ایسا بھی ہوتا ہے (انس اگین) پارٹ 2

؎ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک
مانا کہ تغافل نہ کرو گے
خاک ہو جائیں گےتم کو خبر ہونے تک

عنایہ نے دیکھا کہ سب کچھ ختم ہو جانے کے بعد بھی جس کی انگوٹھی اس کی نشانی کے طور پر پہنے ہوئے تھی ، وہ آج کسی دوسری لڑکی کے ساتھ گھوم رہا ہے۔ مانا کہ اس نے یہ کہہ کر اس سے رشتہ توڑا تھا کہ ان دونوں کی سوچ الگ الگ ہے ، اس لیے وہ ساتھ نہیں چل سکتے مگر آج نا جانے کیوں ایسا لگ رہا تھا کہ سوچ کی بات سوچ تک رہ گئی مگر دل تو ملتے تھے لیکن آج انس کو کسی دوسری لڑکی کے ساتھ دیکھ یہ عنایہ کو یہ امید بھی ٹوٹتی دیکھا ئی دے رہی تھی۔عنایہ اس صورتحال کو اپنے ذہن کا وہم سمجھ کر اسے بھلا دینا چاہتی تھی اور یہ سوچتی تھی کہ انس کبھی ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ ہر رشتہ توڑنے کے بعد بھی اس نے انس کی انگوٹھی ہاتھ میں پہن رکھی تھی۔مگرآنکھیں حقیقت کو عیاں کر رہی تھیں کہ یہ اس کے ذہن کا وہم نہیں بلکہ حقیقت ہے کہ انس بے وفا ہے۔جس بات کے ڈر کی وجہ سے اس نے انس سے رشتہ توڑا تھا ، وہ واقعی سچ نکلا تھا۔ کینٹین پر رکنا ، اب عنایہ کے لیے محال ہو گیا تھا، اس لیے اس نے رخسانہ سے چلنے کو کہا ۔عنایہ کے چہرے کے تاثرات یہ بیاں کر رہے تھے کہ اسے کسی وجہ سے شدید قسم کا دکھ پہنچا ہے ۔ اس کی وجہ جاننے کے لیے رخسانہ نے پوچھا کہ عانی! "کیا ہوا تمہیں ؟ سموسوں میں زیادہ مرچیں تھی جو تمہاری آنکھوں میں پانی آ گیا ہے؟""اپنا منہ بند رکھو اور میرے ساتھ چلنا ہے تو چپ کرکے چلو"عنایہ نے درشت لہجے میں جواب دیا تو رخسانہ بھی اپنا موڈ بگاڑ کر چپ چاپ چل پڑی۔ اسے پتہ چل گیا تھا کہ میڈم جی کو آج پھر انس کے ساتھ کالج کینٹین میں کھا ئے سموسے یاد آ گئے ہیں ۔ لیکن حقیقت کچھ اور تھی جس کا صرف عنایہ کو ہی پتہ تھا۔
٭٭٭
"میں نے کینٹین میں بالکل نہیں جانا ہے اب۔ "انس نے بے بسی سے کہا۔ "کیوں اب کیا ؟ چلو نا بہت بھوک لگی ہے"۔ہادیہ نے زور دے کر کہا ۔ مگر انس کے ٹانگوں میں جان باقی نہیں رہی تھی۔ اسے نے کبھی سوچا تھا کہ دو سال اس کی ملاقات عنایہ سے ہو گی اور وہ اسے کسی دوسری لڑکی کے ساتھ دیکھ لے گی۔ ابھی یہ جھٹکا برداشت نہیں کر پایا تھا کہ دوسرا جھٹکا اسے یہ دیکھ کر لگا جب اس نے عنایہ کی انگلی میں پہنی ہو ئی انگوٹھی دیکھی۔ دو سال بعد بھی عنایہ نے اس کی دی ہو ئی نشانی پہنی ہو ئی تھی۔ "ہادیہ کچھ بھی ہو جا ئے مگر اب میں تمہارے ساتھ کینٹین نہیں جا ؤ گا۔"انس نے دو ٹوک لہجے میں کہا۔ ہادیہ انس کے اچانک موڈ بدلنے پر بہت حیران تھی ۔ تھوڑی دیر پہلے کھویا کھویا انس اب اسے ایک ایسا پھول لگ رہا تھا جسے خزاں کی رت نے مرجھا دیا ہو۔ ہادیہ نے مزید اسرار کرنا مناسب نہ سمجھا ۔ "چلو نہیں دل مانتا تو واپس چلے جاتے ہیں" ۔ ہادیہ نے انس نے بولا۔ہادیہ !I’m Sorry but please leave me alone۔ "انس نے ہادیہ سے التجا کی۔"جیسے تمہاری مرضی ۔ اوکے میں چلتی ہوں ، زندگی رہی توکل ملے گے۔ با ئے۔"ہادیہ نے فارمل طریقے سے گڈ با ئے کہہ دیا۔
