مسلمانوں نے موسیقی کو باقاعدہ ایک معتدل فن کے طور پر
باقاعدہ استعمال کیا۔ ستار اور طبلہ جن کی ایجاد مسلمانوں کا کارنامہ ہے
جوبہت جلد مقبول ہو گئے۔ مسلمانوں نے اپنا نظام موسیقی ریاضی کے اصولوں پر
مرتب کیا ۔ عربی کا لفظ موسیقی یونانی زبان سے اس زمانے میں مستعار لیا گیا
جبکہ عرب دانشور یونانی فلسفے کا عربی زبان میں ترجمہ کر رہے تھے۔ مسلمان
مفکر فارابی نے علم موسیقی پر بہت کام کیا۔ لیکن عام مفہوم میں موسیقی کو
غنا کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا۔ اور گلوکار کو مغنی اور گلوکارہ کو مغنیہ
کہتے تھے۔ عربوں نے اپنی علم موسیقی میں اضافے روم اور ایرا ن کے موسیقاروں
کے تعاون سے کئے۔ شروع میں نامور مسلم موسیقاروں میں پیشہ وارانہ حیثیت سے
طوپس، غرت المیا اور صاحب خاطر کے نام سے بہت مشہور ہوئے۔ ابن مسیحا باز
نطینی اور ایرانی موسیقی عالم کی حیثیت سے نامور ہوا۔ اس میں ایرانی اور
رومن دھنوں کو اہم بخشا۔ بعد ازاں عرب موسیقاروں نے یہ ایرانی بریط کے
استعمال کے ذریعے سروں کا نیا نظام مرتب کیا۔ جو زیروہ بم کے نام سے پہچانا
جاتا تھا۔ مجازیر کے بیٹے مسلم نے جو ابن مسیحا کا شاگر د تھا انہوں نے شام
اور ایران کا سفر کیا۔ اور موسیقی کی نئی دھنیں مرتب کیں۔ وہ اوزان موسیقی
جو ردل کے نام سے جانے جاتے ہیں تا خالق ہے۔ مجازیر اور ابن سرجیل مکہ اور
معبد کے دو نامور موسیقار تھے۔ جبکہ ملک کا تعلق مدینہ سے تھا۔ عطا ابن
البع 722ء نے ایک نئی طرز کی موسیقی سے متعارف کروایا۔ یونس کتب پہلا
ایرانی موسیقار تھا۔ جس نے عرب نغموں کا مجموعہ ترتیب دیا۔ اور علم موسیقی
پہ ایک کتاب لکھی جس کی تقلید میں ابو لخرج نے اگلی لکھ کر ایک یادگار کا م
کیا۔ یونس کو خوش قسمتی سے اچھے اساتذہ نصیب ہوئے۔ جن میں ابن سراج ، ابن
مہازیر، غادر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان کی صحبت سے یونس کی موسیقی کو چار چاند
لگے۔ وہ خلیفہ ولید ثانی کا پسندیدہ موسیقار تھا۔ 724ء میں اسے دمشق آنے کی
دعوت دی۔ یہاں اس نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ کہنا دلچشپی سے خالی نہ ہو
گا۔ کہ خلیفہ ولید ثانی خود بھی بریت بہت عمدہ بجاتا تھا۔ مسلم موسیقی بنو
امیہ کے دور میں برابر ترقی کرتی رہی۔ لیکن اس کا سنہری زمانہ خلیفہ ہاروں
اور مامون رشید کا عہد حکومت ہے۔ جو بنو عباس کے نامور خلیفہ تھے۔ ابراہیم
اور اسحاق مرصلی ہارون رشید کے عہد کے دو نامور موسیقار گزرے ہیں۔ اسحاق کو
ہارون کے دربار میں وہی مقام حاصل تھا جو تان سین کوا کبر اعظم کے دربار
میں حاصل تھا۔ ہندوستان کی فتح کے بعد مسلمانوں نے اپنی موسیقی یہاں پر
متعارف کروائی۔ جو بہت جلد مقامی لوگوں کی موسیقی کے ساتھ مل کر ایک نئی
صورت اختیار کرنے لگی۔ بادشاہ موسیقاروں اور صوفیاء کے سرپرست تھے۔ موسیقار
اور صوفیاء شامی فوجوں کے ہمراہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوتے رہے۔
اور اپنا پیٖغام لوگوں تک پہچاتے رہے۔ مثلاََ سلطان علاؤ الدین خلجی کا
