ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
آج ہم جس قدر افتراق وانتشار کا شکار ہیں یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔
بقائے معاشرہ کیلئے ہمیں ایک مرکز پر اکٹھے ہوناہوگا ،اپنی صفوں میں اتحاد
و یکجہتی پیدا کرنا ہوگی ورنہ یہ عظیم غلطی ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔
ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’’خدا انسان کو معاف کر دیتا ہے ، انسان انسان کو
معاف کر دیتا ہے مگر انسان کی غلطی انسان کو کبھی معاف نہیں کرتی ۔‘‘اتحاد
زندگی ہے اور اختلاف موت۔ جب تک ہم لا مرکزیت کا شکار رہیں گے زمانہ کبھی
ہمارے حال پرترس نہیں کھائے گااور جب چاہے گا ہمیں اچک لے جائے گا اور صفحہ
ہستی سے مٹا دے گا۔
قرآن مجید میں کئی جگہوں پر باہمی تعاون و اتحاد ، اخوت ، ہمدردی و مساوات
کی پر زور تاکید کی گئی ہے اور باہمی تنازعہ اور تفرقہ بازی سے بچنے کا
نہایت سختی سے منع کیا گیا ہے ۔
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَلَا تَفَرَّقُوْاo (آلعمران
103:3)
’’اور سب کے سب مل کر اللہ کے دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ
میں نہ پڑو۔‘‘
وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ‘ وَلَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ
تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا ط اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ o
(الانفال 46:8)
’’اور اللہ عزوجل اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی اطاعت کرواورآپس میں مت
جھگڑو(اختلاف مت کرو) ورنہ تم ہمت ہار جاؤ گے اور بز دلی کرو گے اور تمہاری
بندھی ہوئی (باہمی اتحاد و یکجہتی کی طاقت ) جاتی رہے گی۔ اور صبر کرو ،
بیشک اللہ صبر کرنے والو ں کے ساتھ ہے۔‘‘
10ہجری کاواقعہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
تعالیٰ عنہ کو نجران کے ایک معزز قبیلے بنو حارث کو اسلام کی دعوت دینے
کیلئے بھیجا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد نبوی ﷺ کی تعمیل
کرتے ہوئے اُن کے ہاں پہنچے اور انہیں اسلام کی دعوت دی جو ان لوگوں نے
فوراً قبول کرلی ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُن کے اسلام
لانے کی اطلاع حضور نبی کریم ﷺ کو لکھ بھیجی ۔ آپﷺ اس اطلاع پر بہت خوش
ہوئے اور ہدایت فرمائی کہ اُن کا ایک وفد ساتھ لے کر مدینہ آئیں، چنانچہ
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اُن کا ایک وفد لے کر مدینہ پہنچے ۔
وفد کے شرکاء آپ ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے سامنے اپنے اسلام لانے
کا اقرار کیا اور آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت کی گواہی دی ۔ یہ لوگ بہت بہادر
تھے اور ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آنے کی شہرت رکھتے تھے حضور اقدس ﷺ نے اِن
سے پوچھاکہ تم کس وجہ سے اپنے دشمن پر غالب آتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ’’
ہم ہمیشہ اس لیے دشمن پر غالب آتے ہیں کہ ہم آپس میں متفق رہتے ہیں ،
اختلاف نہیں کرتے، باہم لڑتے جھگڑتے نہیں، ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے اور