٭٭٭
انس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سب کچھ اچانک اور اتنی جلدی کیسے ہو گیا؟ اسے یقین تھا کہ وہ عنایہ جو اسےکسی دوسری لڑکی سے بات کرنا برداشت نہیں کرتی تھی ،وہ آج اس کو کسی دوسری لڑکی کے ساتھ دیکھ کر کیسے برداشت کرتی۔ ہمیشہ کی طرح اس کا کو ئی قصور نہیں تھا مگر عنایہ کی نظروں میں صرف اُسی کا قصور تھا۔ یہ قصور ایسا تھا ، جو ناقابل معافی تھا۔ "زندگی میں کچھ لمحات ایسے بھی آتے ہیں جو وقت کے لحاظ تو بہت قلیل ہوتے ہیں مگر دل کی دنیا پر بہت گہرا اثر ڈال جاتےہیں۔انہیں کچھ پل کو بھلانے کے لیے عرصہ بیت جاتا ہے ۔کچھ پل تو بہت خوشگوار ہوتے ہیں جیسے کہ کوئ جب زندگی میں آتا ہے ۔ جس پل میں وہ سامنے ہوتا ہے وہ لمحات زندگی کے حسین لمحات ہوتے ہیں ۔ یہیں بیتے کچھ پل انسان کا سرمایہ ِ حیات بن جاتے ہیں ۔ وہ چند منٹ میں ہونے والے مذاق جب بھی یاد آتے ہیں تو دکھ میں بھی یہ لب مسکرا جاتے ہیں ۔ بیتے لمحے جب بھی مجھے یاد آتے ہیں ۔ "انس کو ڈائری لکھتے لکھتے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھوں سے آنسو گرنے شروع ہو ئے تھے۔
٭٭٭
"دنیا ادھر کی ادھر ہو جا ئے مگر میں دوبارہ اس کی شکل نہیں دیکھنا چاہتی۔جس بات کا مجھے ڈر تھا ، وہی اس نے کر دیکھایا ، سبھی مرد ایک جیسے ہوتے ہیں ۔میں نے تو اسے بولا تھا کہ ہماری سوچ الگ ہے ، مگر اس کی دل کی دنیا بھی الگ ہے جس میں میرا کو ئی وجود ہی نہیں ہے۔ " عنایہ کافی دنوں بعد یونیورسٹی میں آ ئی تھی اور رخسانہ کے اسرار پر وہ سارا غصہ انس پراتار رہی تھی۔ رخسانہ نے دیکھا کہ اب عنایہ کو روکنا مشکل ہے، اس لیے رخسانہ نے اُسے دل کا غبار نکالنے دیا۔ "اسے یہ حق کس نے دیا تھا کہ میرے سامنے کسی اور لڑکی کے ساتھ سامنے آئے۔میں واقعی پاگل تھی ، فضول میں اپنی جان کو دکھ دیے رکھا ۔ اگر اسے کوئی پچھتاوا نہیں ہے ، تو آج سے مجھے بھی کوئی پچھتاوا نہیں ۔ " عنایہ نے گویا کہ اپنی زندگی کا فیصلہ ایک پل میں کر دیا تھا۔
٭٭٭
