’’آٹو گراف پلیز‘‘
وہ جس نے زندگی میں سب سے پہلی بار اس سے آٹوگراف مانگا تھا وہ سیٹھ عماد
کا دس سالہ بیٹا تھا۔ سیٹھ عماد اس کا ساتھی کھلاڑی ہی نہیں اس کا محسن بھی
تھا۔ بچے نے جونہی چھوٹی سی خوبصورت آٹوگراف بک اس کی طرف بڑھائی اس کی
آنکھوں سے تشکر کے آنسو رواں ہوگئے تھے۔ یہ لمحہ اس کی زندگی بھر کی کمائی
تھا۔ جس کی خواہش ہر کھلاڑی کو ہوتی ہے۔ اس نے آٹوگراف بک پہ اپنے سائن
کرنے سے پہلے ایک لائن کا اضافہ کیا تھا۔
’’خواب ضرور خوبصورت ہوتے ہیں مگر ان کی تعبیر زیادہ خوبصورت ہوتی ہے اور
خواب کی تعبیر صرف انہی کا مقدر بنتی ہے جو اپنے خواب کو اپنا جنون بنا کر
محنت کرتے ہیں‘‘۔
بچہ آٹوگراف لے کر جاچکاتھا مگر اس کے پیچھے اک بڑا ہجوم غنی کا منتظر تھا۔
٭٭٭
’’آپ کو کہیں دیکھا ہے ‘‘ سیٹھ عماد نے بنگلے پہ مزدوری کرنے والے غنی سے
مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اسے آج تیسرا دن تھا اور تین ہی دن اس نے سیٹھ کو
اپنی طرف گھورتے کسی کشمکش کا شکار دیکھا تھا اس کشمکش کی وجہ وہ بھی جانتا
تھا۔ ’’کسی بنگلے پہ کام کرتے دیکھا ہوگا صاحب۔ مالی ہوں سب کی کوٹھیوں پہ
جاتا ہوں، اب کیا معلوم کدھر دیکھا آپ نے‘‘۔ غنی نے کندھے نہایت ادب سے کہا۔
’’ہو سکتا ہے ۔۔ مگر نہیں‘‘۔ فرمان۔۔۔ تم فرمان ہو۔ فرمان غنی ۔۔۔ اس نام
کی گونج سیٹھ کو سالہا سال پیچھے سنائی دی۔ فرمان غنی ہاکی کا وہ کھلاڑی جس
کے میدان میں اترتے ہی شور مچ جاتا تھا جو جونیئر لیول نیشنل ٹیم کی
سیلیکشن سے چند قدم کے فاصلے پر سے اچانک غائب ہو گیا تھا، جس کے سینئر ٹیم
میں کھیلنے کے امکانات بہت واضح تھے جس کے ساتھ کنٹریکٹ کرنے کے لییے کئی
بڑے ادارے تیار تھے۔ وہی فرمان غنی ہاتھ میں کھدال پکڑے بلا حیل و حجت مٹی
برابر کر رہا تھا پودے لگارہا تھا۔
’’تم۔۔۔ یہ سب کیا ہے تم تو اس میچ کے بعد کبھی نظر ہی نہیں آئے حالانکہ
تمہاری ٹیم کی ہار کے باوجود تمہیں بہت سراہا گیا تھا۔‘‘سیٹھ عماد نے حیرت
سے گھورتے ہوئے اس سے پوچھا۔
اس کی آنکھوں میں گویا کسی نے مرچی سی بھردی تھی وہ اپنے ماضی میں جانا
نہیں چاہتا تھا۔ وہ ماضی کو فراموش کیے بیٹھا تھا مگر سیٹھ عماد نے اسے بہت
پیچھے دھکیل دیا۔ جہاں سٹیڈیم لوگوں سے بھرا پڑا تھا۔ پاکستان نیشنل جونیئر
ہاکی ٹیم کی سیلیکشن ہونا تھی فرمان غنی بھی اپنے ابا کو میچ دکھانے لایا
تھا ۔ وہ دکھانا چاہتا تھا کہ لوگ ان کے بیٹے کی کتنی پذیرائی کرتے تھے ۔
اسے اپنی ٹیم کی جیت کا قوی یقین تھا اور اپنی نیشنل ٹیم میں سیلیکشن کا
بھی۔
مگر دوسری ٹیم زیادہ بہتر نکلی تھی اس کی ٹیم ہاری تھی۔ اس کے باوجود اس کی
بہت تعریفیں ہوئی تھیں۔ وہ بہت عمدہ کھیل کھیلا تھا۔ سامنے والوں کا گول
کیپر بہت بہترین تھا جو ان کی ہار کا باعث بنا تھا۔ اور وہی گول کیپر سیٹھ
عباد تھے۔ ابا گھر آکر گھنٹوں اس پر ہنستے رہے وہ اتنا دل برداشتہ ہوا کہ
اس نے اپنا ہاکی کھیلنے کا سب سامان جلا دیا اور دوبارہ کبھی ہاکی اسٹک
نہیں پکڑی۔
ایسا ہوتا ہے ناں کہ ہم دنیا کے طنز کا سامنا تو کر جاتے ہیں مگر اپنوں کے
چند الفاظ بھی ہمیں اندر سے توڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ’’تم نے کس قدر بے وقوفی