سختی اور مصیبت کے وقت صبرکرتے ہیں۔‘‘آپ ﷺ نے فرمایا۔ ’’سچ کہتے ہو۔‘‘
جی ہاں!یہ حقیقت ہے کہ ہمیشہ آپس میں متحد رہنے والے ، باہمی اختلاف اور
جھگڑوں سے بچنے والے ، ایک دوسرے سے بغض و حسد نہ رکھنے والے اور مصائب و
مشکلات کے وقت صبرو استقامت کا مظاہر ہ کرنے والے ہی کامیاب ہوا کرتے
ہیں۔ایسے ہی لوگ ہمیشہ اپنے دشمن پر غالب آتے ہیں ، فتح ایسے ہی لوگوں کا
مقدر بنتی ہے، عزت و سربلندی کا تاج ایسے ہی لوگوں کے سر پر رہتاہے ،
کامیابیاں و کامرانیاں ایسے ہی لوگوں کی دہلیز پر قدم رکھتی ہیں ، ہمیشہ سر
اٹھا کر جینے والوں کی علامات اور نشانیاںیہی ہیں ۔ یہ قوت بخش خوبیاں جہاں
پائی جاتی ہیں کامیابیاں چل کر وہاں پہنچتی ہیں اوران کے قدم چومتی ہیں
خواہ مشرق ہو یا مغرب ۔ جو قوم ان صفات کواپنے اندر پیدا کر لیتی ہے یہ اس
کیلئے عزت ووقار ، عظمت و سربلندی اور ترقی و عروج کا زینہ بن جاتی ہے خواہ
وہ مسلم ہوں یا غیر مسلم۔ اس کے بر عکس آپس کی نااتفاقی و انتشار ، باہمی
اختلاف و نزاع ، ایک دوسرے کے ساتھ بغض وحسد اور مصیبت و آزمائش کے وقت بے
صبری کا مظاہرہ وہ خامیاں ہیں جو تباہی و بربادی، ذلت ورسوائی اور شکست و
ناکامی کا سبب بنتی ہیں خواہ وہ کسی قوم میں ہوں ۔
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں
قرآن وحدیث میں یہ بات بہت وضاحت کے ساتھ بتائی گئی ہے اورتاریخ نے بھی بار
ہا اس سبق کو نہایت جلی حروف میں لکھا ہے ۔ ابتدا میں جب مٹھی بھر مسلمانوں
میں یہ صفات پائی جاتی تھیں تو انہوں نے نصف صدی کے اندر اندر آدھی دنیا کو
اپنازیر نگیں بنا لیا۔ بیک وقت ایک طرف سندھ اور ہند کے دروازے پر دستک
دینے لگے اوردوسری طرف سر زمین فارس وروم کو ڈھیر کرکے رکھ دیا اور تیسرے
افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں سے گزر کر اندلس کی سرزمین ، سپین اور کو ہ
پائر نیز کی چوٹیاں عبور کرکے فرانس تک جا پہنچے۔ یوں اسلامی معاشرہ میں
ملکوں ملکوں کے باشندے، مختلف رنگوں اور نسلوں کے لوگ اور مختلف نقطہ ہائے
نگاہ کے حامل لوگ شامل ہوگئے مگر اس رنگا رنگ کے باوجود ملت اسلامیہ جسد
واحد کی طرح متحد رہی ۔
’’اسلام قبول کرو یا جزیہ دو ،ورنہ تمہیں ایسی قوم سے واسطہ پڑے گا جو موت
کی اتنی ہی خواہش مند ہے جتنی کہ تم زندگی کی تمنا رکھتے ہو۔‘‘
یہ اس خط کے الفاظ ہیں جو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہرمز
کو لکھا تھا۔ ہرمز کسریٰ کی طرف سے عراق کا گورنر تھا ۔ مٹھی بھر مسلمانوں
نے دنیا کی ظالم و جابر سپر طاقت کو للکارا۔چنانچہ ہرمز مسلمانوں کو اس
گستاخی کی سزا دینے کیلئے نکلاکہ ان ننگے ، بھوکے ، پیاسے مسلمانوں کی یہ
جرات کہ دنیا کی سپر طاقت کو اس طرح للکاریں اور اس کے سامنے سر اٹھائیں۔ہم
انہیں اس گستاخی کی ایسی سزا دیں گے اور ایسا سبق سکھائیں گے کہ دنیا یاد
رکھے گی۔فوجیں آمنے سامنے ہوئیں، مقابلہ ہوا اور پھر دنیا نے دیکھا اور یاد
رکھا وہ حشر مگر کس کا ؟ مٹھی بھر مسلمانوں کانہیں بلکہ اس عظیم سپر طاقت
کا ۔عراق ہی کی سرزمین پر لڑ ی جانے والی جنگ سلاسل ، جنگ نذار، جنگ بابل
کے واقعات اور اس کے علاوہ دوسری جنگیں او ر غز وات مٹھی بھر مسلمانوں کی
