’ اسرائیل سے محبت ہے ہمارا اٹوٹ بندھن ہے ‘ ۔ امریکی
صدر ڈونلڈ ٹرمپ ۔ دیکھا جائے توعرب اسلامی امریکی کانفرنس روحانی طورپر
اسرائیل کی محبت میں ڈوبے ڈونلڈٹرمپ کے اسی سنہری فقرے کے گرد گھومتی ہے ۔
بظاہر امن اور دوستی کا پیغام لے کر پھرنے والا ٹرمپ بڑی مہارت سے اسلحہ
سپلائی کی مد میں عربو ں کی جیب سے 380ارب ڈالرلے اڑا ۔ امریکہ کا سب سے
امیر صدرڈونلڈ ٹرمپ دراصل ایک اچھا سیاستدان نہ سہی مگر کامیاب بزنس مین
ضرور ہے اس لئے تو وہ اپنا سودا بیچنے میں کامیاب رہا ۔ یوں سعودی عرب اور
امریکہ میں 380 ارب ڈالر کے مختلف تجارتی اور عسکری معاہدے ہوئے یہ دفاعی
معاہدے دراصل دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے کئے گئے ۔ آ ج مسلمانوں ( عربوں )
پر صدقے واری جانے والے اسی ٹرمپ نے 11مارچ 2016 کو CNN کو دیئے گئے
انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ اسلام ہم سے نفرت کرتا ہے‘ ۔ میں ذاتی طور پر
ٹرمپ کی اس بات سے بالکل اتفاق نہیں کرتا بلکہ حیر ت ہے کہ انہیں اس بات کا
علم ہی نہیں مسلمان تو امریکہ سے دلی محبت رکھتے ہیں اگر نہیں یقین تو ٹرمپ
آج ہی امریکہ کو گالیاں دینے والے مسلمانوں کو زرا فری ویزے جاری کر کے تو
دیکھے یقیناً ا مریکہ جانے کے لئے سب سے آگے لائن میں وہی کھڑیں نظر آئیں
گے کیونکہ منافقت میں ہمارا بھی کوئی ثانی نہیں ہم ایک طرف تو امریکہ کو
برا بھلا کہتے ہیں لیکن دوسرے طرف اسی امریکہ کے نیشنلٹی ہولڈر بننے کی
خواہش رکھتے ہیں اور امریکی ہمارے عقیدوں کی پختگی کو بخوبی جانتے ہیں ۔
ریاض کانفرنس میں ٹرمپ کی بدنیتی اور پاکستان کے لئے نفرت واضح طور پر
دیکھی اور محسوس کی جاسکتی تھی امریکی صدر نے ریاض میں عرب اسلامی کانفرنس
کے دوران اپنی تقریر میں ایک تو پاکستان کا نام لیناتک گوارا نہ کیااور
دوسرا ایٹمی طاقت رکھنے والے اس وطن ِ عزیز کے سربراہ کو تقریر کا موقع بھی
نہ دیا گیا ۔ نواز شریف کے ساتھ ایسا ہتک اور ذلت آمیز رویہ افسوسناک ہے
اور ہم اسکی شدید مذمت بھی کرتے ہیں لیکن یہ سب دربایوں کی خوشامد اور
خارجہ پالیسیوں کی ناکام حکمت ِ عملی کا نتیجہ ہے ۔اس موقع پر میزبان سعو
دی فرمانرواہ شاہ سلمان کا دوغلا رویہ بھی تکلیف دہ رہا۔سعودی عرب کی
پاکستان سے خفیہ ناراضگی تو دراصل یمن میں پاکستانی فوج بھیجنے کے انکار کی
وجہ سے ہے اور امریکہ اس لئے کینہ رکھتا ہے کہ اسکو ہمارے چین اور ترکی سے
بڑھتے ہوئے تعلقات ہضم نہیں ہو رہے ۔ اب کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ پانامہ
کیس کی وجہ سے وزیراعظم اپنا اخلاقی جواز کھو بیٹھے ہیں اور شاید اس لئے
انہیں تقریب میں اتنی یلیو نہ دی گئی لیکن میرے نزدیک یہ سب بکواس ہے
کیونکہ عالمی تعلقات و مفادات میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی اگر
بغور جائزہ لیں تووہاں باقی کون سے کوئی دودھ سے دھلے ہوئے گئے تھے ہر کوئی
ایک سے بڑھ کر ایک تھا۔ اس کانفرنس کے دولہے امریکی صدر ٹرمپ کی تو اپنی
عوام اس سے خوش نہیں ۔ ویسے تو ٹرمپ اور نوازشریف کی ایک قدر مشترک ہے کہ
ان دو نوں ممالک کی عوام اپنے سربراہوں سے ناخوش ہے ۔ چلیں ٹھیک ہے یہ بھی
برداشت کر لیتے ہیں کہ اس عرب اسلامی کانفرنس میں پاکستان کا نام نہیں لیا
اور نہ ہی اس کے سربراہ کو تقریر کا موقع دیا مگر یہ بات ناقابل ِ معافی
اور انتہائی تکلیف دہ ہے کہ ضرب ِ عضب اور ردالفساد جیسے کامیاب آپریشن
شروع کرکے دہشت گردی کے خلاف اس جنگ میں ہزاروں قیمتی جانوں کی قربانی دینے
