ایسا کیوں ہے ہزاروں لوگوں کے دلوں کی دھڑکنیں بننے والے
وہ فنکار جو عہد شباب میں لوگوں کے چہرو ں پر خوشیاں بکھیرتے ہیں اور پھرجب
ان کا عہد شباب ڈھل جاتاہے تو وہ دو وقت کی روٹی کو بھی ترس جاتے ہیں؟۔وہ
فنکار جن کے پاس فلمی صنعت واسٹیج تھیٹروں میں کام کا بوجھ ہونے کی وجہ سے
اپنے ہی لیے وقت نہیں ہوتا تھا آج وہ لوگ اپنے گھروں کا چولہا جلانے کے لیے
مختلف جگہوں سڑکوں اور چوراہوں پر محنت مزدوری کرنے پرمجبور ہیں اور یہ کہ
حالات نے ان کے چہروں سے وہ نور اور وہ خوبصورتی بھی چھین لی ہوتی ہے جنھیں
دیکھ کر عوام کاایک جم غفیر تھیٹروں کے اسٹیج تک کو فل کردیتا تھا جن کے
شور سے کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی مگرافسوس کہ آج یہ سب دیکھے تو
جیسے صدیاں ہی بیت گئی ہیں ان فنکاروں کا تو کیا کہنا ہمارے ملک میں فلمی
صنعت کی پہچان جو تھیٹر لوگوں کی توجہ کا مرکز ہوتے تھے آج وہ بھی ان ہی
کسمپرسی میں ڈھلے فنکاروں کی طرح گردآلود ہوچکے ہیں آج بھی ان تھیٹروں میں
آواز گونجتی ہے مگر تنہائی کی !!!! ایسے کہ جیسے کھلی پہاڑیوں میں تیزآواز
سے چیخنے پر اپنی ہی آواز واپس سنائی دیتی ہے یہ خالی پڑے تھیٹر آج حکومت
وقت کی توجہ چاہتے ہیں ہماراملک گزشتہ تین دہائیوں سے گولیوں اور بارود کی
مہک سے مہکا ہوا ہے اوراس دہشت گردی میں کئی ماؤں کے لال اورکئی بہنوں کے
بھائی اس دنیا سے چلے گئے ابھی تک عوام شاید ان صدمات سے نہ نکل پائی ہے
کیونکہ آج بھی ہمیں انتہا پسندی کا سامنا ہے لوگوں کے پاس کوئی ایسا زریعہ
نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے چہروں پر خوشیاں بکھیر سکیں کیونکہ ملک میں
تفریحی کے بہت سے ایسے اقدامات جو حکومت کو اٹھانے چاہے مگر افسوس کہ وہ اس
سے قاصر ہے ۔ملک بھر میں بہت سے ایسے ڈائریکٹر وپروڈیوسر جنھوں نے پوری
دنیا میں پاکستان کا نام روشن کیا جن کی بنائی گئی فلمیں اور ڈراموں کی
چربہ سازی میں بھارت جیسی خودکفیل فلمی صنعت بھی پیش پیش رہی آج ان
ڈائریکٹروں اور پروڈیوسروں کی پاکستان میں شاید وہ عزت نہیں ہے مگر بھارت
جیسا انتہا پسندملک ایسے فنکاروں کی بہت عزت کرتا ہے اور ان سے سیکھنے کی
کوششیں کرتا ہے ہم دیکھتے ہیں ایسے بہت سے فنکار اور اور ڈائریکٹر
وپروڈیوسر حضرات بھارت میں گئے مگر بہت سے ایسے بھی لوگ تھے جو پاکستان کی
سر زمین کو کسی بھی حال میں چھوڑنے کے لیے تیار نہ تھے مگر ہم نے ان محب
وطن فنکاروں کے ساتھ کیا کیا۔؟مشہور زمانہ ڈرامہ سیریل عینک والا جن جسے
پاکستان سمیت دنیا بھرکے ممالک میں پزیرائی ملی اس ڈرامے کا ایک اہم
کردار"بل بتوڑی"نصرت آرا آج لاہور کی سڑکوں پر حکومت وقت کی امداد کی منتظر
ہے جو داتا دربار سے لنگر کھاکر اپنا پیٹ بھرنے پر مجبور ہے ! پاکستانی
ڈراموں کا یک بڑا نام روحی بانوجو ماضی کے ہر کردار میں اس طرح ڈھلی کے جس
نے دیکھا وہ دیکھتا رہا ہے جس کے ڈرامے اور فلموں میں اداکاری کے جوہر
دیکھنے کے لیے لمبی لمبی لائنیں لگ جاتی تھی جس کی خوبصورتی اور فنکاری کے
پیچھے لوگ دیوانے ہوئے جاتے تھے مگر پھر کیا ہوا ہم نے دیکھا کہ وہ خود ہی
دیوانی ہوگئی پاکستان کی سڑکوں پر کچرے کے ڈھیر کو چنتی روحی بانوکو کس نے
نہیں دیکھا مگر افسوس کسی صاحب حیثیت یا حکومتی نمائندے کو روحی بانو پر
دیا نہ آئی ۔ قائرین کرام اس انداز میں بے شمار فلمی واسٹیج ڈراموں کے
اداکار ایسے ہیں جو غربت کے باعث نت نئی بیماریوں سے لڑ رہے ہیں کوئی کینسر
میں مبتلا ہے تو کسی کو غربت نے فالج زدہ کردیا ہے ۔ جیسا کہ میں نے اوپر
کچھ رائٹرز ڈائریکیٹر کا زکر کیا ان میں ایک بڑا نام زاہد شاہ جو اسٹیج
