انسان کے اشرف ہونے کا سبب اس کا شعور ہے جو دوسری
مخلوقوں سے افضل کرتا ہے۔ حکمت و دانائی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اللہ کی
دین (عطاء) ہے۔ اللہ جس کی بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اس کو دین کی سمجھ
عطاء کر دیتے ہیں۔
اصل سمجھ دین کا علم ہے۔ یہی دل کی روشنی ہے اور اس پر عمل دل کا سکون اور
ابدی کامیابی ہے۔
اللہ نےآدم کو علم دیا اور اسے اشرف بنا کر اس کے سامنے سب سے سجدہ کروایا
اور جس نے انکار کیا وہ ہمیشہ کے لئے رد ہوگیا۔اب اس میں بھی حکمت اور سبق
ہے کہ علم جب اللہ کی عطاء ہے تو سمجھداری کا تقاضہ یہ ہے کہ اس کا شکر ادا
کیا جائے چہ جائے کہ تکبر میں آکر اپنے مکام کو کھو دیا جائے۔ دوسرا اس سے
یہ سبق بھی ملتا ہے کہ رتبہ و منزلت ادب اور عاجزی میں ہے۔
انسان کی راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر
حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم تک حکمت دانائی کا نمونہ بنا کر اپنے پیغمبر
مبعوث فرمائے ۔ اور اعلی ٰحکمت دانائی کا مجموعہ قرآن پاک اپنے محبوب کو
عطاء فرمایا۔
جیسے ہم قرآن بغیر سمجھے پڑھتے ہیں اس طرح یہاں ہم نے قرآن پاک کی حکمت و
دانائی کی باتیں شئیر کرنے کی بجائے محض اس کی تعریف پر ہی اکتفا کر لیا ہے
جو نا کافی ہے۔ آئیے اسے سمجھنے کی طرف پہلا قدم اٹھاتے ہیں اور اس کو
سمجھتے ہوئے اس کی حکمت و دانائی والی باتوں کا تزکرہ کرتے ہیں۔
ویسے تو پورا قرآن مجید ہی حکمت دانائی سے بھرا پڑا ہے مگرآئیے سورہ
لقمان سے آغاز کرتے ہیں۔ حکیم لقمان پیغمبر یا رسول نہیں تھے مگر ان کی
حکمت و دانائی والی باتیں خالق کائنات کو اتنی پسند آئیں کہ قرآن پاک میں
بیان کر دیں۔
پہلی نصیحت: شرک سے دوری: سب سے پہلی حکمت عقائد کی درستگی کے متعلق ہے۔ يا
بُنَیَّ لَاتُشْرِکْ بِاللهِ، اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ اے میرے
بیٹے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا۔ یقین جانو شرک بہت بڑا ظلم ہے۔ یعنی اللہ
تعالیٰ ہی پوری کائنات کا خالق ومالک ورازق ہے اور اس کے ساتھ کسی غیر اللہ
کو شریک عبادت نہ کرنا۔اس دنیا میں اس سے بڑا ظلم نہیں ہوسکتا کہ اللہ
تعالیٰ کی کسی مخلوق کو اس کے برابر ٹھہرایا جائے۔ یہی وہ پیغام ہے جس کی
دعوت تمام انبیاء ورسل نے دی کہ معبود حقیقی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے،
وہی پیدا کرنے والا، وہی رزق دینے والا ہے اور پوری دنیا کے نظام کو تنہا
وہی چلانے والا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ ہم سب اس کے بندے ہیں اور
ہمیں صرف اسی کی عبادت کرنی چاہئے۔ وہی مشکل کشا، حاجت روا اور ضرورتوں کو
پورا کرنے والا ہے۔دوسری نصیحت: اللّہ کا علم ہر چیز کو محیط ہے:
حکیم لقمان کی دوسری نصیحت اپنے بیٹے کو یہ تھی کہ اس کا یقین رکھا جائے کہ
آسمان وزمین اور اس کے اندر جو کچھ ہے اس کے ایک ایک ذرہ سے اللہ جل شانہ
اچھی طرح واقف ہے، کوئی چیز بھی اس سے مخفی نہیں ہے اور اس پر اس کی قدرت
بھی کامل ہے۔ کوئی چیز کتنی بھی چھوٹی سے چھوٹی ہو جو عام نظروں میں نہ
آسکتی ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنی ہی دور دراز پر ہو، اسی طرح کوئی چیز کتنے
ہی اندھیروں اور پردوں میں ہو اللہ تعالیٰ کے علم ونظر سے نہیں چھپ سکتی۔ :