خاندان کا بڑا بادشاہ موسیقاروں کا عاشق تھا۔ ایک کثیر تعداد میں صوفیاء
اور موسیقاروں کا حلقہ اس کے گرد جمع رہتا تھا۔ اس دور میں جن لوگوں نے نام
پیدا کیا ان میں نذیر خاں مہروز ، چانگی اور نامور موسیقار استاد امیر خسرو
نمایاں ہیں۔ برصغیر میں دور اسلامی کی موسیقی میں خسروکا عام طور پر اہم
مقام ہے۔ امیر خسرو دھنوں کے موجب تھے، جنہوں نے ایرانی رنگ میں مقامی مزاج
کے مطابق پیش کیا۔ خیال اس کی مثال ہے۔ خیال کی ایجاد خسرو کا بڑا کارنامہ
ہے۔ اسی طرح انہوں نے سازوں کی ایجاد کی، جن میں تبلہ اور ستار جیسے معروف
اور اہم سازبھی ہیں۔ قوالی امیر خسرو کی بڑی تخلیق ہے۔ یہ طرز اپنے اندر
کشش اور تاثیررکھتی ہے۔ یہ خاص طور پر مسلمانوں سے منسوب ہے۔ اور پاکستانی
کلچرل کا اہم جزوہے۔ قوالی کی مقبولیت کی وجہ سے عالمگیر اسلامی بنیادوں پر
اس کے پیغام کی ہمہ گیری ہے۔ یہ طرز ہائے موسیقی ایرانی اور ہندی مزاج کے
امتراج سے پروان چڑھے ۔ دھنوں اور سروں کو مخصوص موسم رات دن کے اوقات حتیٰ
کہ لمحوں میں گائے جانے کا سلسلہ شروع ہوا۔ کچھ سریں بڑی بڑی مجالس اور اہم
تہذیبی مواقع پر گائی جاتی تھیں۔ اور مغلیہ دور میں فن موسیقی کو نمایاں
ترقی ہوئی۔ اکبر کے دربار میں تان سین کی فنکارانہ حیثیت مسلمان بادشاہوں
کی فنون لطیفہ سے دلچسپی کی واضح مثال ہے۔ تان سین نے کئی سریں تخلیق کیں۔
جن میں تنارس اور درباری یادرگار حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔اس کے پروکاروں
میں استاد چاند خان ، سورج خان، سراج خان، نانک جوجو، سدا رنگ ، ادارنگ،
اچیل خان، عاشق رنگ اور ہدو خان، اور حسو خان مشہور ہوئے۔ موسیقاروں کی لڑی
آگے چل کر گھرانوں میں تقسیم ہو گئی۔ اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ چنانچہ
موسیقی کے کئی گھرانے اس ضمن میں بہت مقبول ہوئے۔ پاکستان میں بھی ابھی تک
گھرانوں کی روایت موجود ہے۔ آزادی کے بعد ہمارے ملک میں قدیم روایات یعنی
اس دور میں استاد خمیسوں خان ، مصری خان ، جمالی ،فیض محمد بلوچ، محمد شریف
خان پونچھ والے ، منیر سرحدی اور عالم لوہار خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ اس
روایت کے ساتھ جدید طرز کی موسیقی رواج پا رہی ہے۔ موخر الذکر یہ مغربی
موسیقی کا اثر ہے۔ سازوں میں بھی تنوع پیدا ہوا ہے۔ اور دیسی سازوں کے ساتھ
مغربی طرز کے ساتھ بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کے عظیم
عوامی میوزک پر توجہ دی گئی ہے۔ جس کے نتیجہ میں فوک گانے والے فنکاروں کی
بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ فوک گانے والے ان گلوکاروں اور ماہرین ساز کا تعلق
عوام سے ہے۔ وہ عوام کے نغمے گا کر قدیم صوفیاء کا کلام پڑھ کر لوگوں کے
دلوں میں سمائے ہوئے ہیں۔اسی طرح پاکستان کی موسیقی کو روایتی اور مغربی دو
حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ روایتی موسیقی میں کلاسیکل لوگ اور صوفیانہ
کلام سب شامل ہیں۔ جنہیں پاکستان کے قدیم صوفیاء جیسے سچل سر مست، خواجہ
فرید، بلھے شاہ اور عبدالطیف بھٹائی نے ترتیب دیا ہے۔ انہوں نے اپنے راگوں
