لالی وڈ کے اداکاروں کی مذہبی ڈرامے بازیاں

ہمارے ٹی وی چینلز پر کیا نعت خواں، اینکرز اور رمضان کے کمرشلز کے لئے آرٹسٹوں کی اتنی کمی پڑ گئ ہے کہ لالی وڈ کے اداکاروں کو اس کام پر لگا دیا گیا ہے۔ کہیں وینا ملک سر پر دوپٹہ اوڑھے رمضان میں اپنے تو اپنے، ہمارے گناہوں کے استغفار کے لئے بڑی دکھ بھری آواز کے ساتھ بولتی نظر آتی ہے تو کہیں عائشہ عمر جو وینا ملک کی طرح ایک طرف تو برائے نام لباس میں لالی وڈ انڈسٹری میں گانوں پر ڈانس کرتی نظر آتی ہے تو دوسری طرف ٹی وی شوز میں عالم دین کے ساتھ رمضان کا استقبال کرتی نظر آتی ہے۔ ساحر لودھی کی حال ہی میں ایک فلم ریلیز ہوئ ہے۔ جہاں فلم کا نام آتا ہے وہاں ہیرو کے کردار کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایک طرف فلم کا ہیرو اور دوسری طرف وہی ہیرو رمضان کا پرچار کرتے ہوئے دکھائ دیتا ہے۔ حد تو تب ختم ہوئ جب میں نے ایک اسٹیج ڈانسر کو ٹی وی پر نعت پڑھتے دیکھا۔ یہ اسلام کا مذاق نہیں بنایا جا رہا تو اور کیا کِیا جا رہا ہے۔

رمضان کے پروگراموں یا کمرشلز کے لئے کیا لالی وڈ کے اداکار ہی رہ گئے تھے؟ نعت خواہوں کی کمی تو نہیں ہے ہمارے ملک میں جو ایک اسٹیج ڈانسر کو اس کام پر مامور کردیا گیا۔ کیا رمضان کے مقدس مہینے کی تشہیر کرنے کا یہ طریقہ ہے؟ ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ مذہبی اسکالر مذہبی پروگراموں میں، سیاسی لیڈر سیاست میں اور اداکار فلموں میں ہی اچھے لگتے ہیں۔ ایسا کہیں نہیں ہوتا کہ اصطبل میں مرغیاں اور پولٹری فارم میں گھوڑے باندھ دئے جائیں۔ کیا کبھی کسی عالم دین کو کسی فلم کی پروموشن کے لئے بات کرتے سنا ہے؟ اگر کسی عالم دین کا ایسی بات کرنا گناہ ہے تو فلمی اداکاروں کی یہ مذہبی ڈرامہ بازی گناہ کیوں نہیں۔

یہ کون سا اسلام ہے جو دکھاوے کی خاطر صرف چند لمحات کے لئے خود پر طاری کیا جاتا ہے اور کام ختم ہوتے ہی اصلیت لوٹ آتی ہے۔ ایک طرف نعت دوسری طرف اسٹیج ڈانس۔ یہ رمضان کا احترام نہیں بلکہ اس کے تقدس کی پامالی ہے۔ اداکار کو اداکار اور عالم دین کو عالم دین ہی رہنے دیا جاۓ تو بہتر ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک لالی وڈ کی ہیروئن سر پر دوپٹہ لئے علماء دین سے مذہبی سوالات کرے۔ کیا آپ نے کبھی کسی مذہبی اسکالر کو کسی ہیرو یا ہیروئن کا انٹرویو لیتے دیکھا یا سنا ہے؟ ہمارے علماء دین کی بھی کیا بات ہے، اگر کسی عالم دین سے پوچھا جاۓ کے جناب کیا آپ وینا ملک کا انٹرویو لیں گے تو انٹریو لینا تو دور کی بات، وہ فوراً توبہ و اسغفار کرنے لگ جائے گا۔ دوسری طرف اگر اسی عالم دین سے پوچھا جائے کہ جناب وینا ملک آپ کا انٹرویو لینا چاہتی ہے، کیا آپ انٹرویو دینا پسند کریں گےتو جواب میں وہ بخوشی انٹرویو دینے کے لئے آپ کو کرسیوں پر براجمان نظر آئیں گے۔ اسی قسم کے تضادات و تفرقات نے مذہب کو کھچڑی بنا کر رکھ دیا ہے۔ کہیں کوئ رنگ ملا دیا تو کہیں کوئ رنگ۔ یہ باتیں ان اداکاروں یا نعت خواں لوگوں کے بارے میں نہیں کی جا رہی جو مستقل طور پر اداکاری وغیرہ چھوڑ کر دین کی طرف راغب ہوگئے ہیں۔ مگر ایک طرف حرام اور دوسری طرف حلال کا ڈرامہ قابل قبول نہیں۔ شراب پی کر نماز پڑھنا چہ معنی دارد؟