شجاعت و بہادری کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور اپنی زبان حال سے مسلمانوں کی
جرات ، بہادری و عظمت کی داستان سنا رہی ہیں ۔دور صدیقی میں عراق و شام کے
کئی علاقے فتح ہوگئے، مسلمانوں کا رعب، دبدبہ چار سو پھیل گیا، مسلسل
فتوحات مسلمانوں کے قدم چومنے لگیں۔ دورفاروقی آیا تو مسلمان اس عروج اور
بلندی پر پہنچ گئے کہ اس دور کی سپر طاقتیں فارس و روم مسلمانوں کے سامنے
تھڑ تھڑ کاپنے لگیں اورپھر دیکھتے ہی دیکھتے ان کا غرور و تکبر خاک میں مل
گیا ،ظلم و ستم کادور مٹ گیا، جہالت وگمراہی کے بادل چھٹ گئے، جور جفا کی
آندھیاں تھم گئیں اور دین حق کے پھیلنے سے دنیا امن و سلامتی کا گہوارہ
بنی۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں شام ، مصر ،
ایران ، عراق، جزیرہ، خوزستان، آرمینیا، آذر بائیجان، فارس، روم ، کرمان،
خراسان، مکران اور کئی دوسرے علاقے فتح ہوکر سلطنت اسلامیہ میں داخل ہوئے،
آخر یہ سب کس کا نتیجہ تھا؟باہمی اتحاد و یکجہتی کا۔یہی وجہ تھی کہ اس دور
میں ہوائیں پورے عالم میں مسلمانوں کی فتوحات کی نوید سنایا کرتی تھیں ،
سورج کی کرنیں مسلمانوں کے عدل و انصاف ، مساوات، رواداری اور عظمت و بزرگی
کی گواہ بن کر چار سو پھیل جایا کرتی تھیں،دجلہ و فرات کاپانی مسلمانوں کی
جرات ، ہمت ، شجاعت اوردلیری و بہادری کے گن گایا کرتا تھا۔
مگر آج سورج کی کرنیں کیا دیکھ رہی ہیں ؟ ہوائیں کیاپیغام سنا رہی ہیں ؟وہی
جو کبھی مسلمانوں کے جرنیل حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس
دور کی عظیم سپر طاقت کو دیا تھا۔مگر آج یہ پیغام کون کس کو دے رہا ہے؟
افسوس ! آج سب کچھ الٹ ہوگیا ۔جاگنے بلکہ جگانے والے سو گئے ،بہادر بزدل
اور بزدل بہادر بن گئے۔دنیا کے مظلوموں کو ظالموں کے پنجوں آزاد کرانے والے
آج خود ظالموں کے چنگل میں پھنس گئے۔دنیا پر حکومت کرنے والے آج محکوم بن
گئے۔دنیاکو علم و حکمت کا درس دینے والے آج غیروں کی شاگردی اختیار کرنے پر
مجبور ہو گئے۔ جن کے ناموں سے کفار اپنے بچوں کو ڈرایا کرتے تھے آج ان کے
بچوں کے دلوں میں کفار کی عظمت اور دبدبے کارعب بیٹھ گیا۔جوکبھی ایک بہن کی
پکار پر تڑپ اٹھتے تھے آج انہوں نے کشمیر ، فلسطین ، بوسنیا، چیچنیا،
کوسوؤ، صومالیہ ، افغانستان و عراق کی لاکھوں کروڑوں ماؤں بہنوں اور بیٹیوں
کوکس کے رحم وکرم پر چھوڑ رکھا ہے؟کون لاکھوں کروڑوں مظلوم مسلمان بچوں کے
مستقبل اور ا ن کے حقوق کو پامال کر رہاہے ؟کس جرم کی سزا میں ان پر بم ،
میزائل وغیرہ برسائے جا رہے ہیں ؟آخر ان کا قصور کیا ہے؟ان سے کیا خطا سرزد
ہوئی ہے؟ کیا ان کا قصور یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے بچے ہیں ؟یا یہ کہ وہ
انگریزی کی بجائے عربی اور دوسری زبانیں بولتے ہیں؟کوئی بتائے ان کا جرم،
کوئی بتائے ان کا قصور؟ انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں کہاں ہیں ؟ کیا وہ
اس انتظار میں ہیں کہ جب وہ مر جائیں توا ن کے کفن و دفن کے نام پر ساری
دنیا سے چندہ اکٹھا کیاجائے؟عالمی امن وسلامتی کے دعویدار اب کہاں ہیں؟کوئی
ہے جو ان مظلوموں کے حق میںآواز اٹھائے؟ کوئی ہے جو ظالم کا ہاتھ روکے؟کوئی
