نواز لیگ کا انتخابی نشان ’’شیر‘‘ ہے جو بہادری کی علامت
ہے لیکن ہر دور میں اس ’’شیر‘‘ کے پیچھے شکاری گھومتے رہے۔ ہر بار اس کو
جال میں پھانسا بھی جاتا رہا۔ پہلی بار وہ صدر غلام اسحاق خاں کے ہتھے چڑھے
لیکن شیر اور شکاری دونوں ہی گئے۔ دوسری بار شکاری پرویز مشرف تھا جس نے ’’شیر‘‘
کو ’’سرور پیلس‘‘ بھیج کر سکھ کا سانس لیا اور یہ جانا کہ اب راوی عیش ہی
عیش لکھتا ہے۔ لیکن شیر دھاڑتا ہوا واپس آ گیا اور اب پرویز مشرف خود ساختہ
جلاوطن ہو کر کٹی پتنگ کی طرح اِدھر اُدھر ڈولتا پھرتا ہے لیکن شیر اب بھی
اُس کا پیچھا کر رہا ہے۔ حسب سابق 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی شکاری، شیر
کا شکار کرنے نکلے لیکن تاحال وہ ناکام ہیں حالانکہ جتنی بڑی تحریک عمران
خان نے اُن کے خلاف کھڑی کی اُس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ انتخابات سے پہلے
انہوں نے نواز لیگ کا ناطقہ بند کئے رکھا اور انتخابات کے بعد تو کپتان کی
تگ ودَو اپنی انتہاؤں کو چھونے لگی کیونکہ اب اس میں وزیراعظم نہ بننے کا
غصہ بھی شامل ہو گیا تھا۔ انہوں نے ڈی چوک اسلام آباد میں پاکستان کی تاریخ
کا طویل ترین 126 روزہ دھرنا بھی دیا لیکن بات پھر بھی نہیں بنی اور میاں
صاحب صاف نکل گئے۔
آخری حملہ آئی ایس پی آر کا ٹویٹ تھا جس پر بغلیں بجائی جاتی رہیں کہ ’’اب
کے نکل کے دکھائے‘‘۔ میڈیا شور مچا رہا تھا اور سوشل میڈیا پر ’’سونامی‘‘
آیا ہوا تھا لیکن پھر بھی ہوا ’’ککھ‘‘ بھی نہیں۔ بس اتنا ہوا کہ دو بڑے مل
بیٹھے اور معاملہ حل ہو گیا۔ سیاست دانوں کی تو جزوقتی ’’بولتی‘‘ بند ہو
گئی البتہ میڈیا پر ’’ٹیں ٹیں‘‘ جاری رہی جواب تک جاری ہے۔ دراصل میڈیا پر
بیٹھے ’’بزرجمہروں‘‘ نے تو حتمی طور پر اعلان کر دیا تھا کہ اب وزیراعظم
’’جاوے ای جاوے‘‘ لیکن وزیراعظم اور آرمی چیف کی ملاقات کے بعد ’’ٹویٹ‘‘
واپس لے لیا گیا۔ اسے یقینا پاک آرمی کی عظمت ہی قرار دیا جا سکتا ہے
کیونکہ عظیم تو ہمیشہ وہی ہوتا ہے جو سکت رکھنے کے باوجود درگزر سے کام لے
اگر کسی نے اس وہم کو پال رکھا ہے کہ آرمی میں ردِعمل کی سکت نہیں تو وہ
احمقوں کی جنت میں بستا ہے۔
اب سبھی میاں نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے تدبر کو ’’کوسنے‘‘ دے
رہے ہیں اور کھلے عام تنقید وتضحیک کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ چودھری نثار
علی خان نے ان عناصر کا محاسبہ کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان
کیا ہے اور اس سلسلے میں F.I.A کو ہدایات بھی جاری کر دی گئی ہیں۔ ہمیں
یقین ہے کہ بہت جلد ان کا ’’مکو ٹھپ‘‘ دیا جائے گا کیونکہ چودھری صاحب جو