مذہب کو مذہب ہی رہنے دیا جاۓ تو اچھا ہے۔ اس کی تشہیر کے لئے ہمیں اداکاروں کی اداکاری کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے علماء دین کی باتیں اور انداز بیاں اس قدر بے اثر ہو گیا ہے کہ اس میں اثر ڈالنے کے لئے ہمیں لالی وڈ کی رنگینیوں کا رنگ ڈالنا پڑتا ہے۔ یعنی ہم اپنی نوجوان نسل کو ایک نئے دین سے متعارف کروارہے ہیں، جہاں نمکین میں میٹھا اور میٹھے میں نمکیات شامل کی جارہی ہیں۔ یہی وہ باتیں ہیں جنھیں دیکھ دیکھ کر خاص طور پر نوجوان پوری رات جاگ کر فلمیں دیکھنے اور سحری کرکے روزہ رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ پھر پورا دن سویا جاتا ہے اور افطار سے کچھ دیر پہلے اٹھ کر بھرپور افطاری کی جاتی ہے۔ اس طرح رمضان منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پھر کیا ہوا فلم دیکھی تھی تو روزہ بھی تو رکھا ہے، ہمارا گناہ معاف ہو گیا۔

چند سال قبل عمرے کی سعادت نصیب ہوئ۔ وہاں جن کے گھر قیام کیا انھوں نے بتایا کہ یہاں کہ رہنے والے کچھ لوگوں میں یہ رواج ہے کہ تمام رات جاگ کر فلمیں دیکھتے ہیں اور صبح خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں اور اپنے ناپاک جسموں کو خانہ کعبہ کی دیواروں سے رگڑ کر کہتے ہیں اور سمجھتے بھی یہی ہیں کہ ہم پاک ہوگئے اور تمام گناہوں سے دھل گئے۔ اگلے دن پھر اسی گناہ پر لگ جاتے ہیں اور پھر خانہ کعبہ کا طواف کرنے چل پڑتے ہیں۔ یہ تو تصور ہے ہمارے ذہنوں میں گناہ و ثواب کا۔ اسی طرح اگر معافی ہونے لگ جاتی اور مسلمان گناہوں سے دھلنے لگ جاتے تو جنت اور جہنم، جزا و سزا کا کوئ تصور بھی نہ ہوتا۔ ساری عمر برے کام کرو اور مخلوق خدا کا جینا حرام کئے رکھو، بس پھر صرف ایک حج کر آؤ اور گناہوں سے پاک ہو جاؤ۔ کس قدر آسان ہے گناہوں کو دھونا۔

یہ بلکل اسی طرح کا کام ہے جو آج کل میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ لالی وڈ رمضان منارہا ہے۔ کیوں کہ ہمارے پاس علماء دین اور مذہبی اسکالرز کی کمی پڑگئ ہے، نعت خوانوں کی کمی پڑگئ ہے، دلوں میں دین کا جذبہ پیدا کرنے والے شعلہ بیانوں کی کمی پڑگئ ہے۔ اس لئے ہم نے رمضان کے بابرکت مہینے میں لالی وڈ کی رنگینیاں ڈال کر اس میں دلکشی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
شہلا خان
 

Shehla Khan
About the Author: Shehla Khan Read More Articles by Shehla Khan: 28 Articles with 33051 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.