پروفیسر شازیہ علی
بحثیت ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ
سربراھی الہی تعالی کیخاص عطا ھے۔ سربراہ ھونے کےلیے ایسے اوصاف موجود ھونا
لازمی ھیں جو ایک سربراہ کی طبیعت میں جچتے ھیں۔
بعض اوقات دیکھنے میں آتا ھے کہ سربراہ کا مزاج ان اوصاف سے خالی ھوتا ھے۔
سربرہ ھونے سے مراد محض یہ نہیں کہ سربراہ کی اس کرسی پر جلوہ نمائسے تمام
فرائض سرانجام پاتے ھیں بلکہ اوصاف کے حامل ھونے کے بعدان فرائض کی تکمیل
کے لیے جو اک سربرہ پر عائد ھوتے ھیں ھر ممکن تگ و- دو بھی ضروری ھے۔ اسی
لیے سربراھی کی نشست سنبھالنا تو بہت آسان مگر سربراھی سے منسلک اعمال کی
تکمیل اور خوابوں کوشرمندۂ-تعبیر کرنا بہت مشکل ھے
پروفیسر شازیہ علی نہ ہی محض ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ھیں بلکہ وہ ان جملہ اوصاف
کی بھی مالک ھیں جوایک سربراہمیں ھونا ضروری ھیں۔ یہ جملہ اوصاف الفاظ کے
استعمال کی حد تک نہیں بلکہ حقیقت میں ان کے امور اور ان کی طبیعت سے واضح
ھیں۔ بمشکل ھی کوئ ایسی شخصیتھوتیھےجس میں سربراھی کے اوصاف اس عہدے پہ
فائض ھونے سے قبل بھی دیکھنےمیں آئے ھوں، حالیہ میں بھی خوب چرچہ ھو ، اور
مستقبل میں کہیں بڑھ کر ھونے کی امید آزمائ جا سکے۔ مگر ایسے حالات میں
پروفیسر شازیہ علی کا نام ضرور سامنے آتا ھے جو ان سہ ازمنہ میں ان کی حامل
ھیں۔
قبل ازوقت کسی کے متعلق قیاس آرائ یا خصائل کا اعادہایک اھم پہلو ھے جو
بوقت ضرورت کیا بھی جاتا ھے، تاہم اس بات کی یقین دہانی نہیں ھوتی کہ کیا
یہ اندازہ واقعی درست ثابت ھوگا۔مگر پروفیسر شازیہ علی ایک ایسی شخصیت ھیں
جن کے اوصاف کے متعلق قیاس آرائبھی ان کے خصائل کی توہین سے کم نہ ھوگی۔ ان
کی طبیعت اور مزاج بھی انسانی سوچ کے لیے ایک ایسا گواہ ھے جوانسان کو اس
بات پر مجبور کرتا ھے کہ یہ اوصاف حال کی سجاوٹ نہیں بلکہ یہ اوصاف ان کی
طبیعت میں قدرتی طور پر ھمیشہ ھمیشہ سے سجے ھوئے ھیں اور ان اوصاف کیچانچ
پڑتال عبث ھے
انہیں فرائض کو جلد ازجلد پایۂ-تکمیل پر پہنچانے کا ملکہ حاصل ھے۔ انہوں نے
سربراہی کینشست سنبھالتے ھی نہ صرف اپنے فرائض کو سرانجام دینا شروع کیا
بلکہ اپنے فرائض سے چار قدم آگے اوروں کی مرجھای ھوئ امنگوں کو بھی فروغ
دیا۔ ان کی خوبیوں اور عادات سلیمہ کا یہ منظر ھے کہ وہ ان کی سربراھی کی
نشستسنبھالنے سے قبل بھی سب کی آنکھوں پہ پردہ ڈال کر انھیں اس مقام پر