"دیکھو ! میری بات کا برا مت ماننا ، مگر تمہیں میری بات دل سے سننا ہوگی۔" رخسانہ نے اسے دو دن بعد بہت سمجھدارانہ طریقے سمجھانامناسب سمجھا۔ کیونکہ اسے پتہ تھا کہ جلد بازی میں کیے گئے فیصلے ، کچھ پل کے لیے آنے والا غصہ اور اس غصے کے عالم میں کوئی بھی قدم اٹھانا کوئی اچھا شگون نہیں ہوتا ہے۔عنایہ کو وہ بچپن سے اچھی طرح جانتی تھی۔ عنایہ چھوٹی چھوٹی باتوں کو دل پہ لے جانے والی لڑکی تھی۔ لیکن اب تو معاملہ محبت کا تھا ، اس معاملے میں تو وہ خود غرض تھی ، جس کو وہ تسلیم کر چکی تھی۔ کئی دفعہ انسان کی آنکھیں دھوکا کھا جاتی ہیں ۔ انسان جو دیکھتا ہے ، وہ کچھ اورہوتا ہے، حقیقت کچھ اور ہوتی ہے۔لیکن بغیر کچھ تصدیق کیے، اس کا معاملے کا نچوڑ نکال دیتا ہے۔ انسان اپنے دماغ کے گھوڑے دوڑاتا ہے ، لیکن منفی خیالات کی طرف۔ جس طرف تم نے سوچا کہ انس کسی لڑکی کے ساتھ آیا ہے تو ضرور اس کی دوست ہو گی اور شائد دوست سے بھی بڑھ کر ہو گی۔ مگر یہ منفی سوچ ہے۔ منفی سوچ انسان آسانی سے سوچ سکتا ہے کیونکہ شیطان ہمیشہ انسان کو اکساتا رہتا ہے ۔ لیکن عنایہ دیکھو ، یہ بات بالکل غلط ہے۔ سکے کے دو رخ ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آپ نے صرف حقیقت کے ایک رخ کی طرف دیکھا۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے ، وہ بھی یونیورسٹی میں پہلے دن آیا ہو ، اور شائد اسے کسی مجبوری کی وجہ سے اس کے ساتھ جانا پڑ گیا ہو۔رخسانہ نے عنایہ کو تفصیلاً سمجھانے کی کوشش کی۔رخسانہ! اپنے فلسفے اپنے پاس رکھو۔ویسے تم بھی کچھ زیادہ ہی اس کی طرف داری کر رکھی ہو۔عنایہ نے جھلا کر کر کہا۔ بات طرف داری کی نہیں بلکہ حقیقت کی بات ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ فی الحال تمہیں میری باتیں بہت کڑوی لگیں گی ۔ مگر کبھی فرصت ملے تو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا۔یہ کہہ کر رخسانہ پیریڈ لینے کلاس روم چلی گئی۔ عنایہ بھی بے دلی سے اٹھی اور لیکچر اٹینڈ کرنے کے لیے کلاس کا رخ کیا۔
٭٭٭
عنایہ گھر واپس آئی تو امی جان نے کہا ۔ بیٹا تم سے کچھ ضروری بات کرنی ہے ، شام کے بعد میرے کمرے میں آنا۔ جی امی جان! عنایہ نے کہا اور دل ہی دل میں سوچا کہ کون سی ایسی ضروری بات ہو گئی جو ابھی نہیں بتائی جا سکتی تھی۔ رات کو عنایہ جب اپنے کمرے میں کتاب کھولے بلا مقصد صفحات الٹ پلٹ کر ہی تھی، عنایہ کو پتہ ہی نہیں چلاکہ کب امی جان اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی ہیں۔ بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی تھی۔ جی امی جان ! بولیں؟بیٹا بات ایسے ہے کہ آج گھر میں کچھ مہمان آئے تھے۔ انہوں نےاپنے بیٹے کے لیے تمہارا ہاتھ مانگا ہے۔ ان کا لڑکا کسی بنک میں بحیثیت ِ مینجر جاب کر رہا ہے۔ اس کے ابو تمہارے بابا جان کے بچپن کے دوست ہیں۔لڑکا صورت اور سیرت کے لحاظ سے بہت قابل ہے۔ میں تو تم سے مشورہ کرنے آئی ہو ۔