رمضان المبارک اور سحری کے مسائل

روزے کی صحت کے لئے سحری کھانا ضروری نہیں ہے تاہم سحری کھانا مسنو ن ہے اس لئے سحری کھائے بغیرروزہ نہیں رکھناچاہئے ، اس سے روزہ دار کو طاقت وقوت ملتی ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔ تسحَّروا، فإن في السَّحورِ بركةً (صحيح البخاري:1023،صحيح مسلم:1095)
ترجمہ: سحری کھاؤ کیونکہ سحری میں برکت ہے ۔
ایک دوسری حدیث میں نبی ﷺ کا فرمان ہے :
السُّحورُ أكلةُ بركةٍ فلا تدعوهُ ولو أن يَجرعَ أحدُكم جرعةَ ماءٍ فإنَّ اللهَ وملائكتَهُ يُصلُّونَ على المتسحِّرينَ(السلسلة الصحيحة:7/1206 )
ترجمہ: سحری تمام تر برکت ہے لہذا اس کو نہ چھوڑوخواہ تم میں سے کوئی ایک گھونٹ پانی ہی پی لے کیونکہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پہ رحمت بھیجتے ہیں۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ حدیث میں مذکور برکت کی بایں طور وضاحت کرتے ہیں۔
# اس میں سنت کی پیروی ہے۔
#اہل کتاب کی مخالفت ہے۔
# اس سے عبادت پر قوت حاصل ہوتی ہے۔
# چستی میں اضافہ ہوتا ہے۔
#بھوک کی وجہ سے متوقع بدخلقی سے نجات مل جاتی ہے۔
#اگر سحری کے وقت کوئی سائل آجائے تو صدقہ کرنے کا موقع مل جاتاہے۔
#قبولت دعاء کے اوقات میں ذکرودعاء کا موقع مل جاتاہے،
# شام کو کوئی روزہ کی نیت کرنا بھول گیا تو اسے نیت کرنے کا موقع مل جاتاہے۔[فتح الباري لابن حجر 4/ 140]
٭ سحری کھانے کی کوئی خاص دعا نہیں ہے ، سحری سے پہلے بس روزے کی نیت کرنی ہے اگر رات میں نیت نہ کی ہوتو۔
٭بعض لوگ سحری نہیں کھاتے، بعض لوگ رات کا کھانا سحری سمجھ کر کھاتے ہیں اور بعض لوگ آدھی رات میں اٹھ کے کھالینے کو سحری سمجھتے ہیں ۔ ان تمام طریقوں میں سحری کی سنت مفقود ہے ۔
٭ سحری کا صحیح وقت فجر سے کچھ پہلے ہے ۔
تسَحَّرْنا معَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم، ثم قام إلى الصلاةِ، قلتُ : كم كان بينَ الأذانِ والسُّحورِ ؟ . قال : قدْرَ خمسينَ آيةً (صحيح البخاري:1921)
ترجمہ: صحابی رسول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے لیے کھڑے ہوئے۔ میں نے پوچھا کہ سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا تو انہوں نے کہا کہ پچاس آیتیں (پڑھنے) کے موافق فاصلہ ہوتا تھا۔
٭ اگر کبھی سحری کھاتے کھاتے فجر کی اذان ہوجائے تو کھانا نہ چھوڑے بلکہ پلیٹ کا کھانا صاف کرلے ۔نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إذا سمعَ أحدُكُمُ النِّداءَ والإناءُ على يدِهِ ، فلا يَضعهُ حتَّى يقضيَ حاجتَهُ منهُ(صحيح أبي داود:2350)
ترجمہ: تم میں سے جب کوئی (فجر) کی اذان سنے اوربرتن اس کے ہاتھ میں ہوتو اسے رکھے نہیں بلکہ اپنی ضرورت پوری کرلے۔
اس میں دو باتیں دھیان دینے کے لائق ہیں ۔
اولا : اس طریقہ کو معمول نہ بنائے ۔
ثانیا: اس حدیث میں اس اذان کا ذکر ہے جوصحیح وقت پر ہو ۔ جن مساجد میں فجر کی اذان صحیح وقت پر نہیں ہوتی بلکہ تاخیر سے ہوتی ہےوہ اس حکم میں داخل نہیں۔
٭ سحری کے لئے طہارت شرط نہیں اس لئے اگر احتلام ہوگیا ہویا جماع کیا ہوتو اس حالت میں سحری کھاسکتے ہیں ۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ۔
أشهَدُ على رسولِ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم إنه كان لَيُصبِحُ جُنُبًا، من جِماعٍ غيرِ احتِلامٍ، ثم يصومُه . (صحيح البخاري:1931)
ترجمہ : میں گواہی دیتی ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم احتلام کے سبب سے نہیں بلکہ جماع کے سبب سے حالت جنابت میں صبح کرتے اور غسل کئے بغیر روزہ رکھ لیتے۔
تاہم صبح ہی غسل کرلے تاکہ فجر کی نماز جماعت سے ادا کرے ۔ اگر آنکھ لگ گئی فجر کے بعد دن میں بیدار ہوئے تو روزے پہ کچھ اثر نہیں پڑا ۔ فورا غسل کرلے اور فجر کی نماز ادا کرلے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے ۔
من نسي صلاةً أو نام عنها ، فكفارتُها أن يصليها إذا ذكرها(صحيح مسلم:684)
ترجمہ : جو نماز بھول جائے یا نماز سے سوجائے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے ادا کرلے۔

Maqbool Ahmed Salfi
About the Author: Maqbool Ahmed Salfi Read More Articles by Maqbool Ahmed Salfi: 315 Articles with 312538 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.