جب شوہر درندہ بن جائے: جنسی تشدد، پورن کلچر، اور خاموش معاشرہ

‎جب شوہر درندہ بن جائے: جنسی تشدد، پورن کلچر، اور خاموش معاشرہ

‎کراچی میں حال ہی میں پیش آنے والے ایک افسوسناک واقعے نے معاشرے کے ان اندھیرے کونوں کو بے نقاب کر دیا ہے جن پر ہم برسوں سے آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔ ایک 19 سالہ نئی نویلی دلہن شادی کے صرف دو دن بعد تشویشناک حالت میں اسپتال لائی گئی۔ ڈاکٹروں کے مطابق، اُسے شدید جنسی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا — اتنا شدید کہ وہ کئی دن کومے میں رہنے کے بعد انتقال کر گئی۔

‎یہ محض ایک شادی شدہ جوڑے کا ذاتی معاملہ نہیں، بلکہ ایک بیمار معاشرتی سوچ، بگڑی ہوئی مردانگی، اور فحاشی سے آلودہ ذہنوں کی علامت ہے۔


‎جب شادی بندھن نہیں، ملکیت بن جائے:

‎ہمارے ہاں اکثر مرد شادی کو ایک "حق" سمجھتے ہیں، ایک ایسا معاہدہ جس کے بعد عورت کی مرضی اور رضامندی بے معنی ہو جاتی ہے۔ یہی سوچ اکثر مرد کو یہ احساس دیتی ہے کہ وہ عورت کے جسم اور ذہن دونوں پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔

‎اس کیس میں بھی ایسا ہی کچھ ہوا۔ شوہر نے شادی کی پہلی رات کو ظلم کی رات میں بدل دیا۔ تشدد اس حد تک پہنچا کہ لڑکی کی جان چلی گئی۔ یہ جرم صرف جسمانی نہیں، اخلاقی، نفسیاتی، اور انسانی سطح پر ایک بہت بڑا المیہ ہے۔


‎پورن کلچر: خاموش زہر:

‎آج کا نوجوان بچپن سے ہی انٹرنیٹ پر فحش مواد دیکھنے لگتا ہے۔ یہ فلمیں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کرتی ہیں — ایک ایسی مخلوق جو صرف مرد کی تسکین کے لیے وجود رکھتی ہے۔ ان فلموں میں:

‎زبردستی، مار پیٹ اور درندگی کو "مردانگی" کہا جاتا ہے

‎عورت کی رضامندی کو غیر ضروری سمجھا جاتا ہے

‎غیر فطری عمل کو "نارمل" اور "پرفارمنس" کا معیار بتایا جاتا ہے

‎جب یہی نوجوان عملی زندگی میں شادی کرتا ہے، تو وہ ان خیالی مناظر کو حقیقت سمجھ کر عمل کرتا ہے — اور نتیجہ تباہ کن ہو سکتا ہے، جیسا کہ حالیہ واقعہ میں ہوا۔



‎معاشرتی خاموشی: جرم کا ساتھ:

‎زیادتی کے بعد اکثر خاندان یہ کہتے ہیں:

‎"شوہر ہے، حق ہے اُس کا"

‎"ایڈجسٹ کر لو، ہر شادی میں ایسا ہوتا ہے"

‎"باہر بات نکلی تو بدنامی ہو گی"

‎یہ جملے نہ صرف ظلم کو تقویت دیتے ہیں بلکہ متاثرہ کو مکمل تنہا کر دیتے ہیں۔ یہ خاموشی بھی جرم ہے۔


‎ہم کیا سکھا رہے ہیں؟

‎ہمارے تعلیمی اداروں میں "جسمانی تعلیم" کا مضمون یا تو موجود ہی نہیں، یا پھر محض حیاتیات کی کتاب تک محدود ہے۔ نوجوان نہ سیکھتے ہیں کہ تعلقات میں جذبات اور عزت کی کیا اہمیت ہے، نہ یہ کہ رضامندی کا کیا مطلب ہے۔

‎اگر ہم واقعی تبدیلی چاہتے ہیں، تو ہمیں یہ سکھانا ہوگا:

‎مردانگی غلبے میں نہیں، احترام میں ہے

‎شادی بندھن ہے، زنجیر نہیں

‎جسم پر حق صرف اُس وقت ہے جب دوسرا فریق بھی راضی ہو


‎قانون اور اصلاح کی ضرورت:

‎حالانکہ پاکستان میں ازدواجی زیادتی کو اب کچھ حد تک قانوناً تسلیم کیا گیا ہے، لیکن:

‎اس پر عملدرآمد بہت کم ہے

‎متاثرہ خواتین کو انصاف ملنے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں

‎پولیس، میڈیکل عملہ، اور عدالتیں اکثر متاثرہ کو ہی مشکوک نظروں سے دیکھتی ہیں


‎لہٰذا، قانونی اصلاحات کے ساتھ ساتھ:

‎پولیس اور ڈاکٹروں کی تربیت

‎فحش مواد کے خلاف سائبر کنٹرول

‎اور عوامی آگاہی مہمات کی اشد ضرورت ہے


‎اختتامیہ: خاموشی اب قاتل ہے:

‎کراچی کی اس دلہن کی موت صرف ایک فرد کا نقصان نہیں، یہ پورے معاشرے کی شکست ہے — ایک ایسا معاشرہ جو نہ مرد کو انسانیت سکھاتا ہے، نہ عورت کو تحفظ دیتا ہے، اور نہ ہی ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔

‎وقت آ چکا ہے کہ ہم مردانگی کے جھوٹے تصور، شادی کے غلط مطلب، اور فحش کلچر کے زہر کے خلاف کھڑے ہوں۔ کیونکہ اگر ہم آج نہ بدلے، تو کل شادیاں پھر جنازوں میں بدلتی رہیں گی — اور ہم پھر صرف افسوس کرتے رہیں گے۔


 

Muhammad Siddiqui
About the Author: Muhammad Siddiqui Read More Articles by Muhammad Siddiqui: 32 Articles with 15887 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.