوسرے کے’’
نجی حالات ‘‘کے بارے میں ایسے ایسے انکشافات کرتیں جو محلے کے دوسرے لوگوں
کے لیے سربستہ راز تھے اور لڑنے والی خواتین کی زبان سے انہیں اس کے بارے
میں آگاہی ملتی تھی۔ جوش و جنون کے عالم میںفلک شگاف آوازوں کے ساتھ،
دونوں جانب سے کیے جانے والے ’’تبادلہ خیالات ‘‘کے دوران ایسی ایسی گالیوں
کااستعمال کیا جاتا تھا جن کو سن کر شرفاء کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔ بعض
دفعہ معاملہ قابل دست اندازی پولیس بن جاتا تھا، متحارب خواتین میں سے غیض
و غضب کا شکار ہوکر کوئی عورت اپنی حریف کو دروازے پر سے گھسیٹ کر گلی میں
لے آتی تھی، جس کے بعد فری اسٹائل ریسلنگ شروع ہوجاتی تھی، ایک کی چوٹی
دوسری کے ہاتھ میں، جب کہ دوسری عورت اپنی مقابل سے چٹیا چھڑانے کے لیے
گھونسوں اور لاتوں کا بے دریغ استعمال کرتی تھی، اس دوران ’’اورال ویپن‘‘
سے بھی کام لیا جاتااور لڑنے والیوں میں سے کسی کے دانت اپنی حریف کی کلائی
یا کاندھے میں اتر جاتے تھے۔جھگڑے کے اس نہج پر پہنچنے کے بعد تماشائی
خواتین بیچ بچاؤ کا فریضہ انجام دیتیں اور دونوں خواتین کو الگ کرکے ان کے
گھروں میں بھیج دیتیں۔مرد حضرات اس دوران کسی دخل اندازی کے بغیر اس نسوانی
لڑائی سے محظوظ ہوتے تھے۔ دونوں خواتین ایک دوسرے سے شام کو نمٹنے کی
دھمکیاں دیتی ہوئی اپنے اپنے گھروں میں چلی جاتی تھیں، جس کے بعد مرد اور
بچے لڑائی کے دوسرے سیشن کی توقع لے کر، اپنے کاموں پرچلے جاتے یا کھیل کود
میں مصروف ہوجاتے تھے۔ شام کو جیسے ہی ان کے مرد، دن بھر محنت مزدوری کرنے
کے بعد تھکے ہارے اپنے گھروں میں داخل ہوتے ، تو ان کی نظر اپنی بیویوں پر
پڑتی جو سروں پر کپڑا لپیٹے ہوئے اذیت ناک صورتیں بنائے، بان کی چارپائیوں
پر آڑی تیڑھی پڑی ہوتی تھیں۔ وہ جب ان سے اس کا سبب دریا فت کرتے تووہ بین
کرتے ہوئے خود پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی کتھائیں سناتیں، اپنے بدن
پر دانتوں سے کاٹے جانے کے نشانات، مکوں کی ضربات اور نوچے جانے والے بالوں
کے گچھے دکھاتیں (جو وہ اپنےانہیں دکھانے کے لیے رکھتی تھیں) ان کے مجازی
خدا اور اپنی بیویوں کے محافظ، شدید اشتعال کے عالم میں ڈنڈے اٹھا کر گھروں
کے باہرنکل کر ’’ملزم‘‘ خاتون کے دروازے پر پہنچ جاتے اورگالیاں دیتے ہوئے
دروازیں پر لاتیں مارتے ہوئے دوسرے فریق کے مرد کو دعوت مبازرت دیتے، اس
گھر سے بھی مرد اور اس کے بیٹے یا بھائی لاٹھیاں لے کر باہر آجاتے اور اس
لڑائی کا دوسرا ایکٹ شروع ہوجاتا ۔ پوری گلی میں ہنگامہ برپا ہوتا، لاٹھی ،
ڈنڈوں کی وجہ سے کوئی تیسرا شخص بیچ بچاؤ کی ہمت نہیں کرتا۔ لڑنے والے
فریقین میں جب مزید مقابلے کی سکت نہ ہوتی تو وہ ڈھیلے پڑنا شروع ہوجاتے،
اس وقت محلے کے بزرگ حضرات آگے بڑھتے اور دونوں کو اپنے تئیں ڈانٹتے ہوئے
ایک دوسرے سے الگ کردیتے۔ ان مردانہ لڑائیوں کے دوران بعض دفعہ کسی فریق کی
طرف سے رام پوری یا گراری والے چاقو کا بھی استعمال کیا جاتا اور اس تیز
دھار آلے سے زخمی ہونےکے بعد معاملہ گھروں اور محلے کی حدود سے نکل کر
