بھارت حریت کانفرنس کو دہشت گرد اتحاد قرار دینا چاہتا ہے۔
اس پر پابندی لگانے کے لئے مہم تیز کر دی ہے۔ آزادی پسند قائدین پر مقدمات
چلانے کے منصوبے پر تیزی سے عمل ہورہاہے۔’’ انڈیا ٹوڈے ‘‘ٹی وی نے معروف
آزادی پسندرہنما نعیم احمد خان کو حوالہ سکینڈل میں پھنسانے کے لئے ایک
خفیہ آپریشن کیا۔ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ حریت کانفرنس پاکستان سے
پیسہ لے کر تحریک چلا رہی ہے۔ یاسین ملک کی اجازت کے بغیر ایک خاتون صحافی
ان کی خواب گاہ تک پہنچ گئی۔شدید ردعمل کے بعد بھارت میں ہنگامہ شروع ہو
گیا ہے۔کشمیریوں کی جدوجہد میں تازہ لہرسے بوکھلاہٹ کا شکار ہو بھارت دنیا
پر باور کر رہا ہے کہ کشمیری نوجوان پاکستان سے پیسہ لے کر انڈین فورسز پر
پتھراؤ کرتے ہیں یا آزادی کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ یہ ظاہر کیا جا رہا ہے
کہ کشمیری پاکستان کے ایجنٹ ہیں۔ دنیا کو گمراہ کرنے کے لئے یہ سب کیا جا
رہا ہے۔ شاید یہ نئی دہلی کا ایک بڑا حربہ ہے۔ یہ طے ہے کہ کشمیر میں بھارت
کا سورج ڈوب رہا ہے۔ بھارتی تجزیہ کار بھی چیخ چلا رہے کہ کشمیر بھارت کے
ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ جس طرح کشمیری تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ایک زبان ہو
کر تحریک میں تیزی لا رہے ہیں۔ اسی طرح بھارت نے بھی کشمیر کے خلاف میڈیا
پروپگنڈہ مہم تیز کی ہے۔ گزشتہ کئی روز سے بھارتی میڈیا مسلسل کشمیریوں کی
کردار کشی کر رہا ہے۔ کشمیریوں کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ بھارتی ایجنسیوں نے
میڈیا کو ایسے اعداد و شمار فراہم کئے ہیں جن سے عوام کو قیادت سے متنفر
کرنے کی سازش کی بو آتی ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے گزشتہ پانچ سال
میں حریت قائدین پر 506کروڑ روپے لگائے۔ جو سیکورٹی، ہوٹل بل، سفر ، پٹرول
وغیرہ کی مد میں صرف کئے گئے۔ مگر بہت جلد یہ بات منظر عام پر آئے گی کہ
بھارتی فورسز نے حریت کانفرنس کی آڑ میں یہ ساری رقم خود ہڑپ کر لی اور
بھارتی عوام کو بے وقوف بنایا گیا۔ شاید بھارتی فورسز اور خفیہ ایجنسیوں کا
ایک بڑا سکینڈل منظر عام پر آجائے۔ مگر اسے منظر عام پر کون لائے گا۔ بلی
کے گلے میں گھنٹی کون ڈالے گا۔ بھارتی میڈیا نے کبھی بھی کشمیر کی جدوجہد
آزادی کو درست پیرائے میں قبول نہیں کیا۔ اس لئے اس کا موقف ہمیشہ غیر
حقیقت پسندانہ رہا۔ اس نے حالات کو اسی انداز میں پیش کیا۔ جس طرح بھارتی
عدلیہ عدل وانصاف کے بجائے عوام کی تسکین کے لئے فیصلے کرتی ہے۔ اس کا ثبوت
سپریم کورٹ آف انڈیا نے بھی کشمیر سے متعلق مقدمات کے حوالے سے کئی بار دیا
ہے۔ افضل گورو شہید کا عدالتی قتل کیا گیا۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے اپنی
فیصلے میں تسلیم کیا کہ شواہد ناکافی تھے۔ صاف و شفاف ٹرائیل کی اجازت نہیں
دی گئی۔ افضل گورو کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔ انہیں مرضی کا وکیل کرنے
کی بھی سہولت نہ ملی۔ اس کے باوجود عوام کی تسکین کے لئے ایک معصوم کشمیری
نوجوان کو بھانسی دی گئی۔ ایسا ہی مقبول بٹ شہید کے ساتھ کیا۔ بھارتی عوام
کی روح کی تسکین کے لئے بھارت کی سب سے بڑی عدالت نے جس طرح عدل و انصاف پر
سیاہ دھبہ لگایا،اس نے بھارتی عدلیہ پر تمام بھروسہ اور اعتماد کا خون کر
دیا۔
بھارتی عدلیہ کی جانب سے کشمیریوں کے جوڈیشل قتل کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی
