صدر کے فٹ پاتھ اور پتھارہ بازار

جہاں سے راہ گیروں کا گزرنا محال ہوتا ہے

صدر کا شمار کراچی کے قدیم ترین علاقے میں ہوتا ہے جو پریڈی اسٹریٹ (نیو ایم اے جناح روڈ) سے پاسپورٹ آفس اورفوارہ چوک تک ایک بڑے تجارتی مرکز کی شکل اختیار کرگیا ہے۔ شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں کئی بڑے بازار وجود میں آگئے ہیں جہاں دنیا بھر کی اشیائے ضرورت دستیاب ہیں جب کہ اس کے میلوں طویل فٹ پاتھوں پر پاکستان کا سب سے بڑاٹھیلے و پتھارے بازار آبادہے۔ 1839ء میں کراچی میں تعینات برطانوی فوج کےسپاہیوں کے لیے صدر سے متصل علاقے میں میں مختلف ناموں سے فوجی لائنز بنا کر ان میںرہائشی بیرکیں قائم کی گئ تھیں۔ان سپاہیوں کی روزمرہ کی خریداری کی ضرورتیں پوری کرنے لیے آرٹلری کیمپ کے علاقے میں جس بازارکا آغاز کیا گیا، وہ کچھ ہی عرصے بعدپورےکراچی میں ’’کیمپ بازار‘‘ کے نام سے مشہور ہو گیا اور شہر کے دور درازکے علاقوں سے لوگ اشیائے ضرورت کی خرید و فروخت کرنے یہاں آنے لگے۔اس بازار کی عوام میںپذیرائی دیکھتے ہوئے ہندوستان کی انگریز سرکار نے اسی علاقے سے متصل پریڈی اسٹریٹ پر ایک عظیم الشان مارکیٹ کی تعمیر کا منصوبہ بنایاجس کا ڈیزائن کراچی کے مشہور انجینئر مسٹر جیمز اسٹریچن نے تیار کیاتھا۔نومبر 1884 میں اس مارکیٹ کا سنگ بنیاد بمبئی کےگورنرسر جیمز فرگوسن نے اسی میدان میں رکھا، جہاں 27 سال قبل 1857میں ہندوستان پر انگریزوں کے قبضہ کے خلاف، بغاوت کی پاداش میں 21ویںرجمنٹ کے سپاہیوں کوبرطانوی سرکار نے توپوں کے آگے کھڑا کرکے اڑا دیا تھا جب کہ دیگر کوپھانسی گھاٹ بنا کر پھانسیاں بھی دی گئی تھیں۔ 1884میں برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ اپنی عمر کے پچیسویں سال میں داخل ہورہی تھیں اور ہندوستان بھر میں ان کی سلور جوبلی منانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، اس لیےبمبئی کے گورنر کی طرف سے انہیں سالگرہ کا تحفہ دینے کے لیے اس کا نام ایمپریس مارکیٹ رکھا گیا۔اس کی تعمیر پر ایک لاکھ پچپن ہزار روپے سے زائدخرچ ہوئے ۔21 مارچ 1889ء کو عمارت کی تعمیر مکمل ہونے پر ایک عظیم الشان تقریب کا انعقادکرکے اس کا افتتاح کیا گیا جس میں اس مارکیٹ کو ’’برٹش ایمپریس‘‘ کے نام سے موسوم کرنے کا اعلان کیاگیا۔اس کے افتتاح کے بعد کئی سالوں تک یہاں مقامی لوگوں کا داخلہ ممنوع رہا اور انہیں خرید و فروخت کی اجازت نہیں تھی، ایمپریس مارکیٹ کا تجارتی مرکز انگریزوں کے ہاتھ میں تھا اور وہی خریداربھی تھے۔ یہ عمارت یورپین طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ اسے جودھپورکے سرخ پتھروںسے تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کے ٹاور کی اونچائی 140 فٹ ہے جس کے چاروں جانب کلاک نصب کیے گئے ہیں، لیکن اس قدیم ورثے کی دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس کی سوئیاں طویل عرصے سے ساکت ہیں ۔ بعض جگہ سے یہ کلاک ٹوٹ بھی گیا ہے۔