کی بندش میں کلاسیکل دھنوں کے ساتھ ساتھ کافیوں اور بھیرویں کو بھی استعمال
کیا ہے۔ کیونکہ یہ دو بندشیں اپنی سادگی پر کارسی خیال افرینی او ر کیف
دوجد کے لئے سب سے زیادہ موثر ہیں۔ قوالیوں کے مضامین تصوفانہ اور سبق آموز
ہیں۔ اور حضور ؐ دیگر بزرگوں کے محبت بر مبنی ہیں۔ تبلے کی سنگت کے ساتھ
ساتھ بڑھتی ہوئی لے کو وجد آوری کے لئے نہایت موثر انداز میں استعمال کیا
جاتا ہے۔ صابری برادران ، عزیز میاں، بخشی سلامت، پارٹی وغیرہ مشہور قوال
ہیں۔ ان قوالوں نے مغرب میں نہ صرف قوالی کو متعارف کیا ہے بلکہ ان کے لئے
ایک بھر پور شوق بھی پیدا کیا ہے۔ ساٹھ کی دہائی کے آخر میں پاکستان لوک
موسیقی کی پذیرائی نہایت کم ہو گئی تھی۔ کیونکہ استادان موسیقی جیسے استاد
عاشق علی خان ، استاد وحید خان وغیرہ ایک ہی عشرے میں یکے بعد دیگرے وفات
پا گئے تھے، جبکہ شہر آفاق کلاسیکل گائیک بڑے غلام علی خاں، انڈیا ہجرت کر
گئے تھے۔ پاکستان میں موسیقی کے مشہور خونوادے روشن آراء بیگم جن کا تعلق
کیرانہ گھرانے سے تھا۔ اور سلامت علی خان جن کا تعلق شام 84سے تھا۔ وہ
روایتی نیم کلاسیکی موسیقی ٹھیری ، دادرا اور غزل شامل ہیں۔ پاکستان کی لوک
موسیقی عوام الناس کے سچے جذبوں ان کی محبتوں نفرتوں غموں خوشیوں اور زندگی
سے بھرپور رسوم اور میلوں ٹھیلوں کی ترجمان ہے۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ان
کی روحانی وحدتوں کی ترجمان ہے۔ تمام دنیا کی طرح پاکستانی لوگ گیتوں میں
بنیادی طور پر ایک ٹیپ کا مصرع ہوتا ہے۔ اسی طرح ہماری محبت بھری اور رزمیہ
شاعری بھی مخصوص سروں میں گائی جاتی ہے۔ جس کا ایک اپنا جداگانہ انداز ہے۔
اس میں ہیر رانجھا، مرزا صاحباں، سوہنی مہینوال، اور سسی پنوں شامل ہیں۔
مشہور لوک فنکاروں میں سائیں اختر ، ریشماں ، منیر سرحدی، عابدہ پروین، اور
مصری خاں شامل ہیں۔پاکستان جدید مغربی موسیقی میں مغربی سازوں کا استعمال
زیادہ کیا جاتا ہے۔ اور تمام تر حلقی پھلکی موسیقی پر مشتمل ہے۔ روایتی
کلاسیکل موسیقی میں کوئی جدید رجحانات دیکھنے میں نہیں آئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری مقامی سطح کمالیہ پر جن موسیقاروں نے اس بیڑے کو اب تک سنبھالا ہوا
ہے۔ ان میں لوک اور جدید موسیقی کے ساتھ ساتھ سازو آواز کے ماہر استاد فضل
مراد خان صاحب نے اب تک مقامی سطح پر موسیقی کی باگ دوڑ سنبھالی ہوئی ہے ۔
اور اب تک انہوں نے بیش بہا دوسرے گلوکاروں کے گائے ہوئے بھی نہ صرف بلکہ
اپنے ذاتی کلام کو بھی طبلہ اور ہارمونیم پر جدید انداز میں گایا ہے۔ استاد
فضل مراد خان صاحب موجودہ دور میں موسیقی کے ایک بہت بڑے نہ صرف گلوکار
بلکہ ایک منجھے ہوئے اداکار ہدایت کار ، سدا کار اور سنگیت کار ہیں۔ امید
ہے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی موسیقی اپنے رنگ اور طرز میں نہ صرف جدید
خوبیوں سے ہم آہنگ ہوگی۔ بلکہ جدید طرز کی یہ موسیقی آنے والے وقت میں
پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر پہچان ہو گی۔
|