والے پاکستان کو ٹرمپ نے قطعی طور پرنظر انداز کر دیااور بھارت کو دہشت
گردی کا شکار ملک قرار دے دیا۔ ویسے جس وقت ٹرمپ بھارت کو معصوم ، مظلوم
اور دہشت گردی کا شکار ملک قرار دے رہا تھا تو دوسری جانب اسی دن بھارتی
فوج 4 معصوم کشمیریوں کو شہید کر چکی تھی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس پلیٹ فارم
پر تو کیا امریکہ بھارت کی ہر موقع پر ہی حمایت کرتاآیا ہے لیکن پاکستان کے
ساتھ اس نے ہمیشہ منافقانہ پالیسی اختیار کی لیکن محترم قارئین یہ بات یاد
رکھیں کہ امریکہ لابی پاکستان تو کیا کسی بھی ملک کو تب تک اخلاقی یا مالی
کسی بھی طرح مفاد پہنچانے کا تصور بھی نہیں کرسکتی جب تک کہ اس میں اسکے
اپنا کوئی بڑا مقاصد شامل نہ ہوں۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نہ تو سعودی عرب کا کوئی
اتنا ہمدرد ہے اور نہ ہی امریکہ کی براہ راست ایران سے کوئی دشمنی ہے لیکن
چونکہ ایران اپنے حریف اسرائیل کی تباہی کا خواہشمند ہے اوراسرائیل آگے
امریکہ کا محبوب ہے تو امریکہ کسی طور بھی نہیں چاہے گا کہ اسرائیل پر کوئی
آنچ بھی آئے ۔ امریکہ صرف اسرائیل کو خوش کرنے کے لئے سعودی عرب کو ایران
کے خلاف استعمال کر رہاہے ۔یہ کانفرنس ایک رخ سے ایران مخالف اتحادہے۔ کفار
ہمیشہ سے یہ ہی تو چاہتا ہے مسلمان باہم ایک دوسرے کے ساتھ دست وگریباں
رہیں اور آپس میں ہی لڑمر کر اپنے وسائل بربادکرتے رہیں اور ٹرمپ جیسے انکی
اس لڑائی کا بھرپور فائدہ اٹھاتے رہیں ۔ سعودی فرمانرواہ شاہ سلمان کہتے
ہیں کہ ایران دوسرے ممالک میں مداخلت اور دہشتگردی کرتا ہے اب حیرانگی اس
بات پر ہے کہ اس اعلیٰ منصب پر فائز ہوکر بھی انہیں اس بات کا علم نہیں
یاکہ ان میں اتنی بصیرت نہیں کہ آج تک ایران نہیں بلکہ امریکہ ہی مسلم
ممالک کے ہر معاملے میں اپنی ٹانگ آڑا کر مسلم امہ کا بیڑہ غرق کرتا آیا ہے
۔ صرف ایک امریکہ ہی اگر د وسرے ممالک میں اپنی مداخلت بند کردے توساری
دنیا میں ویسے ہی امن آجائیگا کیونکہ ہر خطے میں چنگاری تو اسی کی لگائی
ہوئی ہے ۔ امریکہ پیدائشی طور پر مفاد پرست ذہنیت رکھنے والوں کا ملک ہے اب
صرف ایک لمحے کے لئے فرض کریں کہ امریکہ کا اسرائیل سے کوئی خاص تعلق نہ
ہوتا مطلب کہ ایران کی طرح براہ راست اس دوستی ہوتی اور نہ دشمنی ۔ یا
اسرائیل کی جگہ ایران ہوتا تو یہ ہی امریکہ بہادر آج ایران کے حق میں بیان
دے رہا ہوتا اور اسرائیل کو دہشتگرد ملک قرار دے دیتا ۔ بات یہ ہے کہ بین
الاقوامی تعلقات میں جذباتی رویوں کی کوئی اہمیت نہیں ہو تی اس میں ہمیشہ
صرف اپنے مفاد کو ترجیح دی جاتی ہے پروفیشنل سوچ کے ساتھ دور کا سوچا جاتا
ہے ۔ وہ فلاں ملک ہمارا دوست ہے ہم اس کے دوست ہیں یہ سب کی سب صرف رسمی
باتیں ہوتی ہیں اصل دوست’ مفاد‘ ہوتا ہے اب جسکی طرف جس کاجتنا بڑا مفاد
ہوتا ہے وہ ا سکاا تنا ہی بڑا دوست کہلوانا شروع ہو جاتا ہے۔
یہ وہی پاکستان ہے جسے امریکہ نے اپنے حریف روس کے خلاف اسے ٹشو پیپر کی
طرح استعمال کیا۔ 9/11کے بعد امریکہ نے جو سلوک اپنے ہی ملک میں مقیم
پاکستانی مسلمانوں کے ساتھ کیا وہ ہرگز نہیں بھلا سکتے ۔ امریکہ نے ا س
لمحے پاکستان کو بھی تنہا کرنے کی کوشیش کی دوسری طرف بھارت امریکہ کا
اسٹریٹجک پارٹنر بنا۔ امریکہ اور اسرائیل کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ پاکستان
خودمختار ریاست بن جائے بلکہ دونوں کی کوشیش ہے کہ یہ ہمیشہ ہمارا غلام اور
عدم ِ استحکام کا شکار ہی ر ہے ۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہمیں دشمنوں کی
چالوں سے ہوشیار رہنا ہوگا ۔
|