آگے تمہاری مرضی۔امی جان! عنایہ نے منہ بسورتے ہوئے کہا! آپ کو پتہ تو ہے کہ ابھی سٹڈی کر رہی ہوں ۔ مجھے ابھی شادی بیاہ کے چکر میں نہیں پڑنا ہے۔جب تک میری ڈگری کمپلیٹ نہیں ہو جاتی تب تک میں شادی کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔بیٹا آپ کی بات ٹھیک ہے ، لیکن ماں باپ نے تو اپنا فرض پورا کرنا ہوتا ہے۔ آپ اس لڑکے کو ایک دفعہ دیکھ لو ، اگر تمہیں اچھا لگے تو ہم ان سے تمہاری ڈگری کمپلیٹ ہونے تک کا ٹائم لے لیں گے۔ نہیں ، نہیں ! میں نے کسی لڑکے کو نہیں دیکھنا۔ میرے پاس اتنا فضول ٹائم نہیں ہے۔عنایہ نے غصے سے کہا۔ بیٹا ! کیا آپ کسی کو پسند کرتی ہو؟پسند کا نام سنتے ہی عنایہ کا چہرہ شرم اور دکھ سے سرخ ہو گیا ۔اس کی آنکھوں کا دریا امنڈ آیا تھا ، لیکن وہ بہت مشکل سے کنٹرول کرکے تیزی سے کمرے سے باہر نکل گئی ۔ امی جان حیرانی سے اُسے دیکھتی رہ گئی ! اسے کیا ہو گیا ہے ۔
٭٭٭
ایک ہفتہ ہو گیا تھا عنایہ نے یونیورسٹی کا رخ نہیں کیا تھا۔ انس کی آنکھیں روز ہی اس کی منتظر رہتی ۔ آف ٹائم کے بعد منتظر آنکھیں مضطرب ہو کر گھر لوٹ جاتی تھی۔ پورا ہفتہ گزر جانے کے بعد اس کو عنایہ پہ بہت غصہ آ رہا تھا۔ انس کو چھوڑ جانے کا فیصلہ عنایہ کا تھا۔ 2 سال بعد اچانک اس کا نظرآنا اور یوں بے رخی برتنا ، یہ سب اس کی سوچ سے بالاتر تھا۔ اب اس کا دماغ دل کا ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ دماغ کہہ رہا تھا "تم خوامخواہ کسی کو دل سے عزت دے رہے ہوں ،اس کا احترام کر رہے ہوں اور اس کو اپنے دل میں بسا رہے ہو ، جس کو کسی کا اُسے عزت دینا بھی ایسے لگتا ہے جیسے کوئی بہت بڑا گناہ کر لیا ہو۔"کم از کم اتنا تو شعور ہونا چاہیے کہ دل سے احترام اور عزت کرنا ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا ۔ "لیکن اُن کی گنتی الٹی شروع ہوتی ۔ وہ عزت کو بے عزتی سمجھتے ہیں ۔ احترام کو بدتمیزی سمجھتے ہیں ۔ ؎ہم وفا لکھتے رہے ، وہ دغا پڑھتے رہے ۔ " لیکن دل تو آج بھی اس سے اتنی محبت کرتا تھا جتنی دو سال پہلے کرتا تھا۔ اس دل میں آج بھی عنایہ کے لیے چاہت اور تڑپ موجود تھی جتنی کہ دو سال قبل ۔ دل ہے کہ مانتا ہی نہیں ۔ دل و دماغ کی اسی کشمکش میں اس نے سوچا کہ کیوں نا آج ہفتہ بھر کی ڈائری کا خلاصہ لکھ دیا جائے۔ کیونکہ اس نے ہفتہ بھر سے ڈائری لکھنا چھوڑا ہوا تھا۔
؎ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر ہونے تک
مانا کہ تغافل نہ کرو گے
خاک ہو جائیں گےتم کو خبر ہونے تک
 

Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 37721 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More