کا مظاہرہ کیا، اک ہار سے اس قدر دلبرداشتہ ہوگئے کہ اک شاندار کیریئر چھوڑ
دیا ‘‘۔سیٹھ عباد نے اس کی باتیں سن کر آہ بھرتے ہوئے اسے سے کہا۔
’’چھوڑیں صاحب بیتی باتوں میں کیا رکھا ہے‘‘۔فرمان غنی نے بات کو رفع دفع
کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ دل میں درد بھری ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ ’’ماضی
اگر شاندار ہو تو کچھ لوگ اسی میں جینے لگتے ہیں لیکن حال اگر اتنا ہی
بھیانک ہو تو شاندار ماضی کی یادیں روح کا ناسور بن جاتے ہیں‘‘۔ اس نے دل
ہی دل میں سوچا تھا۔
سیٹھ عباد نے اسے مزید کام سے روک کر کھیل کی جانب جانے کا کہا تاہم وہ ایک
بھی نہیں مان رہا تھا۔ سیٹھ عباد چاہتے تھے کہ فرمان غنی پھر سے کھیلنے لگے
مگر وہ جھجھک گیا ہاکی اسٹک سے کھدال پکڑنا آسان لگتا تھا اب ، کھدال سے
دوبارہ ہاکی اسٹک تک کا سفر انتہائی مشکل لگنے لگا تھا اسے۔
مگر سیٹھ نے اس کے اندر بجھی چنگاریوں میں پھر سے آگ بھڑکا دی تھی۔ وہ
جانتے تھے اب ہاکی اسٹیڈیم کا سفر بانسبت سابق انتہائی کٹھن تھا اور وہ یہ
بھی جانتے تھے کہ پہلے کی بانسبت آج بھی کوئی اس کا معاون نہ تھا مگر اب
کھونے کے لیے بھی کچھ نہ بچا تھا۔
سیٹھ عباد بھی اس کی ہمت بندھانے میں نہیں تھکے تھے۔ ’’شہرت اک دن میں نہیں
ملا کرتی، ایک بار کوشش کر کے دیکھ لیں، ممکن ہے کچھ ہو جائے‘‘۔ سیٹھ عباد
نے ایک دن فرمان غنی کو گم سم پایا تو اسے پیار سے کہا۔ فرمان غنی کی
آنکھیں جھلک پڑی تھیں۔ وہ شاید ایک بار پھر سے حوصلہ بحال ہوتے دیکھ کر کچھ
کرنا چاہتا تھا۔ اس کا دل مچل اٹھا تھا۔ اس نے اب دل ہی دل میں تہہ کیا تھا
کہ وہ دوبارہ سے سینئرز کی لسٹ میں مقام حاصل کرے گا۔ سیٹھ عباد نے اس کے
ارادے دیکھے تو اسے سے تھپکی دی اور مسکراہٹ کے ساتھ اس کے ہاتھ سے کدال
پکڑ کر ہاکی تھما دی۔
وہ دن فرمان غنی کے لیے کافی عجیب سا گزرا تھا۔ وہ اس مخمصے میں تھا کہ کیا
کرے مگر پھر اچانک دل میں ایک پختہ ارادہ کر کے انجام کو بالا ئے طاق رکھتے
ہوئے اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے نکال پڑا۔ دس بارہ سال کی گمنامی
کے بعد اسے کئی سال سیلیکشن بورڈ کے چکر لگانے بلکہ دھکے کھانے پڑے تھے۔ تب
کہیں 35 برس کی عمر میں جب لوگ ریٹائر منٹ کے نزدیک ہوتے ہیں لوگوں نے ایک
خبطی کو ہاکی اسٹک پکڑے پاکستانی جھنڈے کے ہم رنگ نیکر شرٹ پہنے سینئرہاکی
ٹیم کے کھلاڑی کے طور میدان میں اترتے اور پھر اپنے کھیل سے لوگوں کو پاگل
کرتے دیکھا۔ فرمان غنی نے کھدال چھوڑ کر ہاکی اسٹک پکڑی تو ایک بار پھر
لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔
آج اس کا الوداعی میچ تھا۔ جسے وہ خوب جی بھر کر کھیلنا چاہتا تھا کہ اسے
سیٹھ عباد نظر آئے۔ سیٹھ عباد نے مسکراہتے ہوئے اسے داد تحسین پیش کی۔ جو
اس کے انگ انگ میں اترتی چلی گئی۔ فرمان غنی نے وہ الوداعی میچ ایسے کھیلا
کہ اس دن عزم ، حوصلے اور ہمت نے پوری دنیا کو بتا دیا تھا کہ اگر یہ سب
جواں ہوں تو پھر کوئی طاقت انسان کو اس کے مقصد سے دور نہیں رکھ سکتی۔ |