يا بُنَیَّ اِنَّہَا اِنْ تَکُ مِثْقَالَ حَبة مِنْ خَرْدَلٍ فَتَکُنْ فِی
صَخْرَۃٍ اَوْ فِی السَّمَاوَاتِ اَوْ فِی الْاَرْضِ ياْتِ به اللهغرضیکہ
ہم دنیا کے کسی بھی میدان میں ہوں، تجارت کررہے ہوں، درس وتدریس کی خدمات
انجام دے رہے ہوں، ملازمت کررہے ہوں، قوم وملت کی خدمت کر رہے ہوں، لیکن
ہمیں، ہمارے ماں باپ اور کائنات کو پیدا کرنے والا ہماری زندگی کے ایک ایک
لمحہ سے پوری طرح واقف ہے اور ہمیں مرنے کے بعد اس کے سامنے کھڑے ہوکر
زندگی کے ایک ایک پل کا حساب دینا ہے۔ اگر ہم نے کسی سے چھپ کر رشوت لی ہے
یا کسی شخص پر ظلم کیا ہے یاکسی غریب کو ستایا ہے یا کسی کا حق مارا ہے تو
ممکن ہے کہ ہم دنیا والوں سے بچ جائیں لیکن اللہ تعالیٰ کی عدالت میں
اندھیر نہیں ہے اور ہمیں اس کا ضرور حساب دینا ہوگا۔تیسری نصیحت: نماز قائم
کرنا:
حکیم لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا : ےَا بُنَیَّ
اَقِمِ الصَّلَاۃَبیٹا! نماز قائم کرو۔ نماز ایمان کے بعد اسلام کا اہم
ترین رُکن ہے۔ نماز خود اہم ہونے کے ساتھ وہ دوسرے اعمال کی درستگی کا
ذریعہ بھی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: وَاَقِمِ الصَّلاۃَ، اِنَّ الصَّلاۃَ
تَنهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ (سورۂ العنکبوت ۴۵) جو کتاب آپ پر
وحی کی گئی ہے اسے پڑھئے اور نماز قائم کیجئے، یقیناًنماز بے حیائی اور
برائی سے روکتی ہے۔ نماز میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ
نمازی کو گناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے مگر ضروری ہے کہ اس پرپابندی
سے عمل کیا جائے اور نماز کو اُن شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی
قبولیت کے لئے ضروری ہیں،جیسا کہ حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور کہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے مگر
دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہُ اس کی
نماز عنقریب اُس کو اِس برے کام سے روک دے گی۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان)
لہٰذا ہمیں نمازوں کا اہتمام کرنا چاہئے۔چوتھی نصیحت: اصلاح معاشرہ کے لئے
کوشش کرنا:
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے آگے فرماتے ہیں: وَاْمُرْ
بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِیعنی اپنی ذات سے اللہ اور اس کے
رسول کی اطاعت کے ساتھ معاشرہ کی اصلاح کی کوشش کرتے رہنا یعنی اس بات کی
فکر کرنا کہ سارے انسان اللہ کو مان کر، اللہ کی مان کر زندگی گزارنے والے
بن جائیں۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (اچھائیوں کا حکم کرنا اور
برائیوں سے روکنا) کی ذمہ داری کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بار بار
بیان کیا ہے۔ سورہ توبہ کی آیت نمبر ۷۱ میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ
ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے معاون ومددگار ہیں، ان
کے چار اوصاف ہیں: اچھائیوں کا حکم کرتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔
نماز قائم کرتے ہیں۔ زکاۃ ادا کرتے ہیں۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے
ہیں۔ یعنی جس طرح ہر مؤمن پر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا، نماز قائم
