زکوۃ اسلام کا چوتھا رکن ہے اورصاحب نصاب مسلمانوں پر ایک
خاص شرح سے فرض ہے زکوۃ کو اللہ تعالیٰ نے مال کی پا کی فرمایا ہے اور اس
کا مقصد ایک مسلمان کے دل میں دوسرے ضرور تمند مسلمان کا احساس پیدا کرنا
ہے اور چونکہ اسلام خالی خولی باتوں کا قائل نہیں بلکہ یہ عملی اقدامات کا
قائل ہے لہذا اُس نے زکوۃکو صرف تلقین تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ان صاحب
نصاب مسلمانوں پر فرض کیا یوں دوسرے مسلمان کی ضروریات کو پورا کرنے کا
بندوبست کیا اور یہ بھی کہ دولت ملکیت تو رہے لیکن چند ہاتھوں میں نہ رہے
اور غریب اور امیر کا تفاوت دونوں گروہوں کے کے بیچ وجہ نزاع نہ بنے ۔ا
سلام نے صرف زکوۃ ہی فرض نہیں کی بلکہ مسلمان کو اپنے دوسرے مسلمان بھائی
کی خیرات اور صدقات کے ذریعے بھی مدد کرنے کو پسندیدہ افعال میں شامل کیا
ہے اور اسے مصائب اور بلاؤں کوٹا لنے کے لیے ایک واسطہ بنایا ہے اور اسی
عقیدے کے ساتھ مسلمان صدقہ وخیرات کرکے اپنی دنیا وآخرت کوسنوار نے کی کوشش
کرتا ہے۔ اگرچہ زکوۃ کی ادائیکی پورے سال کی جاتی ہے اور یہی حال خیرات اور
صد قات کا ہے پاکستانی ہر سال ایک خطیررقم خیرات اور صدقات کی صورت میں
دیتے ہیں اور خاص موقعوں پر تو یہ جذبہ عروج پر ہوتا ہے۔ رمضان میں تویہ
جذبہ بھی کئی گنا بڑھ جاتا ہے اور یہ رقوم بھی لیکن اس سارے عمل اور جذبات
کو اگر درست رخ پر رکھا جائے تو بہت ہی اچھا ہے اور یہ انتہائی ضروری بھی
ہے کہ کہیں یہ رقم جو اللہ تعا لیٰ کی خوشنودی کے لیے اُسکے راستے میں دی
جارہی ہے کسی غلط بندے کے ذریعے کسی غلط مقصد کے کے لیے استعمال نہ ہو جائے
۔ زکوۃ مذہبی فریضے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں افراط وتفریط کو ختم کرنے کا
ایک ذریعہ بھی ہے اور اگر یہ اپنے غریب رشتہ داروں کو دی جائے تو معاشرے کی
بنیادی اکائی یعنی خاندان کے اندر سے یہ تفریق ختم ہونے کی بنیاد پڑ جاتی
ہے اور صلہ ر حمی جیسا پسندیدہ فعل بھی ادا ہوجاتا ہے زکوۃ اور خیرات
وصدقات اگر معاشرے کے سفید پوش طبقے کو دیے جائیں جو پیشہ ور مانگنے والے
نہیں ہوتے بلکہ وہ مشکل حالات کا مقابلہ خاموشی اور صبر کے ساتھ کرتے ہیں
تو زیادہ احسن ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی مختلف خیراتی
ادارے متحرک ہوجاتے ہیں اور اُن کی ٹیمیں گلی گلی گھوم کر زکوۃ اور خیرات
وصدقات اکٹھا کرنا شروع دیتی ہیں اور ہمارے عوام اسے اپنا مذہبی فریضہ سمجھ
کر دل کھول کر ان کو یہ رقوم دیتے ہیں لیکن اس کے بعد کوئی نہیں جانتا کہ
یہ رقم کن سرگرمیوں اور منصوبوں کے لیے استعمال ہو جاتی ہے۔ہمارے مدارس اگر
ان رقوم کو صرف طلباء کی مفت تعلیم اور رہائش کے لیے استعمال کریں تو بات