اس میں چارخوب صورت محراب نما گیلریاں ہیں، مضبوط ستونوں پر قائم اس عمارت میں 280دکانوں او اسٹالز کی جگہ بنائی گئی ہے ، جہاں پھل، گوشت اور سبزی فروخت ہوتی ہے۔ درمیان میں 130 فٹ لمبا اور 100 فٹ چوڑا کھلا صحن ہے۔ یہ عمارت 120 سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے اورامتداد زمانہ کا شکار ہونے کے باوجود آج بھی خوبصورتی اور پختگی کےلحاظ سے انفرادیت رکھتی ہے، اور کراچی شہر کی عظمت کی علامت بنی ہوئی ہے۔ اندرون و بیرون ملک کے سیاح جب کراچی آتے ہیں تو ایمپریس مارکیٹ کی دل کش تصاویر دیکھ کر صدر کے علاقے کا بھی رخ کرتے ہیں، لیکن فٹ پاتھوں پر پتھاروں، ٹھیلوں اور انسانی جنگل میں گھر کر وہ اس مارکیٹ کی اصل دل کشی دیکھنے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

ایمپریس مارکیٹ کے چاروں طرف کے فٹ پاتھ اور صحن میں ٹھیلے و پتھاروں کا ایک بڑا بازار قائم ہے جہاں نسوار، مسواک، پرانےلباس، سوتی کپڑے،خشک میوہ جات، موسمی اور بے موسمی پھل اور سبزیاں، گوشت اورمختلف لحمیاتی اشیا، ،دیسی نسخہ جات، چائے کی پتی، تلی ہوئی کلیجی اور پھیپھڑے، سیخوں پر لگے ہوئے مرغی کے بھنے ہوئےپر، ہمہ اقسام کے زندہ پرندے جن میں الّو اور شکرے تک شامل ہیں، کتّے، ہرن اور سانپ، نیولے تک باآسانی دستیاب ہیں جب کہ اس کے دونوں طرف، کٹرک اسٹریٹ کے سامنے اور جہانگیر پارک کے ساتھ، تمام فٹ پاٹھ تجاوزات سے گھرے ہوئے ہیں جہاں زیادہ تر فروٹ کے پتھارے اور ٹھیلے لگتے ہیں۔ایم اے جناح روڈ پر ٹریفک کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے صدر دواخانے سے مزار قائد تک نیو ایم اے جناح روڈ کی تعمیر کی گئی۔ اس کے راستے میں آنے والےسیکڑوں مکانوں کی ٹوٹ پھوٹ ہوئی اور ہزاروں نفوس پر مشتمل آبادی کا انخلا کرکے دوسرے علاقوںمیں منتقل کردیا گیا۔ سڑکوں پر سے غیرقانونی پارکنگ ختم کرنے اور ٹریفک کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے ایک وسیع و عریض عمارت میں کئی منزلہ پارکنگ پلازہ بنایا گیا ، لیکن مین روڈ، فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ ایریا میں پتھاروں کی وجہ سے حکومت کا یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوگیا ہے اور میر کرم علی تالپور روڈ سے لے کر داؤد پوتہ روڈاور آگے پارکنگ پلازہ تک ٹریفک جام کی وجہ سے لوگ گھنٹوں گاڑیوں کے ہجوم میں پھنسے رہتے ہیں۔ مختلف بازاروں ، اور شاپنگ سینٹرز کے علاوہ صدر کے تمام فٹ پاتھوں پر 15لاکھ ناجائز اسٹالز پر مشتمل پتھارہ بازار قائم ہے جس کے ساتھ ٹھیلے والے بھی نصف سڑک کو گھیر کرمکمل آزادی کے ساتھ اپنا کاروبار کرتے ہیں جب کہ راہگیروں کے لیے وہ ’’نو گو ایریا‘‘ بن جاتے ہیں اور ان کے ہجوم میں سے یہاں سے گزرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگر صبح کے وقت نیو ایم اے جناح روڈ سے عبداللہ ہارون روڈکے چوراہے تک سفر کیا جائے تو اس وقت ہجوم کم ہونے کی وجہ سے، ان فٹ پاتھوں پرلکڑی کےتختوں سے بنی گاڑیوں میں بیٹھے معذورگداگر،بچوں کو گود میں لے بیٹھی ہوئی بھکارنیں، بیلچہ، کدال ،پھاؤڑے، چھینی ہتھوڑی اور دیگر تعمیراتی آلات لیے ہوئے راج، مزدور اور رنگ و روغن کا سامان سامنے رکھے ہوئے گھروں میں رنگ کرنے والے بیٹھے ملیں گے جو روزی کے انتظار میں یہاں اس وقت تک بیٹھتے ہیں جب تک ان فٹ پاتھوں کے اصل ’’الاٹیز‘‘ اپنے تجارتی سامان سمیت وہاں نہیں آ جاتے۔ یہاں کاروبار کرنے والوں کے مطابق ان کے پتھاروں کی جگہ باقاعدہ کے ایم سی کا عملہ الاٹ کرتاہے جس کے ’’بیٹر‘‘ کو روزانہ 150روپے ادا کرنا پڑتے ہیں جب کہ تھانے والوں کی اجازت کے لیے پولیس کا بیٹر سو روپیہ یومیہ وصول کرتا ہے۔ پریڈی اسٹریٹ، داؤد پوتہ روڈ، مینسفیلڈ اسٹریٹ اور میر کرم علی تالپور روڈ کے فٹ پاتھ صبح کے اوقات میں منی ریستوران کی شکل میں ہوتے ہیں، جہاں بڑے بڑے چولہے رکھ کر کڑھائی میں پوریاں تلی جاتی ہیں، بڑے تووں پر پراٹھے بنتے ہیں، چائے کی کیتلیاں سجائی جاتی ہیں، حلوہ اورچنے و آلو کی سبزی کے تھال رکھے ہوتے ہیں اور انہی فٹ پاتھوں پر میز کرسی لگا کر گاہکوں کے ناشتے کی طلب پوری کی جاتی ہے۔ کیوں کہ صبح سویرے کورنگی، لانڈھی،ملیر اور دیگر علاقوں سے آنے والے لوگ اپنے دفاتر اور کاروباری مراکز جانے کے لیے صدربس اسٹاپ پر اترتے ہیں ، اس لیے اخبارات، مختلف النوع رسائل و جرائد کےا سٹالز، استعمال شدہ کپڑے، کوٹ، سوئٹروالے بھی انہی اوقات کو منتخب کرتے ہیں۔ اس وقت تک سڑکوں پر ٹریفک کی روانی بھی بہتر ہوتی ہے جب کہ فٹ پاتھوں پر بھی ہجوم کم ہوتا ہے۔ دس بجے کے بعد ان فٹ پاتھوں پر ہجوم بڑھنے کے ساتھ کاروباربھی تبدیل ہوجاتا ہے۔ صدر دواخانے کے سامنے نیو ایم اے جناح روڈ کے فٹ پاتھ ، اس کے سامنے گرین بیلٹ اور سینٹ پیٹرک کالج کی طرف سے آنے والی سڑک کے دونوں اطراف پرانے جوتے ، مختلف پرانی اشیا ، کپڑے، اور دیگر اشیا فروخت کرنے والوں کے پتھارے لگ جاتے ہیں جب کہ فروٹ کے ٹھیلے بھی یہاں لگنا شروع ہوجاتے ہیں اور دن گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ یہ فٹ پاتھ کے علاوہ ساری سڑک پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ ان ٹھیلوں اور پتھاروں پر اعلیٰ قسم کے غیر ملکی جوتے بکتے ہیں، جنہیں اگر دکانوں پر خریدنے جائیں تو وہاں ان کی قیمت 4ہزار روپے سے 15ہزار روپے تک ہوگی لیکن ان ٹھیلوں اور پتھاروں پر یہی جوتے 400روپے سے 800روپے تک میں دستیاب ہیں۔ یہاں ملیر اور لانڈھی سے آنے والی ویگنوں کا اڈہ بنا ہوا ہے جب لائنز ایریا کی جانب جانے والے فو ر سیٹر رکشے بھی یہیں سے چلتے ہیں۔ لیکن انہیں یہاں سے گزرنے کے لیے راستہ نہیں ملتا۔چند سال قبل صدر دواخانے کے ساتھ ملیر، کھوکھراپاراور قائد آباد کی جانب جانے والی کے ٹی سی کی ایکسپریس بسوں کا ٹرمینس بنا ہوا تھا لیکن اب وہ قصئہ پارینہ ہوچکا ہے اور اس کے ساتھ ایک اوپن ایئر مسافر خانہ بن گیا ہے۔