ہے جو ان معصوم مسلمان بچوں کو دلاسا دے، حق کی آواز بلند کرے؟کوئی ہے
مظلوم ماؤں ، بہنوں، بیٹیوں کی آواز پر لبیک کہنے والا؟کیاانسانیت دم توڑ
چکی ہے؟کیا اخوت ، ہمدردی اور خیر خواہی کے جذبات مٹ چکے ہیں؟ مسلمانوں کی
غیرت کہاں ہے؟ کیادنیا کے چوتھائی ( سوا ارب سے زائد) مسلمانوں کی غیرت دم
توڑ چکی ہے؟ کیا اب کوئی مظلوموں کی داد رسی کرنے کیلئے ایوبی، ابن قاسم ،
غزنوی ، طارق و خالد بن کر نہیں آئے گا؟
مغرب سے آنے والی ہوائیں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں اور طرح طرح کے طعنے دیتی
ہیں، سورج کی کرنیں ہم پر ہنستی ہیں ،مغرب سے اٹھنے والے بادل ہمارا تمسخر
کرتے ہیں ،ابھی حال ہی میں عراق وار کے دوران ایک ڈیوڈ (Davaid) نامی یہودی
کا بیا ن شائع ہوا جس نے میرے دل و دماغ کو جھنجوڑ کر رکھ دیا کہ ۔’’
تمہارے 57اسلامی ممالک کے حکمران ہماری ڈکٹیشن پر اپنے ملکی و غیر ملکی
مفادات کے فیصلے صادر کرتے ہیں اگر وہ ہماری حکم عدولی کریں تو سانسوں کے
بندھن سے آزاد ہو جاتے ہیں یعنی موت کے گھاٹ اتار دئیے جاتے ہیں ، طاقتور
میڈیا ہمارے کنٹرول میں ہے،دنیا میں کہیں کوئی مسلم آواز فیصل ، قذافی
،بھٹو ،سوئیکارنو وغیرہ کی صورت میں یہودیت کے خلاف اٹھتی ہے تو ہمارے
ذرائع ابلاغ اسے عوامی نظروں میں اتنا خونخوار کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے
عوامی نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے،دنیا کی سپر پاور امریکی صدر کے داخلی اور
خارجی فیصلے سینٹ کے ا ن ارکان کے مرہونِ منت ہیں جن کی اکثریت میری قوم
(یہودیت ) سے تعلق رکھتی ہے ،تمہارے دانشور سچ کہتے ہیں کہ اقوام متحدہ
ہماری لونڈی ہے۔اقوام متحدہ کے دس اہم ترین اداروں کے اہم ترین عہدوں پر
73یہودی فائز ہیں ۔اقوام متحدہ کے نیویارک آفس میں 22شعبوں کے سربراہ یہودی
ہیں ۔یہ تمام شعبے حساس قسم کے ہیں جوبین الاقوامی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں
۔عالمی مالیاتی اداروں آئی ایم ایف کے 9ارکان اور ورلڈ بنک کے 6 اہم شعبوں
کے سربراہ یہودی ہیں ۔جومسلم حکمران ہماری مرتب کردہ پالیسیاں اپنی عوام پر
مسلط نہیں کرتے ہم اس کی معیشت کا تختہ دھڑن کر دیتے ہیں ۔
سنو! ہم صلیبی جنگ کا آغازکر چکے ہیں ۔ 1909ء میں یروشلم میں ہمارے صلیبی
سپاہیوں نے مسجد عمر میں گھس کر تمہاری قوم ( مسلمانوں ) کا قتل عام کیا
۔اس وقت دل ہلا دینے والے شور وغل میں کسی کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔
مسجد عمر کے صحن میں جو وسیع و عریض تھا تمہارے 70ہزار سے زاہد مسلمانوں کا
خون بہا ۔ موجودہ قتل عام بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور ایریل شیرون کی
موجودہ الیکشن میں کامیابی اسے جلا بخشے گی ۔اکتوبر 1918ء میں ہمارے جنرل
گورو نے تمہاری قو م کے عظیم محسن صلاح الدین ایوبی کی قبر پر پاؤں کی
ٹھوکر مارتے ہوئے کہا تھا کہ ۔’’لو صلاح الدین ! ہم یہاں تک پہنچ آئے ،ہم
نے شام بھی فتح کرلیا تم کب تک سوئے رہو گے ؟‘‘
تمہارے کاسی کیس کی سماعت کے دوران ہمارے وکیل نے غلط ریمارکس نہیں دئیے
تھے کہ پاکستانی پیسوں کی خاطر اپنی مائیں بیچ ڈالتے ہیں ،ایمل کاسی کے