درست ہے لیکن آج کل کے ماحول میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ طلباء کس کے
ہاتھ کس طرح استعمال ہوجائیں اور زکوۃ کی رقم سے بھی کونسے مقاصد پورے کیے
جائیں گے۔ہمارے مدارس ہمارے معاشرے کا ایک ایسا جُزہیں جنہوں نے ہمیشہ
معاشرے کی تربیت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اب بھی ایسا کررہے ہیں لیکن
اگر یہی مدارس اپنے بیچ میں سے ایسے لوگوں کو ڈھونڈ نکالیں تو عام آدمی کا
اعتماد دوبارہ سے ان پر بحال ہوجائے اور اگر یہ رقم ان کے پاس جائے تو بھی
انہیں خدشات نہ گھیریں یہی حال دیگر خیراتی اداروں کا ہے اگر یہ ادارے بھی
زکوۃ و خیرات کی رقوم کے بارے میں عوام کو مطلع کردیا کریں تو بہتر ہو گا
اور یہ تسلی ہوتی رہے گی کہ یہ رقوم واقعی مریضوں اور مستحقین تک پہنچ جاتی
ہیں کہیں دوسرے مقاصد کے لیے خرچ نہیں ہو جاتیں۔رمضان کے مہینے میں آپ کہیں
نکل جائیں ہر طرف آپ کومانگنے والوں کی ایک بھیڑ نظر آئے گی دراصل ہم نے
رمضان کو ہی نیکی کا ایک مہینہ سمجھ لیا ہے اور یہ پیشہ وربھکاری بھی اس
مہینے میں نیکی کمانے کے جذبے کو کیش کرتے ہیں اور دل کھول کر کرتے
ہیں۔پچھلے رمضان میں ایک ایسے ہی بھکاری کو رمضان پیک لے کر دیا اور جانے
کے لیے مڑی ہی تھی کہ اُس نے دکاندار سے سامان واپس کرکے پیسے دینے کو کہا
کیونکہ اُس کے پاس یہ سب کچھ موجود تھا جس کے لیے پہلے اُس نے کہا تھا ۔زکوۃاسلام
کا فرض رکن ہے اور خیرات اور صدقات پسندیدہ افعال اور اسلامی معاشرے کی
خوبصورتی بھی لیکن اس کے ساتھ شرط مستحقین کی ہے تو ہمیں یہ سوچ لینا چاہیے
کہ ہم اپنی یہ رقوم کہیں ایسے لوگوں تک تو نہیں پہنچا رہے جو مستحق نہیں
ہیں اور کہیں مستحقین محروم تو نہیں رہ رہے۔وہ ادارے جو بیرونی امداد دل
کھول کر لیتے ہیں اور مخیر حضرات کی نظر کرم بھی اُن پر رہتی ہے وہ اس ماہ
میں اسے خوب سمیٹ لیتے ہیں اور جن کا حق ہے وہ محروم رہ جاتے ہیں اور اپنی
سفید پوشی کا بھرم رکھتے رکھتے مزید تکلیف دہ حالات سے گزرتے ہیں۔ مدارس
اور خیراتی اداروں کو زکوۃ بھی دیں اور خیرات بھی لیکن یہ ضرور سوچیئے کہ
ان کودینے والے بہت ہیں جبکہ غریب رشتہ دار ،پڑوسی یا تعلق دار جو نہ تو
پرکشش اشتہارات بنا سکتا ہے نہ اپنے کا رندوں کو دوڑا دوڑا کر فندز اکھٹے
کروا کے اپنے سرمایے میں اضافہ کر سکتا ہے اُن کا حق مقدم ہے لہٰذا اُن کا
خیال رکھیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ان کاحق ادا کیجیے اور اس
اطمینان کے ساتھ کیجیے کہ یہ رقوم ان ہی کے خاندانوں اور بچوں کی بھلائی کے
لیے خرچ ہوں گی کسی تخریبی کاروائی یا ذاتی مفاد کے لیے نہیں۔ |