کہتے ہیں وہ کر کے بھی دکھاتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پھر
راوی چین ہی چین لکھے گا۔ بھئی! ابھی تو نواز لیگ کا آخری بجٹ آنے والا ہے
اور بجٹ کی آمد سے پہلے ’’تھرتھلی‘‘ مچی ہوئی ہے۔ اپوزیشن میمنہ، میسرہ
تیار کر رہی ہے اور نیوز چینلز مالکان نے اپنے اینکروں اور ’’اینکرنیوں‘‘
کو ’’بجٹ ٹارگٹ‘‘ دے دیا ہے۔ عنقریب چہار جانب بجٹ ہی بجٹ ہوگا باقی کچھ
نہیں۔
اسحاق ڈار المعروف ’’اسحاق ڈالر‘‘ صاحب نے اب کی بار بڑی خاموشی سے بجٹ
تیار کیا ہے۔ وہ وزیراعظم صاحب کی ہدایات پر تو کم کم ہی عمل کرتے ہیں
البتہ عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر عمل کرنا وہ اپنا فرض عین سمجھتے
ہیں کیونکہ بالآخر ڈار صاحب کوانہی کے آگے تو جھولی پھیلانی ہوتی ہے۔ اسی
لیے عالمی مالیاتی ادارے اُن سے خوش اور مطمئن ہوتے ہیں۔ اب کی بار انہوں
نے یقینا عالمی مالیاتی اداروں کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کی استدعا کی ہوگی۔
وجہ اس کی ایک تو یہ ہے کہ عام انتخابات کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں
اور اپوزیشن نے نواز لیگ کو ’’وخت‘‘ میں ڈالا ہوا ہے۔ ہر روز عمران خان اور
آصف زرداری کہیں نہ کہیں جلسہ کر کے الزامات کی بھرمار کر رہے ہیں۔ ویسے ان
ہر ’’دلعزیز‘‘ رہنماؤں کا زیادہ زور خالی خولی بڑھکوں پر ہی ہے یا پھر
جھوٹ،سچ کے الزامات کی بارش پر لیکن ایسا تو پاکستانی سیاست میں ہوتا ہی
رہتا ہے۔ اگر تقریر میں جھوٹ کا تڑکا نہ لگایا جائے تو ’’سواد‘‘ ہی نہیں
آتا۔ اگر اب کی بار بھی بجٹ ویسا ہی آیا جیسا ’’ڈالر‘‘ صاحب سے توقع ہوتی
ہے تو پھر عوام کی چیخیں تو نکلیں گی ہی، نواز لیگ بھی ’’چراغِ رُخ زیبا لے
کر‘‘ ووٹ ڈھونڈتی پھرے گی اس لیے توقع تو یہی ہے کہ ڈار صاحب بھی ’’ہتھ
ہولا‘‘ ہی رکھیں گے۔
دوسری وجہ یہ کہ رمضان شریف کی آمد آمد ہے اور حسب سابق ہمارے ’’مسلمان‘‘
منافع خوروں نے ابھی سے اشیاء کی قیمتیں آسمانوں پر چڑھا دی ہیں۔ شاید اُن
کے ذہن میں یہ ہو کہ بھوکے پیٹ روزہ رکھنے سے زیادہ ثواب ملتا ہے۔ اس لیے
مجبوروں، مقہوروں کی قوت خرید سے زائد قیمتیں کرنا ثواب کا کام اور عین
عبادت ہے۔ اگر اس میں ڈار صاحب نے بھی اپنا ’’بجٹی‘‘ حصہ ڈال دیا تو پھر
وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ نواز لیگ کا آخری بجٹ ہوگا۔ اس لیے عین ممکن
ہے کہ وزیراعظم ’’منتوں ترلوں‘‘ سے ایسا بجٹ بنوانے میں کامیاب ہوگئے ہوں
جسے دیکھ کر عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔
ویسے بجٹ تو منظور ہو بھی چکا اب تو اس کا صرف منصۂ شہود پر آنا ہی باقی
ہے۔ پھر ہم کیوں ’’ایویں ای‘‘ ٹامک ٹوئیاں مار رہے اس لیے ’’مٹی پاؤ‘‘ اور
بجٹ کا انتظار کرو۔
|