سودے میں تمہارے ایک نامور سابق وزیر نے خوب ڈالر کمائے۔
کسی بھی مسلم ریاست سے ہم ایسے افراد کو جن سے ہمیں خطرہ ہو ،اغوا کرنے
کیلئے ’’میر صادق اور میر جعفر ‘‘ تلاش کرتے ہیں ۔عراق پر ممکنہ حملے کیلئے
عرب ریاستیں ہمیں اڈے دیں گی اور تو اور سعودی عرب ہمارے شانہ بشانہ ہوگا ،
عراق پر حملہ صرف اور صرف تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنا ہے جو پوری دنیا میں
سب سے زیادہ ہے ۔
11ستمبر کا حادثہ بھی ہمارے ایک ’’ ماسٹر مائنڈ ‘‘ کی اختراع تھی ۔
افغانستان کی دھرتی پر ایک اور عمر پیدا ہو چکا تھا جس نے 14سو سال پہلے کی
خلافت راشدہ کے قیام کو عملی شکل دی تھی۔ فلسطین کی کسی مظلوم بیٹی کی آواز
پر آج تمہارا کوئی صلاح الدین نہیں آئے گا ،حماس کی آواز پر کوئی طارق بن
زید ’’ ہر ملک ملک ماست‘‘ کا نعرہ رستا خیز نہیں کرے گا ،تم تعداد میں ایک
عرب پچیس کروڑ ہونے کے باوجود سمندر کی جھاگ کی طرح بے وزن ہو ۔‘‘
آج اسلام دشمن یہو د ونصاریٰ و ہنود ، امریکہ اور اس کے حلیف مسلمانوں کے
ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں افغانستان و عراق
کے بعداب شام اور ایران کی باتیں ہو رہی ہیں ، لیکن عالم اسلام میں کہیں
بھی اپنے بھائیوں کو بچانے ، ان کے سا تھ اظہار یکجہتی کرنے اور ان کے تحفظ
و دفاع کیلئے کوئی تدبیر اور فکر نظر نہیں آتی بلکہ اپنی بے غیرتی اور بز
دلی کو جواز فراہم کرنے کیلئے ایسے موقعوں پر بھی اختلافات کی باتوں کو
دہرایا جاتا ہے ۔حال ہی میں عراق کے مسئلہ کو لیں ، ہمارے بز دل وزیر اعظم
اور صدر کہنے لگے کہ عراق نے ہمارے مشکل وقت میں ہمارا کیا ساتھ دیا ہے کہ
ہم اس کا ساتھ دیں ؟کسی نے ’’سب سے پہلے پاکستان‘‘ کا نعرہ بلند کیا ۔ اللہ
عزوجل قیامت کے دن تمہیں اس نعرے کا جواب دے گا اور ظالموں سے دوستی کا مزہ
چکھائے گا۔ ایک مسلمان کیلئے سب سے پہلے ایمان ہے اور ایمان کاتقاضا یہ ہے
کہ اپنے مظلوم بھائیوں کا ساتھ دیا جائے،ان کی سلامتی و بقاء ، آزادی و خود
مختاری کی خاطر اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا جائے۔ کوئی کہنے لگا کہ
یہ مصیبت صدام کی اپنی لائی ہوئی ہے ، صدام کے زوال یا موت پر کوئی آنکھ
آنسو نہیں بہائے گی۔کسی نے کہا ’’ اگر ہم پر کوئی مصیبت آئے تو عراق یاکوئی
اور ہماری مدد کو نہیں آئے گا اس لیے ہمیں اپنے بچاؤ کی تدبیر کرنی ہے۔ان
بز دل ، عقل کے اندھوں کو یہ معلوم نہیں کہ ایسی باتیں کرکے وہ دشمن کے کام
کو مزید آسان بنا رہے ہیں ۔ اپنے آپ کو اسلام کا قلعہ اور دنیا کی عظیم
اسلامی طاقت کہلانے والوں نے جس بز دلی کا مظاہرہ کیا وہ کسی بیان کی محتاج
نہیں ، شرم اور غیرت میں ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ بھارت جیسے اسلام کے بد
ترین دشمن ملک نے عراق کے مسئلہ پر بالکل واضح پالیسی اختیار کی اورجنگ کی
مخالفت کرتا رہا جبکہ پاکستان ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہونے کے باوجود ابھی
دیکھو اور انتظار کرو کی بز دلانہ پالیسی میں اٹکا رہا ۔ اس سے اتنا بھی نہ
ہو سکا کہ اس غیرقانونی غاصبانہ جنگ کی مخالفت میں کھل کر دو بیان دے دے یا
جنگ کی مخالفت کرنے والے (فرانس، جرمنی، چین اور روس ) کے گروپ میں ہی شامل