ڈراموں اور فلمی خدمات میں اپنا ثانی نہیں رکھتے بہت پریشان تھے شاید وہ
میری ہی طرح سوچنے کے عادی تھے اور ان فنکاروں کی کسمپرسی کا خاتمہ اورپھر
سے تھیٹروں کو آباد کرنے کے لیے اپنی سرتوڑ کوششوں میں مصروف تھے اس روز جب
وہ مجھ سے ملا تو بہت اداس تھا میں جانتا تھا کہ زاہد شاہ گزشتہ دس سالوں
سے آرٹس کونسل کراچی کی مانند پڑی رونقوں اور آرٹسٹوں کی خوشحالی کے لیے
اپنی کوششوں میں مصروف ہیں او رپاکستان کی تاریخ میں پیاری ماں جیسے کئی
کامیاب ڈرامے دیئے ۔اس روز جب وہ مجھ سے ملا تو پریشانی اس کے چہرے سے ہی
عیا ں تھی ۔کچھ دیر ادھر ادھر کی گفتگو کے بعد اس نے کہاں کہ وہ فنکاورں کی
فلاح وبہبود کے لیے کچھ کرنا چاہتا ہے اس نے کہاں کہ میں نے آرٹس کونسل
کراچی کو آباد کرنے کے لیے اپنا سب کچھ لٹادیاہے شاید میرے پاس کوئی جادو
کی چھڑی نہیں ہے جو اس قدر محنت کے باوجود ہم لوگ کامیاب نہیں ہورہے ہیں
کچھ دیر گفتگو کے بعد میں نے زاہد شاہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آج کے
برانڈ اسپانسر کی فلمی صنعت و تھیٹروں سے دوری کے باعث بھی ایسا دیکھنے کو
مل رہاہے کوئی بھی برانڈ اپنا وقت اور پیسہ برباد کرنے کو تیار نہیں ہوتا
کیونکہ ان کی مانیٹرنگ ٹیم یہ جان چکی ہے کہ لوگ اب ان ڈراموں اور تھیڑوں
کو دیکھنے کے لیے گھروں سے نہیں نکلتے اوریہ ہی ایک بڑی وجہ آرٹسٹ اور آرٹس
کونسل کی بربادی کی بنتی جارہی ہے میں نے کہاکہ اگرہم عوام کو گھروں سے
نکال کر تھیٹروں میں لانے میں کامیاب ہوگئے تو برانڈ اسپانسر خود ہی ہمارے
پیچھے آئے گا ،زاہد شاہ اس وقت میری باتوں کو بہت انہمناک سے سن رہا تھا
میں نے کہاکہ میں خود برانڈ اسپانسر سے بات کرونگا اور اس بار پیسہ عوام
پرہی لگے گا عید کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کے لیے عوام کا پیسہ عوام پر ہی
لگادیا جائے تو اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہوگی کہ عوام کا سمندر تھیٹروں
کو آباد کردے زاہد شاہ نے کہا کہ پاکستان کے ڈراموں کے بڑے نام جو بھارت
میں بھی اپنی کامیابی کی دھوم مچاکر آئے ہیں جن میں شکیل صدیقی ،روف لالہ
،نعیمہ گرج ،شکیل شاہ ،پرویز صدیقی ،سلیم شیخ ،تبوخان،مہوش صدیقی ،صائمہ
حسنین جیسے فنکار پاکستان میں اسٹیج ڈرامہ انڈسٹری کی گرتی صنعت کو سہارا
دینے کے لیے میرے ساتھ ہیں مجھے بہت خوشی ہوئی خاصی طویل گفتگو کے بعد ہم
لوگ عید کا چاند نامی ڈرامے پر متفق ہوگئے میں نے بھی بھرپور تعاون کا یقین
دلایا زاہد شاہ نے مجھے ڈرامے کی کہانی سے بھی آگاہ کیا جو نہ صرف فل
مزاحیہ بلکہ کسی بھی خاندان کو آپس میں مل بیٹھ کر دیکھنے کے عین مطابق تھی
۔آج اس بات کوبہت دن ہوچکے ہیں یہ تمام بڑے فنکار کراچی کی سڑکوں پر عوام
میں خوشیاں بکھیرنے کے لیے چوراہوں اور بازاروں میں جارہے ہیں ان کی ان
کوششوں سے کئی سالوں کے بعد بڑے بڑے برانڈ اسپانسر بھی ان کا ساتھ دینے کے
لیے آمادہ ہوچکے ہیں کیونکہ ماسوائے حکومت کے ہر کوئی یہ چاہتا ہے کہ ماضی
اور حال میں جن فنکاروں نے پاکستان کی خدمت کی ان کواس خدمات کا صلہ اس طرح
نہ ملے کہ وہ اپنے علاج ومعالجہ کے ترستا پھرے میں سمجھتا ہوں کہ فنکار کسی
بھی معاشرے کا سفیر ہوتا ہے جب پاکستان میں ہوتا ہے تب بھی خاص اورجب
پاکستان سے باہر ہوتا ہے تب بھی وہ پاکستان کا نام بن کر ملک کی عزت کے لیے
کام کرتاہے اس لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے ملک کے فنکاراور آرٹسٹوں کی قدر
کریں جیسے کہ ڈرامہ عید کا چاند کا سارا جزبہ اور کوشش فنکاروں کی عزتوں کو
واپس لوٹانا ہے۔آپ کی فیڈ بیک کا انتظار رہے گا۔ |