سیونتھ ڈے سے ایمپریس مارکیٹ کی جانب آنے والی سڑک کے اختتام پر چند دکانوں میں ایک تخت پر مختلف قیمتی الیکٹرونک اشیا جن میں گھڑیاں، ٹی وی سیٹ، سی ڈی پلیئر، ڈی وی ڈی، موبائل فون سجے ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ نسبتاً اونچی جگہ پر ایک شخص کھڑا ہوتا ہے۔ یہ کاروبار بھی صبح کے اوقات میں ہوتا ہے۔ مذکورہ شخص کے ہاتھ میں ایک مائیک ہوتا ہے اور وہ ساؤنڈ سسٹم پر ان قیمتی اشیا کی قیمت فروخت کے بارے میں بتاتا ہے۔ 24 انچ ٹیلیویژن سیٹ کی قیمت صرف 50 روپے سے 100روپے، سی ڈی اور ڈی وی ڈی پلیئرکی قیمت اس سے بھی کم بتاتا ہے۔ وہاں سے اپنے دفتر جانے کے لیے گزرنے والے، یہ پرُکشش اعلان سن کر وہاں ٹھہر جاتے ہیں، لیکن یہ ایک نیلام گھر ہے۔ ہجوم کو متوجہ پا کر مذکورہ شخص نیلامی کے اصول بتانا شروع کرتا ہے۔ اس کے سامنے رکھی میز پر چھوٹے چھوٹے ڈبے موجود ہیں جن میں مختلف اشیاء کے حوالے سے پرچیاں رکھی ہوئی ہیں۔ ابتدائی بولی 30، 20، 50 کی ہے اگر آپ صحیح ڈبے کا انتخاب کرلیں تو انعام کے حق دار بن جائیں گے۔لیکن یہ سارا کاروبار فریب اور دھوکا دہی پر مبنی ہوتا ہے جو دوپہر تک جاری رہتا ہے۔ دوپہر کے وقت یہاں ایک شخص لکڑی کی ایک بڑی سی مشین لے کر کھڑا ہوتا ہے جس میں سے وہ بادام،کھوپرا،سرسوں،دھنیا،تلی، زیتون اور دیگراشیا کا تیل نکال کر بڑی بڑی بوتلوں میں بھر کر رکھتا ہے ۔وہاں موجود لوگ ایمپریس مارکیٹ میں خشک میوہ جات کی دکانوں سے، پستہ بادام اور دیگراشیا کے بیج خرید کر لاتے ہیں اور مذکورہ شخص کو دیتے ہیں جو اسے لکٹری کےاس انسانی کولہومیں ڈال کرپیستا ہے ۔اس مشین میں بیجوں کو پیسے جانے پر ان میں سے نکلنے والا تیل ، کولہوکے مخصوص راستے کے ذریعےزمین پر رکھے ایک مرتبان میںگرتا ہے، جہاں سے وہ اسے چھان کر بوتل میں بھر کر مذکورہ خریدار کے حوالے کردیتا ہے۔مذکورہ شخص کے مطابق یہ اس کا خاندانی پیشہ ہے ۔ دیسی طریقے سے نکالا جانے والا تیل خالص اور مفید ہوتا ہے۔لوگ اس سے سرسوں ،کھوپرے ، سویا بین ،زیتون،دھنیا ، بادام اور دیگر ادویات کا تیل لوگ اس سے نکلوانے آتے ہیں وہ ایک کلو بیج کا تیل نکالنے کے 250روپے تک لیتا ہے ۔شام تک وہ روزانہ ہزار سے پندرہ سو روپے تک کما لیتا ہے ۔ دوپہر کے وقت ان فٹ پاتھوں پر دیسی بار بی کیو ، ریستوران اور منی فاسٹ فوڈ کے پتھارےوجود میں آجاتے ہیں جن میں تلی ہوئی کلیجی ، روٹی،سیخ کباب، گوشت کی بوٹیاں، آلو چھولے، دہی بڑے، لیموں اور دیگر سستے پھلوں کا رس، فروخت ہوتا ہے۔ سہ پہر کے وقت فٹ پاتھ سے نیچے اوڈھ قبیلے کی خواتین زمین پر چادر بچھا کر خشک میوہ جات فروخت کرتی ہیں جب کہ ان کے ساتھ ایک بڑی چادر پر چھوٹی چھوٹی شیشیوں میں رنگ برنگے عرقیات، روغن اورمعجون اور کشتہ جات سے بنی ہوئی ادویات اور سفوف رکھے ایک بڑے سے پرندے یا سانڈے کے ساتھ بیٹھا اپنے نسخہ جات کی افادیت بیان کرتا نظر آتا ے اورمزدور پیشہ لوگ اس کے گرد نیم دائرے کی صورت میں کھڑے ہوتے ہیں۔ میر کرم علی تالپور روڈ اورداؤد پوتہ روڈ کی فٹ پاتھوں پر بنی ہوئی دکانیں جو صرف 3X3کی ہوتی ہیں،فٹ پاتھ پر رکھے کاؤنٹر اور سامان کی وجہ سے لوگوں کو گزرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ دنیا بھر میں فٹ پاتھوں کا تصور سڑک کے اطراف پیدل چلنے والوں کی سہولت کے لیے ہے، لیکن ہمارے فٹ پاتھ شہری اداروں کی چشم پوشی کے باعث عوام کے لیے زحمت بنے ہوئے ہیں۔