فوج قاتل اور دہشت گردی فوج کے طور پر منظر عام پر آئی ہے۔کشمیریوں کے قتل
عام اور جنگی جرائم میں ملوث فوجیوں کو سزائیں دینے کے بجائے انہیں تمغے
اور انعامات دیئے جا رہے ہیں۔ یہ سچائی بھی سامنے آئی کہ بھارت کے تمام
قوانین، قواعد، اصول کشمیر اور کشمیریوں کے لئے ختم ہو جاتے ہیں۔ بھارت نے
لاکھوں کشمیری پنڈت وادی سے جبری طور پر نکالے۔ تب سے انہیں پروپگنڈہ اور
تحریک کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا میں بھارتی
سفارتخانوں میں کشمیری ہندو پنڈت برادری کے نوجوان شامل کئے گئے ہیں۔ جو
دنیا بھر میں کشمیری مسلمانوں کی کردار کشی میں مصروف ہیں اور پاکستان کے
خلاف زہر اگل رہے ہیں۔ کشمیر میں آج تحریک آزادی عروج پر ہے۔ بچے ، طلباء
اور طالبات میدان میں ہیں۔ انھوں نے بھارتی پالیسی سازوں کو حیران ہی نہیں
بلکہ خوفزدہ کر دیا ہے۔ اسی لئے کشمیریوں پر پاکستان سے پیسے لے کر آزادی
کی جدوجہد کرنے کا الزام لگایاگیا ہے۔ آزادی پسند رہنماؤں پر دہشت گردی اور
بھارت سے بغاوت ، غداری کے مقدمات چلانے کی راہیں ہموار کی گئی ہیں۔ میڈیا
رائی کا پہاڑ بنانے میں مصروف ہے۔ بھارتی میڈیا کا بڑا طبقہ عوام کی آواز
کے بجائے خفیہ ایجنسیوں کا ایجنٹ بن کر رپورٹیں پیش کرتا ہے۔ اسے بھی یقین
ہونے لگا ہے کہ کشمیر بھارت کے چنگل سے نکل رہا ہے۔اس نے فضول کے ہاتھ پاؤں
مارنے اور کشمیریوں پر بھارتی موقف مسلط کرنے کی سرگرمیاں تیز کی ہیں۔
پاکستا ن مسلہ کشمیر کا بنیادی فریق ہے۔ اگر بھارت کشمیریوں کو غلام بنائے
رکھنے کے لئے ظلم و جبر، ریاستی دہشت گردی کو تیز کرتا ہے تو پاکستان کو
بھی کشمیریوں کی آزادی کے لئے اپنے حقیقت پسندانہ موقف کو دنیا پر واضح
کرنے کی حکمت عملی بنانے میں دیر نہیں لگانی چاہیئے۔ ایک فریق اور وکیل کے
طور پر پاکستان ایسا کرنے کا حق رکھتا ہے۔ تا ہم یہ بات تسلی بخش ہے کہ
بھارت کی جارحیت اور بوکھلاہٹ نے کشمیریوں کو متحد کر دیا ہے۔ یہی عوام کی
بھی خواہش ہے۔ لوگ آزادی پسند قیادت کی خامیوں اور کوتاہیوں کے باوجود
انہیں مواقع دے رہے ہیں۔ وہ لیڈر شپ سے بد ظن نہیں ہوئے۔ اس لئے آزادی پسند
رہنماؤں کو بھی اصلاح احوال سے ایک آواز بن کر بھارت کی پریشانی اور ناکامی
میں مزید اضافہ کرنے کی فکر ہونی چاہیئے۔ تا ہم پاکستان کا کردار سب سے اہم
ہے۔ توقع ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کر کے کشمیر پر
بحث کی جائے گی اور دنیا کو متفقہ پیغام دیا جائے گا۔ بھارت کا جنگی جنون،
جنگ کی دھمکیاں، ائر فورس کو الرٹ رہنے کی ہدایت، فوجیوں کی چھٹیاں منسوخ
کرنے کا حکم، پہلے حملہ کرنے کا تاثر جیسے اقدام کا مقابلہ کرنے کے لئے
فوری، سریع الحرکت پیش بندی اور بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر عبد الاعلیٰ کی وفات
تحریک آزادی کے دیرینہ رہنما،60کی دہائی میں الفتح تحریک اور پیپلز لیگ کے
بانی، بھارت کے خلاف مزاحمت کے معمار، مخلص آزادی پسند ڈاکٹر عبدالاعلیٰ
وفات پا گئے۔ عمر تقریباً 70سال اور تعلق شوپیاں مقبوضہ کشمیر سے تھا۔ ایم
بی بی ایس کے بعد سرکاری ملازمت اختیار کی ۔ مگر مستعفی ہو گئے۔1994میں
ہجرت کر کے مظفر آباد آ ئے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے علیل تھے۔اﷲ تعالیٰ ان کی
اولاد ڈاکٹر محمد عثمان، ڈاکٹر محمد عمر، ڈاکٹر فاطمہ، میکائیل سمیت جملہ
پسماندگان کو صبر دے اور ڈاکٹر صاحب مرحوم کو جنت الفردوس عطا فرمائے۔
|