ہو جائے۔ اگر اسلام کا قلعہ ہی باطل کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر باقی وہاں
کیا کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے سب کو حوصلہ دینا تھا اور سب کو ساتھ لیکر
آگے بڑھنا تھا ۔اگر یہ کوئی مثبت قدم اٹھاتے تو یقیناًپوری مسلم امہ ان کے
پیچھے دوڑتی۔غیر مسلم یورپ کے لوگ عراق پہنچ کر جنگ کے خلاف ڈھال بنانے کی
کوشش کرتے رہے جبکہ مسلم ممالک کے بز دل اور بے غیرت عوام چپ سادھے بیٹھے
رہے کہ کہیں کوئی آفت نہ آجائے ۔ آفت تو اب تم پر قیامت کے دن تمہارے رب کی
طرف سے پڑے گی اور تمہیں اس بے غیرتی اور بزدلی کا مزہ چکھائے گی۔
مسلم حکمرانوں کو اب یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ طاقتور دشمن
کامقابلہ اکیلے نہیں کیا جاسکتا اس کیلئے ہمیں باہمی تعاون ، اتحاد و
یکجہتی کی ایک مضبوط دیوار تعمیر کرناہوگی، اپنے آپ کو ایک جسد واحد کی طرح
بنانا ہوگا۔ جیسا کہ رسول معظم و مکرم حضورنبی آخر الزما ںﷺ نے فرمایا
مثل المومنین فی توادھم وتراحمھم وتعاطفھم مثل الجسد
اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعیٰ لہ سائر الجسد بالسھر و الحمیٰ o
’’مسلمانوں کی مثال آپس کے لطف و محبت اورہمدردی میں ایسی ہے جیسے کہ ایک
جسم، جب اس کے کسی عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے چین وبے قرار
ہوجاتا ہے اور بخار کی سی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔‘‘
حضورنبی کریم ﷺنے مسلمانوں کی مثال ایک انسانی جسم سے دے کر مسلمانوں کے
باہمی تعاون، اتحادو یکجہتی کو ایک عمدہ مثال کے ذریعے ذہن نشین کرایا ہے ۔
انسان کے جسم میں بظاہر مختلف اعضاء اور جوراع ہوتے ہیں ،ہر عضو کی شکل الگ
، مقام الگ ، کام الگ ہے مگر اس کے باوجود ایک دوسرے سے اس طرح وابستہ ہیں
کہ سب کو ملا کر ایک انسان بنتا ہے ،اگر کسی عضوکو الگ کر دیا جائے تو کچھ
بھی باقی نہیں رہتا اسی طرح تمام مسلمان گروہوں، جماعتوں، ملکوں اور
ریاستوں کو ملاکر ایک مسلمان قوم بنتی ہے اگر کسی ایک گروہ کو الگ کر دیا
جائے تو وہ قوم باقی نہیں رہتی ۔ اگرچہ جسم کے تمام عضو مختلف ہیں ، ان کے
کام مختلف ہیں مگراس کے باوجود ان کا حکمران ایک ہے جس کا نام دل ہے ۔ اسی
کے حکم سے آنکھ دیکھتی ہے، کان سنتے ہیں ، ناک سونگھتی ہے، زبان بولتی ہے،
ہاتھ اٹھتے ہیں ،پاؤں چلتے ہیں ۔ان میں اکثریت کے باوجود ایسا اتحاد ہے کہ
جب کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام عضو ، سارا جسم بے قرار ہوجاتا
ہے، ہر عضو یہ سمجھتا ہے کہ یہ تکلیف اسے نہیں بلکہ مجھے ہے۔
پیارے آقا و مولا حضور نبی کریم ﷺ کا بھی یہی مقصد تھا کہ جس طرح جسم کے
تمام اعضا ء ایک دوسرے سے متصل ہیں ،ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے
ہیں ، ایک کی راحت دوسرے کی راحت اور ایک کی تکلیف دوسرے کی تکلیف ہے اور
سب کا مرکز ایک ہے اسی طرح تمام مسلمان بھی ایک ہو جائیں ، ایک دوسرے کے
دکھ درد میں شریک ہوں ، ایک کی راحت دوسرے کی راحت اور ایک کی تکلیف دوسرے
کی تکلیف ہواور سب کا مرکز بھی ایک ہو جسے امیرالمومنین یا خلیفۃ المسلمین
کا نام دیا جاتا ہو۔