سہ پہر تین بجے کے بعد ان پر دوسرے کاروباری اور تجارت پیشہ افراد براجمان ہوجاتے ہیں اور رات آٹھ بجے تک یہاں کی یہ صورت حال ہوتی ہے کہ ان پر پیدل سفر کرنے والوں کے لیے ایک قدم کے بعد دوسرا قدم رکھنا مشکل ہوتا ہے، نتیجتاً وہ فٹ پاتھ کی بہ نسبت گاڑیوں کے ہجوم کے درمیان سے سڑک پر چلنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایمپریس مارکیٹ کے بعد ریگل کی جانب جانے والی سڑک کی فٹ پاتھ پر پھلوں کا رس ، چاٹ ، شناختی کارڈ کی رنگین کاپیاں بنانے والوں،، بیٹری سیل، پلاسٹک و الیکٹرونک گھڑیاں، اور مختلف سامان بیچنے والوں کے اسٹال لگ جاتے ہیں۔صبح کے وقت عبداللہ ہارون روڈ پر جنرل پوسٹ آفس کے ساتھ منی آرڈر فارم بھرنے اور مکتوب نگار بیٹھے ہوتے ہیں جن کا کاروبار سہ پہر تک جاری رہتا ہے ۔ اس کے بعد یہاں ٹی شرٹس، ڈائریاں اورکپڑا فروخت کرنے والوں کے تخت لگ جاتے ہیں۔ بوہری بازار والی سڑک کے کونے پر نمکو سینٹرز، کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کا ہجوم رہتا ہے جب کہ یہاں پر ایک قدیم آئس کریم پارلر بھی واقع ہے جس کی میز کرسیاں فٹ پاتھ پر ہی ڈالی گئی ہیں۔ ریگل کے چوراہےپر الیکٹرونک اشیا کی دکانیں ہیں جن کے بھاری اسپیکر، ساؤنڈ سسٹم کے آلات، ٹی وی ، فریج کا ڈسپلے سینٹر ان فٹ پاتھوں پر ہی بنا دیا گیا ہے۔

رات کو ان فٹ پاتھوں پر تیل مالش کرنے والے بیٹھتے ہیں۔جو اپنا کاوبار ختم کرکے ایک بجے شب یہاں سے چلے جاتے ہیں جس کے بعد یہاں یا تو جرائم پیشہ لوگ ، یا پولیس و سی آئی اے اہل کار آکر بیٹھتے ہیں جو منشیات فروشوں اور دہشت گردوں کی تاک میں ہوتے ہیں ، جن کا گشتی کاروبار رات کے آخری پہر انہی فٹ پاتھوں پر عروج پر ہوتا ہے۔ یہاں بچھے تخت یا چبوتروںپر اکا دکا لوگ سوتے ہوئے ملیں گے ورنہ امن و امان کی صورت حال کی وجہ سےزیادہ تر لوگ یہاں شب بسری سے گریز کرتے ہیں۔ کچھ عشرے قبل جب ٹرانسپورٹ کی آسانی تھی اور ایمپریس مارکیٹ سے کراچی کے دیگر علاقوں کی جانب جانے والی گاڑیاں رات کے آخری پہر میں بھی باآسانی دستیاب ہوتی تھیں تب ان فٹ پاتھوں پر بھی راتیں جاگتی تھیں اور صبح پانج بجے تک یہاں پان کی دکانیں، ہوٹل، بن کباب والے کھڑے ہوتے تھے۔ مختلف دفاتر اور اخبارات سے رات کی ڈیوٹی ختم کرکے لوگ یہاں آکر بس کا انتظار کرتے تھے جس کی وجہ سے اس وقت اس فٹ پاتھ پر کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والوں کی بھی آمدنی ہوتی تھی، لیکن رات میں ٹرانسپورٹ سروس متاثر ہونے اور زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی سواری ہونے کی وجہ سے یہاں پر لوگوں کی آمد کم ہوگئی ہے جس کی وجہ سے ایک مشہور ہوٹل بند ہوگیااور اشیائے خوردونوش فروخت کرنے والوں کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 208 Articles with 193079 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.