فائض ظاہر کرتی تھیں۔ اس بات سے اس مقام پر حقیقت میں فائض ھونے کے بعد کے
منظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ھے۔
طلباء کے ساتھ ان کا ذوق اور لگن بھی سب پر عیاں ھے ، وہ الفاظ کے کسی ایسے
ذخیرے میں مقید نھیں جو بے بنیاد تعریف سےمزین ھواور جسکی حقیقت سے کوئ
آشنائ نہ ھوبلکہ ان کی شخصیت ان تمام شبہ گیر عناصر سے آگے نکل کر واضح اور
درخشندہ خورشید کی مانند ھے جو چشم سلامت و چشم ذہانت کو تو نظر آتا ھی ھے
مگر اس کے اثرات اور اس کے فائدے ، اس کی کرنیں نابینا لوگوں تک بھی پہنچتی
ھیں۔
کچھ عنوان ایسے ھوتے ھیں کہ ان کو قلم بند کرنے سے قرار اور چاشنی ھمیشہ
کےلیے جاتی رہتی ھے مگریہ ایک ایسا مضمون ھے جس کو قلم بند کرنے سے اس کا
لطف مزید بڑھتا ھے۔ اس کا یہ رنگ شاید اس کے حقیقت پر مبنی ھونے کو وجہ سے
ھے اور حقائق بھی ایسے کہ جن کی خاصی توضیح بھی قدرے بہت کم محسوس ھوتی ھے۔
ان کیشخصیتسے ایسے کامیاب حقائق وابستہ ھیں جو سربراہان اور عام عوام کے
بیچ موجود دیوار کو توڑ کر ان کو آگے بڑھنے اور بلندیوں کو چھونے کا راستہ
مہیا کرتے ھیں۔ ان حقائق سے کوئ نا- اہل ھی منہ موڑ سکتا ھے۔
ان کے مجموعہ خصائل کے سبب طلباء نہ صرف خودمیں حوصلہ دیکھتےھیں بلکہامنگوں
کے فروغ کےساتھ ساتھ انہیں اپنی امنگوں کو پورا کرنے کے لیے چراغ راہ بھی
مہیا ھوتا ھے۔ یہ مجموعہ طلباء کو احساس کمتری اور نفسیاتیمسائل سے بالاتر
سوچ مہیا کرتا ھے۔ انہوں نے نظم و- نسق کے پہلو پر اس قدر توجہ دی ھے کہ
جہاں بھرے کالج میں ایک نظم و نسق کا ڈنڈورا پیٹا جاتا ھے وہاں پروفیسر
شازیہ علی کے ڈیپارٹمنٹ میں نافز علیحدہ و منفرد نظم و نسق کی ایسی مثال
موجود ھےجو کالج کے نظم و نسق پر غالب ھے۔ بعض اوقات طلباء پر سختی اور بے
جا رکاوٹوں کو نظم و نسق کے نام سے گردانتا جاتا ھے مگر ڈاکٹر شازیہ علی نے
جو نظام برقرار کر رکھا ھے وہ سختی سے نہیں بلکہ اخلاق ، محبت ، رہنمائ،
سنجیدگی، ترقی ، عروج، دور اندیشی، اخلاص ، محنت، جزبہ، لگن، جیسی اصلاحات
سے منسوب ھے۔
اس لیول پر جہاں کوئ اس بات کا خیال نہیں کرتا کہ طلباء کے معاملات کس قدر
شفاف ھیں اور ان کے تعلیمی مسائل میں کس طریقے رہنمائ کر کے بہتر نتائج
حاصل کیے جا سکتے ھیں یا اس بات کی معلومات حاصل کرنا کہ کہیں طلباء کے
تعلیمی مسائل میں کوئ کمی یا کوتاھی باقی تو نہیں، اگر کیا بھیجاتاھے تو
کاغزی دستاویزات اور باتوں کی حد تک ، مگر پروفیسر شازیہ علی وہ ایچ او ڈی
