اپنی ثقافت کو قائم رکھنا اور اس کو آگے پھیلانا ایک اچھی
قوم کا شیوہ ہوتا ہے اچھی قومیں اپنی ثقافت کو برقرار رکھتیں ہیں مگر ہماری
موجودہ نسل اپنی ثقافت سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے اس کے پیچھے بڑی بڑی
سازشیں ہیں مختلف طرح کے ایجنڈے ہیں ہر بار نئے نئے طریقے سے ہماری نوجوان
نسل کے ذہنوں پر حملہ کیا جاتا ہے تا کہ جلد سے جلد یہ اپنی ثقافت سے دور
ہو جائیں سب سے پہلے تو بھارتی فلموں نے اپنا کام دیکھایا اور کسی حد تک
ہماری نوجوان نسل ہندووانہ کلچر پر عمل پیرا ہو گئی اسکے بعد انڈین ٹی وی
چینلز تو تو حد ہی کردی ایسے ایسے پروگرامز اور ڈرامے نشر کیئے جاتے ہیں کہ
بندہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے مذہب سے دوری اسی وجہ سے ہو رہی ہے
اور اب تو چھوٹے بچوں یعنی قوم کے نونہالوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بچوں
کے لیئے ایسے ایسے پروگرامز اور ڈرامے بنائے جا رہے ہیں کہ بچے اپنے مذہب
سے دور ہوتے جا رہے ہیں مختلف طرح کے وہم ان کے دلوں میں ڈالے جا رہے ہیں
ایک منظم سازش کے تحت ان کے ذہن بدلے جا رہے ہیں اور چھوٹے چھوٹے بچے میوزک
سینٹرز کے باہر لائنیں لگائے انڈین ڈرامے بھروانے کے لیئے کھڑے ہوتے ہیں
مسجد مدرسے اورب سکول کے جانے کے اوقات میں بچے ٹی وی کمپیوٹر اور موبائل
میں انڈین ڈرامے دیکھ رہے ہوتے ہیں ان ڈراموں کے ذریعے بچوں کے عقائد خراب
کیئے جا رہے ہیں وہ بچہ جو ٹھیک سے مادری زبان نہیں بول سکتا اُسے ہندی
اچھی خاصی بولنی آتی ہو گی اور ہماری نئی نسل کے منہ سے اردو کم ہندی ذیادہ
نکلتی ہے میں نے ایسے کئی سٹوڈنٹس دیکھے ہیں جو کبھی کبھی اپنے اساتذہ سے
بھی ہندی بولتے ہیں اور اُن ڈروموں اور پروگرامز کے ڈائیلاگ بولتے ہیں
ہماری تعلیم یافتہ نوجون نسل بھی جان بوج کر ہندی میں سلام کرتے ہیں اور
حال احوال پوچھتے ہیں اس میں سب سے ذیادہ ذمہ داری ہمارے ملک کے اداروں کی
ہے جو پیسے بٹورنے کے لیئے غیر ملکی ایسے پروگرامز چلاتے ہیں پاکستانی ٹی
وی چینل پاکستانی پروگرامز کو چھوڑ کر انڈین پروگرامز چلا رہے ہیں اس کی
کیا وجہ ہے اور اسکا کون ذمہ دار ہے اسکے بعد ذمہ داری والدین کی آتی ہے کہ
وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں ان کی سرگرمیاں نوٹ کریں اور انکی اچھی تربیت
کریں والدین بچے کو سکول مدرسے میں چھوڑ کر بے غم ہو جاتے ہیں کہ سکول
مدرسے والے اسکی تربیت کریں گے ہمیں کوئی ضرورت نہیں طچے کو سکول مدرسے میں
داخل کرنے کے بعد کیا والدین کی ذمہ داریاں ختم ہو جاتی ہیں نہیں بچے چند
گھنٹے سکول میں ہوتا ہے پھر گھر پر ہمارے والدین کو چائیے کہ بچوں کی اچھی
تعلیم و تربیت کا اہتمام کریں تا کہ وہ اپنی تہذیب و ثقافت کو مزید ترقی دے
سکیں نا کہ اسکو ختم کرنے میں لگے رہیں اگر ہمیں اپنی تہذیب اور اپنے کلچر
کو بچانا ہے تو ابھی سے ہمیں سوچ وچار کرنی ہو گی ۔ |