آپ دیکھیں اور غور کریں ایک جسم کے تمام اعضاء تو مختلف ہیں ، ان کی شکل و
صورت ، کام کاج اور مقام مختلف ہے اس کے باوجود وہ ایک ہیں جبکہ ہمار اً
مسلمانوں کا تو تانا بانا ایک ہے، مسلمانوں کا خدا ایک ، رسول ایک، کتاب
ایک، قبلہ ایک ، دین ایک ، ضابطہ حیات ایک اور نفع و نقصان بھی ایک ۔اگر اس
کے باوجود ہم ایک نہ ہوں تو یہ انتہادرجہ کی حماقت ہوگی۔حکیم الامت حضرت
علامہ ڈاکٹر محمد اقبال ؒ ؒ نے کیاخوب فرمایا
منفعت اس قوم کی ایک نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی دین بھی ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑ ی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیازمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
اہل یورپ تحویل جنگ و جدل کے بعد ایک ہو سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ہو سکتے؟
یورپ کی طرز پر ہم مسلم یونین کیوں نہیں بنا لیتے؟ اگر انتظامی و داخلی
امور میں نہیں تو کم از کم دفاعی لحاظ سے تو ایک ہو جانا چاہیے۔مسلم
حکمرانوں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہیے کہ دشمن کے سامنے لیٹ کر
یااپنی عزت و غیرت اورخودمختاری کو اس کے پاؤں تلے روند کر یا اس کی غلامی
قبول کر کے جان بچا لیناکوئی بہادری نہیں اور یہ زندگی کوئی زندگی
نہیں،زندگی شیر کی بھی ہوتی ہے اور گیڈر کی بھی،زندگی عقاب کی بھی ہوتی ہے
اور ممولے کی بھی، زندگی گھوڑے کی بھی ہوتی ہے اور گدھے کی بھی، زندگی
مچھلی کی بھی ہوتی ہے اور غلاظت سے بھر ے کیڑے کی بھی،مگر زندگی، زندگی میں
فرق ہے ۔ دنیا میں عزت کی زندگی سر اٹھا کر جینا ہے ، سر اٹھا کر چلنے کی
تمنا ہے ،آزادی و خودمختاری سے لگاؤ اور محبت ہے۔تو اس کیلئے ہمیں ایک بار
پھر وہ ادائیں سیکھنی اور اپنانی پڑیں گی جن کا شروع میں ذکر کیا گیا ، جن
کے سبب بنو حارث کے لوگ زمانہ جاہلیت میں بھی اپنے دشمن پر غالب رہتے تھے
اور جن کے سبب مٹھی بھر مسلمانوں نے نصف صدی کے اندر اندر آدھی دنیا فتح کر
ڈالی ، جن کے سبب مٹھی بھر مسلمانوں کا رعب ، دبدبہ اس دور کی عظیم سپر
طاقتوں پر طاری تھا اوروہ ان کے سامنے تھڑ تھڑ کانپتی تھیں۔
آج کے بے تہاشا مسلمانوں کے لیے بھی یہی اصول کارفرما ہیں ۔ قرآن مجید میں
مسلمانوں کوباہم متحد رہنے،باہمی تنازعہ سے بچنے اور سختیوں پر صبر
واستقامت سے کام لینے کی جو بار بار تاکید کی گئی ہے اس کابھی یہی مطلب ہے
کہ مسلمانوں کیلئے بھی کامیابی وکامرانی کے یہی اصول ہیں اگران پر عمل کریں
گے تو کامیاب ہوں گے اور اپنے دشمن پر غالب آئیں گے ،عزت ووقار ، عظمت
وسربلندی ان کے ہاتھ آئے گی ، اس کے بر عکس اگر یہ خوبیاں ان کی بجائے ان
کے دشمن میں ہوں گی تو غلبہ اور کامیابی انہی کا مقدر ٹھہرے گی ۔ ان خوبیوں
سے محروم رہ کر مسلمان کہیں فلاح نہیں پا سکتے، دنیا وآخرت میں ذلت و
رسوائی ، ناکامی و نامرادی ان کا مقدر ٹھہرے گی۔ قرآن مجید میں اللہ رب
العزت نے مسلمانوں کو تعلیم دیتے ہوئے فرمایا۔
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلَّا تَفْعَلُوْہُ
تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِیْ الْاَرْضِ وَ فَسَادٌ کَبِیْرo (الْاَنْفَال 73:8)
