جوش ، ہمت،منزل

السلام و علیکم: دوستوں آج میں آپکے سامنے ایک ایسے کہانی پیش کرنے جا رہا ہوں جسے پڑھنے کے بعد ہر بچے میں آگے بڑھنے کی اور کچھ کر دکھانے کی لگن اور آگ جنم لے گی۔یوں تو ہر ماں باپ کا خواب ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی یا بیٹا ایک اچھا اور قابل آدمی بنے۔اور یہ بھی سچ ہے کہ ماں باپ کا خواب سچ کرنے کے لیے بچے دن رات ایک کر دیتے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوتی ہے۔کچھ بچوں کی آنکھوں میں وہ چمک پیدا ہو جاتی ہے جو آنے والے مستقبل کو اپنے اور خاص طور پر اپنے والدین کے مطابق ڈھال سکتے ہیں وہ دوسری سرگرمیوں میں حصہ تو لیتے ہیں مگر اپنی پڑھائی اور اپنے مشن کو ذیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔یہی حال پندرہ سالہ شمسہ کا تھا شمسہ ایک نہایت ہی پُرسکون رہنے والی اور محنتی لڑکی تھی اُسے دیکھ کر کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ کچھ کر نہیں سکتی۔اُسکے والدین نے اُسکی تربیت کچھ ایسے انداز میں کردی تھی کہ اسکی سرگرمیوں میں کامیابی دیکھنے والے بھی اس کے ماں باپ کی طرف سے دی گئی تربیت کو داد دینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔شمسہ کی کلاس فیلوزشمسہ پر فخر کرتی تھیں اورشمسہ اور ان کی دوستی پر ناز کرتی تھیں۔شمسہ ہر کسی کے ساتھ نہایت ہی نرمی کے ساتھ پیش آیا کرتی تھی۔شمسہ اپنی ماں سے بہت پیار کرتی تھی وہ ہمیشہ ہر بات ماں سے کہا کرتی تھی شمسہ ہمیشہ اپنی ماں کو کہا کرتی تھی کہ وہ بڑی ہو کر آرمی آفیسر بننا چاہتی ہے اور اپنے پیارے ملک سے ہر فساد کوختم کرنا چاہتی ہے۔اسکی ماں اسکی ہر بات کو بہت اہمیت دیتی تھی شمسہ دن رات پڑھائی کرتی اور اپنی کلاس میں اول آتی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا شمسہ کی زندگی اسطرح کے ٹرننگ پوائنٹ سے گزرے گی کسی کو اندازہ بھی نہ تھا ایک دن وہ سکول جانے سے پہلے ناشتہ کرتے وقت اپنی ماں کے پاس بیٹھی تھی اور اپنی ماں سے خوب ساری باتیں کر رہی تھی اُس کا دل نہیں کر رہا تھا کہ وہ اپنی ماں کے پاس سے اُٹھ کر کہیں جائے۔مگر وقت کی کمی کی وجہ سے شمسہ کے والد نے شمسہ کو کہا کہ جلدی کرے سکول کے لیے لیٹ ہو رہی ہو۔وہ اُٹھی اور سکول جانے والی ویگن میں بیٹھ گئی اور اپنی ماں کو خدا حافظ کہنے لگی ویگن ابھی تھوڑی ہی دور گئی ہو گی کہ لوگوں کے منہ سے ایک ہی آواز بلند ہو رہی تھی کہ دہشت گرد دہشت گرد اُن بے رحموں نے سکول کی وین دیکھتے ہے گولیوں کی برسات کر دی؂ اور سب ختم ہو گیا شمسہ کے ساتھ ساتھ باقی بچوں کے خوابوں کو بھی دہشت گردوں نے مٹی تلے دفنا دیا تھا۔شمسہ کے ساتھ ساتھ باقی بچوں کے گھر بھی جیسے قیامت ٹوٹ پڑی ہو شمسہ کی ماں کو بار بار یہی بات ستاتی تھی کہ شمسہ کہتی تھی کہ بڑے ہو کر آرمی آفیسر بنوں گی اور ملک سے ہر قسم کے فساد کو ختم کر دوں گی مگر اُسے اُسی فساد نے اس کے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا تھا ان سب باتوں کا اثر شمسہ کی چھوٹی بہن کنزا پر پڑا جو ابھی چودہ سال کی تھی اس نے خود سے وعدہ کیا کہ اپنی بہن کا خواب اب میں پورا کروں گی اس نے دل لگا کر پڑھنا شروع کر دیا اب وہی کنزا جو پچھلے کئی سالوں سے ناکام ہوتی آرہی تھی وہی کنزا اب اول آنے لگ گئی تھی وقت اتنی تیزی سے گزرا اور پتہ بھی نہ چلا کنزا سکول کے بعد کالج میں کامیاب رہی اور اُسکے بعدیونیورسٹی میں کامیاب رہی اور آخر کار کنزا نے اسکے والدین کا اور اپنی بہن کا خواب سچ کر دیکھایا اور وہ ایک قابل آفیسر بن گئی تھی تو دوستوں زندگی میں آزمائشیں اﷲ پاک کی طرف سے ہوتی ہیں ان سے ڈرنا نہیں چاہیے جس طرح شمسیہ تھی اُسی طرح کنزا کو بننے میں دیر نہیں لگی تھی بس نیت اور جذبے نے اس سے آخرکار وہ سب کچھ کروا لیا جس کا اسنے خود سے وعدہ کیا تھا ۔

Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 38300 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More