تحریر عارف اے نجمی نارووال
گندم کی کٹائی کا عمل شروع ہوتے ہی کھیتوں میں رونقیں لگ جاتی ہیں کسان
اپنی فصل کوسمیٹنے کے لئے بھاگ ڈور شروع کر دیتا ہے ،پہلے کسان ہاتھ سے
گندم کاٹتے تھے جیسے جیسے انسان نے ترقی کی ویسے ویسے سہولتیں بھی میسر
ہوتی گئیں،اب کسان ہاتھ سے کم مشینوں سے زیادہ گندم کاٹتے ہیں جس سے کم
ٹائم میں زیادہ کام ہوجاتاہے جو کہ ایک فائدہ مند بات ہے ایک مشین بھرولہ
جو کہ گندم کو اوپر اوپرسٹوں سے کاٹ کے اپنے اندر جمع کرتا رہتا ہے
اورپھرگندم کے دانے الگ کر کے بوسے کو باہر پھینک دیتاہے جوکہ کھیتوں میں
جمع ہوتا رہتا ہے کسان اس بوسے کو اکھٹا کرنے اور استعمال کرنے کی بجائے
زیادہ تر اس کو آگ لگا دیتاہے جس سے دور دور تک دھواں پھیل جاتا ہے جو کے
فضائی آلودگی کا سبب بھی بنتا ہے اور اس کے اثرات موسم پر بھی مرتب ہوتے
ہیں جس سے گرمی میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے،اس عمل سے سب سے زیادہ نقصان زمین
پررینگنے او ر رہنے والے پرندوں اورجنگلی جانوروں کو ہوتا ہے جو کہ ان
کھیتوں میں انڈے اور بچے دیتے ہیں جب ان کھیتوں کو کسان آگ لگاتا ہے تو ان
میں رہنے والے پرندوں کے انڈے یا بچے جو کہ اڑنے یا چلنے پھرنے کے قابل
نہیں ہوتے وہ اس آگ کی وجہ سے جل مر جاتے ہیں دوسرے پرندے اور جنگلی
جانورخوف سے اس علاقے کو چھوڑ کردوسرے علاقوں اورملکوں کو ہجرت کر جاتے ہیں
کیونکہ جب کسان کھیت میں آگ لگاتا ہے تو بوسے کیساتھ زمین پر گرنے والا
اناج دانا دنکابھی جل جاتاہے جس سے پرندوں کو کھانے کو کچھ میسر نہیں
ہوتااورکئی ایسے پرندے ہیں جو صرف کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں آگ کی وجہ سے کیڑے
مکوڑے بھی مر جاتے ہیں جس سے پرندوں کی اور جنگلی جانوروں کی تعداد دن بدن
کم ہوتی جا رہی ہے جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے، اگراس کی باقائدہ روک تھام نہ
کی گئی تو وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کو طوطا ،چڑیا،کوا،تیتر،بٹیر،ہدہد،
کبوتر،ابابیل ،گدہ ،عقاب،چیل، الو،مینا ،بلبل ،بگلہ اور دیگرپرندے اور
جنگلی جانور وں کوچڑیا گھر،ٹی وی اور تصاویر پر دیکھا یااور ان کی کہانیاں
سنایا کریں گے ، پہلے ہی گدہ نامی پرندہ اور کئی ایسے پرندے غائب ہوتے جا
رہے ہیں ،میں اعلی احکام اور خاص کر محکمہ وائلڈلائف کی توجہ اس طرف دلانا
چاہتا ہوں کہ وہ اس کے خلاف قانون بنائیں کہ کوئی بھی کسان اپنے کھیتوں میں
کھڑی فصلوں اور جنگلات کو آگ نہیں لگا سکے گے حکومت وقت کو چاہیے کہ وہ
پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے کسانوں کو خبردار کریں کہ کھیتوں
اور جنگلات کو آگ لگانا منع ہے ،امید ہے کہ اس پر کوئی ایکشن ہو گا اور ہم
پھر سے رنگ برنگے اور چہچہتے پرندے دیکھ پائیں گے۔اور ہمیں وہی رونکیں
لوٹٹی ہوئی نظر آئیں گی جو کہ کسی زمانہ میں ہوا کرتی تھی صبح اٹھتی ہی
چڑیوں کا چہچننا کوئل کی کوک ،بلبل کا شور جو کہ اب صرف افسانوں یا شاعری
میں ملتا ہے حقیقی زندگی میں نہ ہونے کے برابر ہے جوں جوں ترقی ہو رہی ہے
ہم انسانوں کو تو فائدہ حاصل ہو رہا ہے لیکن قدرتی ماحول ختم ہوتا جا رہا
ہے جو قدرتی ماحول ہمیں سر عام نظر آتا تھا اب صرف پنجروں کی حد تک محدود
ہوتا جا رہا ہے ۔اﷲ نے انسان کو وہ قوت بخشی ہے کہ انسان اپنے ماحول کو
بدلنے کی قوت رکھتا ہے لیکن انسان کو چاہئیے کہ اپنا ماحول ضرور بدلے لیکن
چرند اور پرند کیڑے مکوڑے کا ایک اپنا ماحول ہے اس مخلوق کی ایک اپنی دُنیا
ہے جب سے دُنیا بنی ہے یہ مخلوق اپنے طریقے سے ہی جی رہی ہے سانس لے رہی ہے
جب قدرت نے اس مخلوق کو یہ حق دیا ہے تو ہم انسان کون ہوتے ہیں ان سے یہ حق
چھیننے والے پرندوں کو قید کر کے بنچنے والے ان کو پنجروں میں بند کرنے
والے اگر ہم انسانوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو کیا ہم کو اچھا لگے گا ۔اگر
انسانوں کو بُرا لگے گا تو پرندوں اور جانور بھی اس قدرت کی ایک نایاب
مخلوق ہے اس لیئے ان کو بھی اپنی مرضی سے جینے سانس لینے کا حق ہے ہم
انسانوں کو کوئی حق نہیں کہ ہم ان کے ماحول کو خراب کریں ۔اس لیئے انسانوں
کو خود غرضی چھوڑ کر اس مخلوق کو بھی تحفط دینا چاہیئے ۔ |