ایک بادشاہ تھا جس کا تھا ایک وزیر۔ وزیر ہر کام میں اللہ
تعالیٰ پر بھروسہ اور توکل کرتا تھا۔
پھر ایک دن ایسا ہوا کہ بادشاہ کی ایک انگلی کٹی اور اس میں سے بہت سارا
خون بہا۔جب وزیر نے یہ منظر دیکھا تو کہا: اچھا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ خدا پر
بھروسہ کریں۔ جب بادشاہ نے یہ سنا تو بادشاہ کو غصہ آیا اور بولا: کیسے
اچھا ہوگا؟ میری انگلی سے خون بہہ رہا ہے اور تم کہہ رہے ہو اچھا ہوگا۔! اس
کے بعد بادشاہ نے حکم دیا کہ وزیر کو جیل بھیج دیا جائے۔ اس پر بھی وزیر نے
کہا: اچھا ہی ہوگا انشاء اللہ۔ اور پھر جیل چلا گیا۔
بادشاہ کی عادت تھی کہ ہر جمعہ کو شکار کھیلنے جایا کرتا تھا۔ اس جمعہ کو
بھی بادشاہ بڑے جنگل میں شکار کھیلنے گیا۔ لیکن کیا دیکھتا ہے کہ اس دفعہ
جنگل میں بہت سارے لوگ ہیں جو بت کی پوجا کر رہے ہیں۔ آج ان لوگوں کی عید
کا دن تھا۔ وہ لوگ اس تلاش میں تھے کہ کسی اجنبی کو اپنے بت کے لیے قربانی
کے طور پر پیش کریں۔ اچانک جب بادشاہ کو دیکھا تو اسے پکڑ کے لے آئے تاکہ
ذبح کر کے بت کے لیے قربانی پیش کی جائے۔ اچانک کسی نے دیکھا کہ بادشاہ کی
انگلی کٹی ہوئی ہے اور جس کی انگلی کٹی ہو وہ معیوب ہوتا ہےاور اس کی
قربانی نہیں ہوتی۔ لہذا بادشاہ کو چھوڑ دیا گیا۔
اس وقت بادشاہ کو اپنے وزیر کا جملہ یاد آگیا: سب کچھ اچھا ہوگا انشاء
اللہ۔
شکار سے واپس آکر بادشاہ نے وزیر کو جیل سے آزاد کیا اور اپنے پاس
بلایا۔اور اپنی ساری کہانی سنائی اور اعتراف کیا کہ واقعاً انگلی کا کٹنا
اس کے لیے اچھا تھا ورنہ اس کی قربانی کی جاتی۔ لیکن بادشاہ نے وزیرسے ایک
سوال پوچھا: جب تم جیل جا رہے تھے تو بھی کہہ رہے تھے کہ اچھا ہوگا انشاء
اللہ۔ جیل میں تمہارے ساتھ کیا اچھا ہوا؟
وزیر نے جواب دیا: میں آپ کا وزیر تھا اور ہمیشہ آپ کے ساتھ ہوتا تھا۔
اگر میں جیل نہ گیا ہوتا تو شکار کے دن بھی آپ کے ساتھ ہی ہوتا۔ اور چونکہ
میری انگلی کٹی ہوئی نہیں تھی وہ لوگ آپ کی جگہ مجھے اپنے بت کے لیے
قربانی چڑھاتے۔ پس جیل جانے کی وجہ سے میں بچ گیا۔
کہانی کا سبق: اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔
ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ |