اسلام آباد میں منعقد ہونے والا اجلاس وفاقی سطح پر
صحافیوں کی بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیم کا تھا، جس میں دوسال کے لئے
انتخابات منعقد کروائے جانے مقصود تھے۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے
اگرچہ ایک سے زیادہ گروپ ہیں، تاہم اُن کی منزل ایک ہی ہے۔ ہر کوئی اپنی
پسند کے گروپ میں شامل ہو کر خدمات سرانجام دے سکتا ہے۔ ایسے اجلاسوں کے
دوران ممبران کو مختلف سیاستدان اپنے ہاں مدعو بھی کرتے ہیں، تاکہ کسی
کھانے وغیرہ کے موقع پر صحافیوں اور سیاستدانوں کی آپس میں گفت وشنید ہو
سکے، ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی ہو سکے، اگر کسی کے تحفظات ہوں تو انہیں
دور کرنے کی کوشش کی جاسکے۔ مذکورہ تین روزہ اجلاس کے آخری روز بھی ظہرانے
کا اہتمام جمعیت العلمائے اسلام کے سینیٹر محمد طلحہ محمود کی طرف سے تھا۔
ہم نے موصوف کو کسی حد تک خبروں میں اور بعض اوقات ٹی وی ٹاک شوز میں پڑھ،
سُن اور دیکھ رکھا تھا، مگر اُن کے بارے میں معلومات نہ ہونے کے برابر
تھیں۔ ایک مذہبی پارٹی کے بغیر داڑھی کے مستقل سینیٹر کے بارے میں جاننے کا
اشتیاق ضرور تھا۔
فارم ہاؤس کا نام سنتے ہی دھیان چک شہزاد کی طرف چلا جاتا ہے۔ دوسروں کے
ساتھ جنرل(ر) مشرف کا نام بھی فوراً ذہن میں آتا ہے۔ تاہم فارم ہاؤس کے
تصور سے امارت کے عناصربھی ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں، عالیشان عمارت، ہر
طرف پھول پھلواریاں، آبشاریں اور فوارے دستیاب سہولیات کی گواہی دیتے ہیں،
ذہن میں وسوسے بھی جگہ پاتے ہیں اور انسان طرح طرح کی باتیں سوچنے لگتا ہے۔
یہاں داخل ہوتے بھی کچھ ایسے ہی احساسات نے ہلچل مچائی، رہی سہی کسر پرتکلف
کھانے کے انتظامات نے پوری کردی۔ ذہن میں ہونے والی یہ ہنگامہ آرائی اس وقت
تک جاری رہی جب تک میزبان نے گفتگو کا آغاز نہیں کردیا، عام رسمی بات چیت
کے بعدا نہوں نے اپنی ذات کے متعلق کچھ باتیں بھی کیں۔ مجبوری یہ بتائی کہ
سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ پر ان کے خلاف بہت زہریلا اور منفی پروپیگنڈہ
کیا جارہا ہے، جو کہ غلط فہمی اور سازشوں پر مشتمل ہے، اس لئے صفائی پیش
کرنا ان کی ضرورت بھی تھی، وہ اپنی صفائی پیش کرتے گئے اور ان کے بارے میں
پایا جانے والا تاثُر دُھلتا گیا،ہر بات آئینہ ہو کر سامنے آتی گئی۔ جب ان
کی بات چیت ختم ہوئی تو ان کی اور ہی شخصیت سامنے تھی۔ اپنی ذات پر روشنی
ڈالنے کی وجہ اوپر بیان ہو چکی، اپنی گفتگو میں انہوں نے یہ بھی بتایا کہ
وہ جہاں خدمت خلق کے بہت سے کام ذاتی طور پر کرتے ہیں ، جن میں ان کی
معاونت ان کا خاندان اور دوست احباب کرتے ہیں، ان میں سے زیادہ تر خدمات
رمضان المبارک کے مہینے میں سرانجام دی جاتی ہیں ، جس میں وہ پچاس ہزار سے
زائد مستحق اور غریب خاندانوں میں رمضان اور عید کو پیش نظر رکھ کر پیکٹ
دیئے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی وہ بہت سے نادار لوگوں کی خدمت کرکے سکون
پاتے ہیں۔
اپنی خدمات میں دو اہم باتیں سینیٹر طلحہ محمود نے کیں، ایک یہ کہ انہوں نے
گزشتہ بارہ سالوں میں( جب سے وہ ایوانِ بالا کے ممبر بنے) کبھی سرکاری
تنخواہ نہیں لی، ٹی اے ڈی اے کلیم نہیں کیا، سرکاری طور پر دوسرے شہروں میں
جاکر ہوٹلوں میں رہائش بھی سرکاری خرچ پر نہیں لی۔ دوسری اہم بات یہ کہ وہ
سرکاری وفود کے ساتھ دوسرے ممالک میں جاتے تھے، مگر انہوں نے محسوس کیا کہ
یہ دورے سیر سپاٹے اور قومی خزانے کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں تو انہوں
نے گزشتہ آٹھ برس سے سرکاری دوروں پر باہر جانا بھی مکمل طور پر ترک کردیا۔
بیرونی دوروں کے بارے میں قوم کے ذہن میں بہت سے تحفظات پائے جاتے ہیں،
طلحہ محمود کا یہ اعلان عوامی خدشات کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے۔ انہوں نے
یہ بھی بتایا کہ ایوان بالا کے ارکان میں سے ٹیکس دینے والوں کی فہرست میں
ان کا نام بہت نمایاں ہے۔ اُن کے جذبات قابلِ قدر ہی نہیں، لائقِ تقلید بھی
ہیں، ایسے مثالی ارکان کی تعدا د انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ ہم یہاں طلحہ
محمود صاحب کو مشورہ دیں گے کہ وہ قومی خزانے سے تنخواہ ضرور لیں، کیونکہ
تنخواہ نہ لینے کی صورت میں وہ پیسے حکومتی فضول خرچیوں کی نذر ہو جاتے
ہیں، جوکہ لوٹ مار کے زمرے میں آتے ہیں۔ بہتر ہے یہ تنخواہ اور ٹی اے ڈی اے
وغیرہ وصول کرکے مستحق ، غریب لوگوں میں بانٹ دیں، اس سے مزید کچھ لوگوں کی
مدد کرکے مزید نیکی کمائی جاسکتی ہے۔ |