انسانی جسم کااوسطا 55تا 66%حصہ پانی پر مشتمل ہے۔
جونہی اس سطح میں کمی ہوتی ہے دماغ میں موجود خلیے (جنہیں SFOکہتے ہیں)
متحرک ہو جاتے ہیں، اور پانی کی طلب کرتے ہیں۔جسے ہم ’’پیاس لگنا‘‘ کہتے
ہیں۔ جسم میں قدرتی عمل کے دوران پانی استعمال ہوتا ہے۔ اور زائد پانی
پیشاب یا پسینے کی شکل میں خارج ہوجاتا ہے۔اگریہ اخراج حد سے بڑھ جائے تو
کئی قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ مثلا دماغ کا سکڑنا، دل اور
پھیپھڑوں کے افعال میں کمی ، جلد کے مسائل، بلڈ پریشر کی زیادتی وغیرہ۔
درجہ حرارت کی زیادتی کے باعث بھی پانی جسم سے خارج ہوتا ہے جس سے پیاس
محسوس ہوتی ہے۔اور یہ کمی ٹھنڈے پانی کے استعمال سے پوری کی جا سکتی ہے۔
لیکن چونکہ روزہ کی حالت میں دن کے وقت پینے کے لیے پانی کا استعمال نہیں
کیا جا سکتا۔ جس کی بنا پر کئی لوگ پریشان ہوجاتے ہیں۔ درج ذیل اقدامات
کرنے سے پیاس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس مقصد کے لیے تین کاموں کی ضرورت ہوتی ہے۔ نمبر 1چند اشیاء کو بالکل
چھوڑنا پڑتا ہے۔ جبکہ نمبر2 بعض اشیاء کے استعمال میں کمی لانا پڑتی ہے۔
اورنمبر 3بعض اشیاء کا استعمال، مفید ہوتا ہے۔
جن چیزوں کو بالکل چھوڑنا ہے وہ درج ذیل ہیں:وہ غذائیں جو جسم سے پانی کی
سطح کم کرتی ہیں مثلامسالہ دار، نمکین اشیاء، چاول، کولڈ ڈرنک ، فاسٹ
فوڈز،بازاری جوسز اور شربت جن میں مصنوعی رنگ اور شوگر کی تعداد زیادہ ہو
بالکل استعمال نہ کریں۔ گرمی میں نہ نکلیں۔اگر مجبوری کی بنا پر گرمی میں
نکلنا پڑے توچھتری لے کرنکلیں یا سر پر گیلا تولیہ رکھ لیں۔ موٹر بائیک
چلاتے وقت منہ اور سر کو اچھی طرح لپیٹ لیں۔
جن اشیاء کے استعمال میں کمی لانا ہے وہ درج ذیل ہیں: سحری و افطاری میں
زیادہ ٹھنڈا پانی استعمال کرنے سے پرہیز کریں۔ میٹھے مشروبات پیاس نہیں
بجھاتے اس لیے ان کا استعمال کم کریں۔ دن کے وقت مناسب آرام کریں۔ نیند نہ
آئے تب بھی قیلولہ کی نیت سے تھوڑی دیر ضرور لیٹیں۔ اس سے ایک تو تھکاوٹ
نہیں ہوگی دوسرا سحری کے وقت جاگنا آسان ہو جائے گا۔ مرچ کا استعمال کم کرد
یں اس سے سینے میں جلن نہیں ہوگی۔ افطاری کے وقت تلی ہوئی اشیاء بہت کم
استعمال کریں۔ سحری کے بعد ہلکی پھلکی ورزش یا کم از کم دس پندرہ منٹ چہل
قدمی ضرور کر لیں۔
بعض وہ اشیاء جن کے استعمال سے انسانی جسم کو فائدہ ہوتا ہے نیز پیاس کی
شدت بھی کم ہوتی ہے وہ درج ذیل ہیں:
سحری کے وقت سادہ پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال، کیونکہ پانی کا کوئی نعم
البدل نہیں ہے۔ کوشش کریں کہ سحری دیر سے کھائیں اور کھانا کھانے سے پہلے
کافی مقدار میں پانی پی لیں تاکہ پانی کی کمی پوری ہوجائے۔ افطاری کے وقت
بھی کوشش کریں کہ مشروبات کی بجائے مناسب مقدار میں ہلکا ٹھندا پانی
استعمال کریں۔ اور پانی سے بھرپور سبزیاں اور پھل استعمال کریں۔ روزانہ
مردوں کے لیے 2.50 سے 3.7لیٹر اور عورتوں کے لیے 2سے2.70لیٹر پانی پینا
ضروری ہوتا ہے۔اگر ہر وقت منہ سے بدبو آتی رہے، سردرد، قبض کی شکایت، پیشاب
کی رنگت گہری ہونا، تھکاوٹ، جلد کی خشکی اور مسلز میں اکڑاؤ پیدا ہو تو
سمجھ لینا چاہیے کہ جسم میں پانی کی مقدار کم ہو گئی ہے۔
افطاری کے وقت گھر کے بنے مشروبات زیادہ استعمال کریں۔ مثلا بادام کی
سردائی، جو کا ستو، لیموں کی سکنجبین، کچی یا پکی لسی، گنے کا رَو، املی
آلو بخارے کا شربت، آم، سیب یا کیلے کا ملک شیک اور شربت فالسہ وغیرہ۔ نیز
گنے کے رس میں اگر لیموں، پودینہ، ادرک اور سیاہ نمک شامل کر لیں تو ذائقہ
اور لطف دوبالا ہو جاتا ہے نیز گرمی میں تقویت کا باعث بھی ہوتا ہے۔ بعض
لوگ سحری کے وقت تخم بلنگو اور دیسی شکر ہم وزن لے کر شربت بناتے ہیں اور
گھونٹ گھونٹ پیتے ہیں جس کی بنا پر سارا دن ان کی گرمی سے حفاظت رہتی ہے۔
اسی طرح دودھ، دہی، کھیرا اور تربوز کا استعمال بھی پیاس کی شدت کو کم کرتا
ہے۔ شربت انار، صندل اور شربت بنفشہ کا استعمال بھی گرمی سے پیدا ہونے والے
عوارض سے بچاتا ہے۔ بعض لوگ پیاس کی شدت کم کرنے کے لیے درج ذیل ٹوٹکہ
بتاتے ہیں۔ کہ تخم خرفہ کچل کر دہی میں بھگو دیں۔ اور پھر خشک کر لیں۔ تین
بار اسی طرح بھگوئیں اور خشک کریں۔ اور سفوف بنا کر کسی شیشی میں رکھ دیں۔
روزانہ اس سے ایک چمچ استعمال کریں۔ ان شاء اﷲ پیاس کی شدت ختم ہو جائے گی۔
کچھ لوگ کھجور کی نبیذ استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ نیز دودھ میں گوند
کتیرہ اور تخم بلنگو ملا کر پینے سے بھی پیاس کی شدت میں کمی آتی ہے۔ اسی
طرح سبز چائے کا قہوہ جس میں پودینہ اور سبز الائچی ملی ہوئی ہو پینے سے
بھی پیاس کی شدت کم ہو جاتی ہے۔
ان سب ٹوٹکوں سے زیادہ اﷲ تعالی کا ذکر مفید ہے۔ یہ بھی بھوک اور پیاس کی
شدت کو کم کرتا ہے۔ حدیث مبارکہ کی رُو سے دجال آنے کے وقت مسلمانوں کو
خوراک کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اس وقت ان کی خوراک اﷲ تعالی کا ذکر
ہوگا۔(مشکوۃ)
|