تھانہ، کچہری تک چلاجاتا۔لیکن علاقے کی نئی نسل کے زیور تعلیم سے آراستہ
ہونے اور لالوکھیت کے لیاقت آبادکا نام اختیار کرنے کے بعدوہاںاب یہ مناظر
دیکھنے میں نہیں آتے، ویسے بھی لاٹھی ڈنڈوں اور چاقوچھریوں کی جگہ آتشیں
ہتھیاروں نے لے لی ہے، اس لیے عورتوں نے بھی تمام متنازعہ معاملات اپنے
مردوں پر ہی چھوڑ دیئے ہیں ۔
بھارت اور بنگلہ دیش میں’’ ہمت نسواں‘‘ کے عملی مناظر اب بھی دیکھنے میں
آتے ہیں لیکن وہاں یہ نظارے گلی کوچوں میں نہیں بلکہ سڑکوں اور بازاروں
میں دیکھے جاتےہیں۔ دنیا کے دوسرے ممالک کے شہریوں کوخواتین کی لڑائیوںسے
محظو ظ کرنے کے لیے ان لڑائیوں کی موبائل فون سے ویڈیو بنا کر نیٹ اور فیس
بک پر ڈال دی جاتی ہیں، جنہیں دیکھ کر مہذب دنیا کے لوگ برصغیر کی روایتی
ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں ۔ایسی ہی ایک ویڈیو میں بنگلہ دیش کے ایک دیہات
میں عورتوں کو گاؤں کی مر کزی سڑک پر ایک دوسرےکو زمین پر گرا کر لاتوں
اور مکوں سے مارتے ہوئے دکھایا گیا ہے جب کہ دوسری ویڈیومیں بھارت کے ایک
شہر کے بھرے پرے بازارمیں سبزی فروش کے ٹھیلے سے شروع ہونے والی لڑائی کو
بازار کے چوک پر دکھایا گیا ہے جس میں ایک خاتون کی چوٹی دوسری کے ہاتھ میں
جب کہ دوسری کی گدی اس کی حریف کے پنجوں میں جکڑی دکھائی گئی ہے۔ تیسری
ویڈیو میں دو الٹرا ماڈرن دوشیزائیں پرہجوم شاہ راہ پرسڑک کے بیچ میں
جھگڑتی دکھائی گئی ہیں۔ دونوں خواتین لہولہان ہونے کے باوجود ایک دوسرے کو
سڑک پر گرا کر ایک دوسرے پر گھونسے اور لاتیں برسا رہی ہیں۔ مردوں کا ہجوم
جمع ہے لیکن وہ ’’تقدس خواتین کے احترام ‘‘کے مشرقی فلسفے کی وجہ سے، ان کی
لڑائی رکوانے سے قاصر نظر آتا ہے۔
شمالی اور جنوبی امریکا میں بھی لڑاکا لوگ بستے ہیں ، وہاں بھی عورت اور
مرد لڑائی جھگڑوںمیں مبتلا ہیں، لیکن وہ ذاتی اناء کی وجہ سےآپس
میںبرسرپیکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی لڑائی کا مقصد، اجتماعی مفاد میں یا
اپنے روٹھے ہوئےدیوی دیوتاؤںکو منانے کے لیےہوتا ہے۔میکسیکو کے قصبے ناہو
واکے دیہات میں ہر سال مئی میں خواتین کے مابین لڑائیاں ہوتی ہیں، لیکن ان
کی لڑائی میں زبان کا ہتھیار، صرف دعوت مبازرت دینے کے لیے استعمال ہوتا
ہے۔ یہ لڑائی برصغیر میں برپا ہونے والی گلی محلے کی لڑائی سے یکسر مختلف
ہوتی ہے ۔ خشک سالی اور آبی قحط کےخاتمے کی خاطر ،بارش کے دیوتا کی خوش
نودی حاصل کرنےکے لیے، اس علاقے میں عورتوں کی لڑائی کا باقاعدہ انعقاد کیا
جاتا ہے جس میں قرب و جوار کے دیہات کی نو عمر لڑکیوںسمیت پختہ عمر کی
عورتیں بھی حصہ لیتی ہیں۔ تہوار کےانعقاد والے دن ،مذکورہ فائٹر خواتین،
صبح کے وقت عام دنوں کی بہ نسبت ،پہلے بیدار ہوجاتی ہیں اور مختلف اقسام کے
کھانے پکاتی ہیں۔ پھر اپنے اپنے تیار کردہ کھانوں کے ساتھ اکھاڑے میں پہنچ
جاتی ہیں،وہاں یہ کھانے زمین پر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ آس پاس کے تمام دیہات
کی عورتوں کے پہنچنے کے بعدحریف خواتین کاچناؤ کیا جاتا ہے۔مدمقابل کا
انتخاب ہوجانے کے بعد نوجوان لڑکیاں اور عورتیں ہار بندے اتار کر ،چوٹیاں
باندھتی ہوئی میدان کارزارمیں اتر جاتی ہیں۔ پہلی عورت کی جانب سے اپنی
حریف کو تھپڑ یا مُکا رسید کرتے ہی مقابلہ شروع ہوجاتا ہے۔ اس دوران تھپڑوں
اور مکوں کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ خواتین ایک دوسرے کے چہرے کو خاص
طور پر نشانہ بناتی ہیں، جس کا مقصد حریف کے چہرے کو لہولہان کرنا ہوتا ہے۔
چہرے سے ٹپکنے والا خون، برتنوں اور بالٹیوں میں جمع کرلیا جاتا ہے ،جسے
بعد ازاں کھیتوں میںڈالا جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ کھیتوں کو مذکورہ
خواتین کے خون سے سیراب کرنے سے بارش کا دیوتا ان پر مہربان ہوجاتاہے۔
دیہاتی عورتوں کی اس خوں ریز لڑائی کو باقاعدہ سالانہ تہوار کا درجہ حاصل
ہے۔
میکسیکو کے صوبے، گوئریرو کو اس لحاظ سے منفرد مقام حاصل ہے کہ وہاں
جھگڑالو لوگوں کی خاصی تعداد آباد ہے۔ اس کے مختلف قصبات میں اس نوع کی
لڑائیوں کاسالانہ انعقاد کیا جاتا ہے۔ مذکورہ صوبے کے پہاڑی قصبے
لااسپرانزاکےایک چھوٹے سے پہاڑی گاؤں میں بھی دیوتا کی خوش نودی کی خاطر
ایک دوسرے کو بے رحمانہ انداز میں پیٹنے کا رواج ہے۔ اس لڑائی کی میزبانی ،
کاؤنٹی کی ایک خاتون لوسیاانایا کے سپرد ہے، جولڑائی سے قبل مختلف تقریبات
کا انعقاد کرتی ہے، جس میں متبرک شربت کی تقسیم بھی شامل ہے۔ اس تہوار کے
موقع پر عورتوں اور مردوں کی لڑائیوں کے الگ الگ مقابلے منعقد ہوتے ہیں، جس
میں بعض اوقات فریقین اس حد تک زخمی ہوجاتے ہیں کہ انہیں اسپتال پہنچانے کی
نوبت آجاتی ہے۔
اسی صوبے کے ایک اور گاؤںزیٹالامیں مئی کا مہینہ شروع ہوتے ہی سارے
گاؤںمیں لڑائی جھگڑے کے اس تہوارکے انعقاد کی تیاریاں ہونے لگتی ہیں۔
مذکورہ گاؤں کی آبادی کئی ہزارنفوس پر مشتمل ہے، جن میں زیادہ تعداد
مفلوک الحال لوگوں کی ہے، لیکن وہ لڑائی جھگڑےکے دل دادہ ہیں۔ تہوار کی
ابتداء میں گاؤں کے مرکزی چوک پر گائے کی قربانی کی جاتی ہے، جس کا گوشت
تبرک کے طور پر سارے گاؤں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد گاؤں کے لوگ
زیٹالا اور اس کے پڑوسی قصبے کی سرحد کے درمیان جمع ہوجاتے ہیں۔ لڑائی شروع
ہونے سے پہلے مختلف اقسام کی تقاریب ہوتی ہیں جن میں خواتین کا دھمال بھی
شامل ہے۔ مرد چیتے کا کی شکل کا لبادہ پہن کر میدان میں آتے ہیں اور بگل
کی آواز کے ساتھ ہی مقابلے شروع ہوجاتے ہیں ۔ اسے ’’ٹکراؤ‘‘ کا تہوار کہا
جاتا ہے۔ اس جنگ میں لاتوں، گھونسوں، فلائنگ ککس کا آزادانہ استعمال کیا
جاتا ہے۔ جب ایک فریق مکمل طور سے ناک آؤٹ ہوجاتا ہے، تو جیتنے اور ہارنے
والےمیدان خالی کردیتے ہیں۔ مردوں کے بعد خواتین کے مقابلے شروع ہوتے ہیں۔
اس لڑائی میں حصہ لینے والی زیادہ تر لڑکیاں ’’الرانچو‘‘ قبیلے سے تعلق
رکھتی ہیں۔ وہ لڑائی کے دوران ایک دوسرے پر جارحانہ حملے کرتی ہیں ، اور اس
وقت تک لڑتی رہتی ہیں جب تک ان کی حریف زخمی ہوکر میدان میں گر نہ جائے۔ جب
لڑائی رک جاتی ہے تو گاؤں کی روایت کے مطابق فریقین کو رسیوں سے جکڑ دیا
جاتا ہے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ ان کے جسم سے بہہ کر زمین پر گرنے والا خون ان
کے دیوتا ’’ٹالوک‘‘ کے حضور شرف قبولیت پاتا ہے ، جس کے بعد باران رحمت
برستا ہے۔
پیرو کا پہاڑی قصبہ ’’سانتاٹوماز‘‘ انڈیز کے خطے میں سطح سمندر سے
12000ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہاں کے لوگ پہاڑی باشندوں کی مناسبت
سےقدرتی طور سے جنگ جو فطرت کے حامل ہیں۔ لڑائی کے اس تہوار کے موقع پر ،
لڑنے والوں کے لیے باقاعدہ قواعد و ضابطے مرتب کیےجاتے ہیں، طے کیا جاتا ہے
کون سا شخص اپنے کس حریف سےکس ہتھیار کے ساتھ مقابلہ کرے گا۔ اس تہوار کو
’’تاکاناکوئے‘‘ کہتے ہیں۔ کرسمس کی صبح اس کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ چند روز
تک مسلسل روایتی ملبوسات زیب تن کرکے رقص و سرود کی محافل منعقد کی جاتی
ہیں، گھڑ سواری کےمقابلے ہوتے ہیں۔ آخری روز ایک دوسرے سے لڑنے کے لیے
فریقین گروہوں کی صورت میں مقامی بل رنگ کا رخ کرتے ہیں۔ تمام عورتیں، مرد،
بچے اور بوڑھے کیف و سرور کے عالم میں وہاں پہنچتے۔ ان کے ہاتھ دستانوں کے
اندر چھپے ہوتے ہیں۔ اپنے حریفوں کو دیکھ کر وہ ہاتھ لہراتے ہیں، جس کے بعد
میدان میں آتے ہی وہ ایک دوسرے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ اس لڑائی میں ایک دوسرے
کے چہرے اور سر پر ضربات لگائی جاتی ہیں۔ لڑائی کا فیصلہ کرنے کے لیے ریفری
بھی موجود ہوتا ہے ، جو رومن طرز کی پوشاک پہنتا ہے۔اکھاڑے کے اندر موجود
مجمع کسی بھی ناگفتہ بہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار کھڑا رہتا ہے، کسی
ایک فریق کے ناک آؤٹ ہونے پر مذکورہ مقابلہ ختم ہوتا ہے، اور فریقین
گھروں کی جانب رخصت ہوجاتے ہیں، جب کہ زخمی ہونے والےجنگ جوؤںں کو طبی
مراکز لے جایا جاتا ہے۔
جنگ جو خواتین کا کردار صرف جنوبی امریکا یا برصغیر میں ہی نہیں ملتا بلکہ
یورپ میں بھی پایا جاتاہے۔19ویں صدی کے آخری عشرے میں آسٹریا اور روس کی
جنگ جو شہزادیوں کے درمیان لڑائی ہوئی لیکن یہ لڑائی زبانی یاہاتھاپائی کی
نہیں تھی بلکہ دو شہزادیوں کی اس جنگ میں تلواروں کا استعمال ہوا۔ ویانا
میںایک تقریب کے موقع پر منتظمین کی طرف سے پھولوں کی آرائش پر آسٹروی
شہزادی پاؤلین میتھریچ اور روسی نژاد نواب زادی ایناستاسیا کے درمیان
اختلاف نے ایک خونی جنگ کی صورت اختیار کرلی اور دونوں جھگڑالو شہزادیوں نے
تلواروں سے لڑائی کا فیصلہ کیا۔ اس لڑائی کو دیکھنے کیلئے ملک بھر سے
خواتین کی کثیر تعداد نے سفر کیا اور ویانا میں یہ لڑائی تین راونڈ تک جاری
رہی۔ تیسرے راؤنڈ میںآسٹروی شہزادی، اپنی حریف نواب زادی کی ناک پر زخم
لگانے میں کامیاب ہوئی اور فاتح قرار پائی۔ اگرچہ نواب زادی نے بھی شہزادی
کے بازو پر وار کیا تھالیکن چونکہ پہلا کامیاب وار شہزادی نے کیا تھا، اس
لیے ان کے حق میں فیصلہ ہوا۔ بظاہر یہ معمولی سی لڑائی تھی لیکن ویانا میں
اسے لوک کہانی کے طور پر سنایا جاتا ہے ۔ |