کرنا اور زکاۃ ادا کرنا (اگر مال پر زکاۃ فرض ہے) ضروری ہے، اسی طرح
اچھائیوں کا حکم کرنا اور برائیوں سے روکنا ہر ایمان والے کے لئے ضروری ہے،
اگرچہ ہرِ شخص استطاعت کے مطابق ہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مکلف
ہے۔پانچویں نصیحت: حالات پر صبر کرنا:
اپنے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی کوشش کرنا ایسا عمل ہے کہ اس کی پابندی میں
خاصی مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔اس پر ثابت قدم رہنا آسان نہیں ہے خصوصاً
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی خدمت کا صلہ دنیا میں عموماً عداوتوں
اور مخالفتوں سے ملتا ہے، اس لئے حکیم لقمان نے اس کے ساتھ یہ وصیت بھی
فرمائی: وَاصْبِرْ عَلَی مَآ اَصَابَکَ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ
الْاُمُوْرِ یعنی دین پر چلنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں جو مشکلات
سامنے آئیں ان پر صبر کریں، جیساکہ سورہ العصر میں اللہ تعالیٰ زمانے کی
قسم کھاکر ارشاد فرماتا ہے کہ تمام انسان خسارے اور نقصان میں ہیں مگر وہ
لوگ جو اپنے اندر چار صفات پیدا کرلیں: ایمان لائیں۔ نیک اعمال کریں۔ محض
اپنی انفرادی اصلاح وفلاح پر قناعت نہ کریں بلکہ امت کے تمام افراد کی بھی
کامیابی کی فکر کریں۔ دین پر چلنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے میں جو
مشکلات آئیں ان پر صبر کریں۔حکیم لقمان کی چند دیگر نصیحتیں آداب معاشرت کے
متعلق:
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تُصَعِّرْ
خَدَّکَ لِلنَّاسِ لوگوں کے سامنے (تکبر سے) اپنے گال مت پھلاؤ۔ یعنی لوگوں
سے ملاقات اور ان سے گفتگو کے وقت ان سے منہ پھیر کر گفتگو نہ کرو جو اُن
سے اعراض کرنے اور تکبر کرنے کی علامت اور اخلاق شریفانہ کے خلاف ہے۔ اللہ
تعالیٰ اپنے نبی کے متعلق قرآن کریم (سورۃ القلم: ۴) میں ارشاد فرماتا ہے۔
وَاِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ اور یقیناًتم اخلاق کے اعلیٰ درجہ پر
ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے
متعلق سوال کیا گیا تو حضرت عائشہ نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا
اخلاق قرآنی تعلیمات کے عین مطابق تھا۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم) حضور
اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مجھے بہترین اخلاق کی تکمیل کے
لئے بھیجا کیا گیا ہے۔ (مسند احمد) غرضیکہ حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کی
نصیحت کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ذکر کرکے پوری انسانیت کو یہ پیغام
دیا کہ ہمیں تمام انسانوں کے ساتھ اچھے اخلاق پیش کرنے چاہئیں۔ نیز رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ درگزر کرتا ہے اللہ
تعالیٰ اس کی عزت بڑھاتا ہے اور جو بندہ اللہ کے لئے عاجزی اختیار کرتا ہے
اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے۔ (صحیح مسلم)
حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَلَا تَمْشِ فِی
الْاَرْضِ مَرَحاً زمین پر اِتراتے ہوئے مت چلو۔ یعنی زمین کو اللہ تعالیٰ
نے سارے عناصر سے پست افتادہ بنایا ہے، تم اسی سے پیدا ہوئے، اسی پر چلتے