ھیں جنہوں نے اصلیت میں ان اعمال کو عملی جامہ پہنایا ھے۔ اور ان کا ہی عزم
کہ طلباء کی زندگی کا ھر لمحہ قیمتی بنایا جاۓ ، ایسا عزمھے جس میں ان کا
کوئ ثانی نہیں۔
کالج کی مختلف سوسائیٹیز مختلف کام سر انجام دیتی ھیں اور الحمدللہاحسن
طریقے سے سر انجام پاتے ھیں مگر اس میدان میں پروفیسر شازیہ کا کردار کچھ
مختلف ھے۔ اس پہلو کا یہ رنگ ھے کہ جہاں دنیا کہ ھر شخص ترقی کرنا چاہتا ھے
اور دنیا میں ترقی کی دوڑ نظر آتی ھے وہاں پروفیسر شازیہ نے ریسرچ سوسائیٹی
تشکیل دی ھے اور یہ سوسائیٹی بہتر کام کر رھی ھے۔ ان کی یہ کاوش ھے کہ کچھ
ایسا دریافت کیا جاۓ جس سے مخلوق خدا کو فائدہ ھو سکے۔
طلباء کے مستقبل کےلیے طلباء سے زیادہ وہ کوشاں اور سنجیدہ ھیں۔ طلباء سے
وقتا فوقتا تعلیمی جائزہ اور ان کے تعلیمی مسائل کا حل نکالنا اور اس کے
ساتھ ساتھ وہ دیگر پہلوؤں پر بھرپور توجہ دیتی ھیں اور بعض اوقات وہ ان
پہلوؤں میں کامیابی کے لیے خود کو بھی تجربات کی فہرست میں لاکھڑا کرتی ھیں۔
ان پہلوؤں کی روشنی میں ان کی عظمت کا اقرار غیر بھی کریں گے۔
ان کی محنت اور لگن کا ہی یہ نتیجہ ھے کہان کے ڈیپارٹمنٹ کی تمام فکلٹی
جزبے سے سرشار ھے اور طلباء کی ترقی اور ان کے اندر تعلیمی جزبہ پیداکرنے
کےلیے گامزن ھے۔ پروفیسر شازیہ علی فقط سربراہ ھی نہیں بلکہ انھیں انداز
تدریس میں بھی کمال حاصل ھے۔ ان کی فصاحت و- بلاغت، انداز بیاں ، اطوار،
اور نظم و نسق کی مثال وہ خود ھیں۔
ان کے ان بےمثال خصائل کے سبب ھی ان کے طلباء مستقبل میں روشن چراغ ثابت
ھوتے ھیں ان کی خوبیوں کو عیاں کرتے وقت اثبات سے بے پرواہھو کر اوصاف کے
سمندر میںکودناپڑتا ھے کیونکہ یہ وہ اوصافب ھیں جو اثبات کے محتاج نہیں۔ وہ
کامیابی کےلیے رہنمائ کا مرکز ثابت ھوتی ھیں۔ جب طلباء و طالبات میں کسی
شخصیت سے متاثر ھو کر کچھ کرنے کا جزبہ پیدا ھو اور اس شخصیت کا متاثر کن
انداز لوگوں کے دلوں میں بسیرا کر جاۓ اور وہ اس شخصیت کے نقش قدم پر چل کر
ان جیسا بننے کے خواہش مند ھوں اور ان کی طرح خوابوںکو شرمندۂ تعبیر کرنے
کی تڑپ رکھتے ھوں تو اس شخصیت کی عظمت کا اندازہ آسانی سے کیا جا سکتا ھے۔
پروفیسر ڈاکٹر شازیہ علی بھی ایک ایسی ھی شخصیت ھیں جہاں سے سب کو پختہ
عزائم کے ساتھآگےبڑھنے اور جدوجہد کرنے کی تڑپ ملتی ھے۔ گویا وہ طلباء
کےلیے مشعل راہ ھیں۔
ان سے پڑھنے کا ھمیں جزبہ ھے
ان سا بننے کے ھم شوقین ھیں |