’’اور کافر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہیں اگر تم ایسا نہیں کرو گے (آپس
میں ایک دوسرے کے وارث نہیں بنو گے،آپس میں باہمی تعاون ،اتحاد و
یکجہتی،اخوت ،ہمدردی و مساوات کو فروغ نہیں دو گے ) تو زمین میں ایک بہت
بڑا فتنہ اور فساد برپا ہو جائے گا (جسے کوئی بھی سبز انقلاب دور نہیں کر
سکے گا)۔‘‘
آج دنیا کا منظر اور اسلام اور کفر کی آویزش میں مسلمانوں کی پستی و ناکامی
، کامیابی کے ان زریں اصولوں کی سچائی اور قوت و تاثیر کا منہ بولتا ثبوت
ہے ۔ قوموں کی حیات و بقاء اور عزت و سر بلندی کا راز ان کے باہمی کٹھ جوڑ
، ایک دوسرے کے احترام ، ہمدردی و خیر خواہی ، اپنے ایک ایک فرد کو عزیز
اور قیمتی سمجھنے اور آزمائش کے وقت فرار کی راہ اختیار کرنے کی بجائے باہم
متحد ہوکر پامردی کے ساتھ مشکلات کا مقابلہ کرنے میں مضمر ہے ۔آج کے مسلمان
اس راز سے بے بہرہ ہیں اور کامیابی و کامرانی کی اس کلید کو ہاتھ سے کھو
بیٹھے ہیں ۔ آج مسلمانوں کی یہ کیفیت ہے کہ وہ عین آزمائش کی حالت میں ،
کفر سے معرکہ آرائی اور اُمّہ کو درپیش موت و زیست کے مرحلے میں بھی آپس
میں متحد نہیں ہیں۔وہ اس کڑے امتحان کے موقع پر بھی آپس کی رنجشوں اور
اختلاف کو طے نہ کر پائے اور نہ ہی فراموش کر سکے ۔ ان میں واقعی ایک دوسرے
کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں ۔ وہ آج اُمّہ کوبچانے کیلئے اپنے کسی ذاتی مفاد
کو خطرے میں ڈالنے اور خود کو کسی تکلیف سے دو چار کرنے کیلئے تیارنہیں ۔ان
کے نزدیک لاکھوں کروڑوں مسلمانوں کی جان اور عزت و آبرو سے چند سو ڈالر
زیادہ قیمت رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عالم اسلام پر کفر کی یلغار کے اس
نازک ترین مرحلے میں بھی نہ خود بکنے سے ہچکچاتے ہیں اور نہ ہی اپنے مسلمان
بھائیو ں کے سودے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری پر
خوشی کے شادیانے بجانے والے مسلم حکمران اپنے مسلمان بھائیو ں ، مجاہدین
اور ٹھیٹھ دین دار طبقے کو نام نہاد دہشت گردی کے الزام میں پکڑ پکڑ کر شب
و روز دشمن کے حوالے کرنے میں مصروف ہیں اوراس کے معاوضہ میں خوب ڈالر
کماتے ہیں صرف اس لئے کہ ان کی اپنی کھال ، ان کا اقتدار اور ان کا اپنا
عیش و آرام بچ جائے ۔ جن کے چہروں پر اللہ عزوجل کا نور اور انبیائے کرام
علیہ السلام کی محبوب ترین سنت ، تقویٰ و پر ہیز گاری کی علامت ( یعنی
داڑھی مبارک ) ہو اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کہ شاید یہ دہشت گردنہ
ہو ں۔ آج ان جانوروں سے بد تر ، ذلیل ترین لوگوں نے مسلمان ہونے کی علامت
کو دہشت گردی کی علامت قرار دے دیا ہے اور مسلمانوں کے چودہ صد سالہ عقیدہ
جہادکو دہشت گردی کا نام دے دیاہے مگراس کے باوجود مسلمان حکمران ذرا ٹس سے
مس نہیں ہورہے سب اپنی اپنی دھن میں مگن ہیں اور صرف اپنے اقتدار کی سلامتی
چاہتے ہیں انہیں اسلام، اہل اسلام اوراسلامی اقدار کی پامالی سے کوئی غرض
نہیں ۔اسلام رہے نہ رہے ، مسلمان بچیں نہ بچیں انہیں اس سے کوئی سروکار
نہیں بس بہرصورت ان کی کرسی سلامت رہنی چاہیے۔ یہ اسلام کے مقابل جمہوریت
پر سب کچھ قربان کر دینے کو تیار ہیں اس لئے کہ ان کی کرسی کی سلامتی
جمہوریت سے ہے اسلام سے نہیں۔ |