پھرتے ہو، اپنی حقیقت کو پہچانو، اِتراکر نہ چلوجو متکبرین کا طریقہ ہے، اس
کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰہَ لَا ےُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ
فَخُوْرٍ یقین جانواللہ کسی اترانے والے شیخی باز کو پسند نہیں کرتا۔ حضورا
کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی
تکبر ہوگاوہ جنت میں نہیں جائے گا۔ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! آدمی
چاہتاہے کہ اس کا لباس اچھا ہو اور اس کا جوتا عمدہ ہو ۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایااللہ تعالیٰ جمیل ہے، جمال کو پسند کرتا ہے۔ کبر اور غرور تو
حق کو ناحق کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے۔ (مسلم ۔ کتاب الایمان ۔ باب
تحریم الکبر) یعنی اپنی وسعت کے مطابق اچھا لباس پہننا کبر اور غرور نہیں
بلکہ لوگوں کو حقیر سمجھنا تکبر اور غرور ہے۔حکیم لقمان اپنے بیٹے کو نصیحت
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: وَاقْصِدْ فِیْ مَشْےِکَ اور اپنی چال میں میانہ روی
اختیار کرو۔ یعنی انسان کو درمیانی رفتار سے چلنا چاہئے، رفتار نہ اتنی تیز
ہو کہ بھاگنے کے قریب پہنچ جائے اور نہ اتنی آہستہ کہ سستی میں داخل
ہوجائے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص جماعت کی نماز کو حاصل کرنے کے لئے جارہا
ہو تو اس کو بھی حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھاگنے سے منع فرماکر
اطمینان وسکون کے ساتھ چلنے کی تاکید فرمائی ہے۔حکیم لقمان کی اپنے بیٹے کو
ایک اور اہم نصیحت : وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اپنی آواز آہستہ رکھو۔آہستہ
آواز رکھنے سے مراد یہ نہیں کہ انسان اتنا آہستہ بولے کہ سننے والے کو دقت
پیش آئے بلکہ مراد یہ ہے کہ جن کو سنانا مقصود ہے، اُن تک تو آواز وضاحت کے
ساتھ پہنچ جائے، لیکن اس سے زیادہ چیخ چیخ کر بولنا اسلامی آداب کے خلاف
ہے۔ غرضیکہ ہمیں اتنی ہی آواز بلند کرنی چاہئے جتنی اُس کے مخاطبوں کو سننے
اور سمجھنے کے لئے ضروری ہے۔ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ
الْحَمِےْرِ بیشک سب سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔آخر میں آداب معاشرت سے
متعلق چار نصیحتیں ذکر کی گئیں۔ اوّل لوگوں سے گفتگو اور ملاقات میں
متکبرانہ انداز سے رخ پھیر کر بات کرنے سے منع کیا گیا۔ دوسرے زمین پر
اکڑکر چلنے سے منع کیا گیا۔ تیسرے درمیانی رفتار سے چلنے کی ہدایت دی گئی۔
اور چوتھے بہت زور سے شور مچاکر بولنے سے منع کیا گیا۔ ان تمام ہی نصیحتوں
کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر وقت ہم دوسروں کا خیال رکھیں، کسی شخص کو بھی خواہ وہ
مسلمان ہو یاکافر، ہم اس کو جانتے ہوں یا نہ جانتے ہوں لیکن ہماری طرف سے
کوئی تکلیف کسی بھی بشر کو نہیں پہنچنی چاہئے، مگر ہم ان امور میں کوتاہی
سے کام لیتے ہیں، حالانکہ ان امور کا تعلق حقوق العباد سے ہے اور حقوق
العباد میں حق تلفی انسان کے بڑے بڑے نیک اعمال کو ختم کردے گی، لہٰذا ہمیں
چاہئے کہ ہم حکیم لقمان رحمۃ اللہ علیہ کی ان قیمتی نصیحتوں پر عمل کرکے
ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل دیں۔
اس لڑی کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہاں حکمت ودانائی کی باتیں پڑہیں اور شئیر
کریں |