انسانی زندگی اگرچہ آس و یاس اور غم و حسرت کی دھوپ
چھاؤں سے عبارت ہے ، لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ غم
کا وجود بھی احساسِ مسرت کا سبب ہوتا ہے ۔ انسان کی فطرت بھی عجیب ہے ، اُس
کی حرص و ہوس کا عالم یہ ہے کہ وہ اپنی ساری زندگی راحت کے غم میں ختم
کردیتا ہے ۔ اُس کی ناشکری اور کفرانِ نعمت کا حال یہ ہے کہ وہ اُس کی نظر
ہمیشہ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں پر رہتی ہے ۔ زندگی کی کروڑوں نعمتوں اور
ہزاروں رحمتوں کی ٹھنڈی اور یخ بستہ چھاؤں میں اگر اسے کبھی کبھار زمانے کی
سختیوں اور تلخیوں کی تپش اور گرمائش محسوس ہوتو وہ اﷲ تعالیٰ کی ان تمام
نعمتوں اور راحتوں کو یکسر بھلا کر مصائب زمانہ کا واویلا اور ابتلاء و
آزمائش کا رونا رونے لگ جاتا ہے ۔ بلا شبہ ایسے لوگ زندگی کی حقیقی خوشیوں
اور ابدی مسرتوں سے ہمیشہ محروم رہتے ہیں ، اُن کی زبان پر ہر سو برستی اﷲ
تعالیٰ کی اَن گنت نعمتوں اور بے شمار راحتوں کی بہار میں بھی یہ شکوہ رہتا
ہے کہ
تمام غنچہ و گل داغِ دل بنے کیفیؔ
خزاں نصیب بہاروں سے کیا لیا میں نے؟
لیکن اس کے بالکل برعکس دُنیا میں کچھ ایسے اﷲ تعالیٰ کے نیک اور شکر گزار
بندے بھی ہیں کہ جن کے بدن کا رُواں رُواں ہر لمحہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں اور
راحتوں کا شکرادا کرنے میں مگن رہتا ہے ، اور انہوں نے کانٹوں میں بھی
گلزار کھلا رکھا ہوتا ہے۔ ایسے فنا فی اﷲ اور اہل اﷲ لوگوں کی بھی کچھ کمی
نہیں ، بلکہ اسلام کی شان دار لہلہاتی تاریخ میں اُن کی ایسی ایمان پر ور
اور قابل تقلید داستانیں قدم قدم پر بکھری پڑی ہیں ۔
یہ زمانۂ خیر القرون ہے ۔عبد اﷲ بن محمد جہادی مہم کے سلسلے میں مصر کے ایک
ساحلی علاقے میں مقیم ہیں ، ٹہلتے ٹہلتے ایک بار وہ ساحلِ سمندر کی طرف نکل
پڑتے ہیں ، کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں ایک خیمہ تنا ہوا ہے ، جس میں ہاتھ پاؤں
سے معذور اور آنکھوں کی بینائی سے محروم ایک شخص اپنی حیاتِ مستعار کے آخری
ہچکولے کھا رہا ہے ، اُس کے تن بدن میں صرف ایک زبان ہے جو صحیح و سالم ہے
، باقی اُس کا سارا بدن زندگی کے تلخ تھپیڑوں کی نذر ہوچکا ہے ، لیکن اس کے
باوجود وہ اپنی زبان سے کہہ رہا ہے : ’’اے میرے رب ! مجھے اپنی نعمتوں پر
شکر اداء کرنے کی توفیق عطا فرما یئے ! مجھے آپ نے اپنی مخلوق میں سے بہت
سوں پر فضیلت اور فوقیت بخشی ہے ، لہٰذااس فضیلت اور فوقیت پر مجھے اپنی
حمد و ثناء بیان کرنے کی توفیق عطا فرمایئے! ۔‘‘
عبد اﷲ نے جب یہ دُعاء سنی تو انہیں بڑے حیرت ہوئی کہ ایک آدمی ہاتھ پاؤں
سے معذور ہے ، آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے ، اس کا جسم زندگی کے نشیب و
فراز سے گزر گزر کر خزاں نصیب بڑھاپے کی نذر ہوچکا ہے ، جس پر فرحت و تازگی
کا کوئی اثر باقی نہیں ہے …… ہاں! بڑھاپا انسانی زندگی کی رونقوں کا
قبرستان ہوتا ہے ، یہ مراحل حیات کے پت جھڑ کا ایک ایسا موسم ہوتا ہے جہاں
شگفتگی کا ایک ایک پتہ بوسیدہ ہوکر خزاں نصیب ہواؤں کی نذر ہوجاتا ہے ،
بڑھاپے کی بے بسیاں صحراء کی تیز دھوپ کی طرح انسان کو ستاتی اور اُس کی
سختیاں و تلخیاں انسان کے بدن کے روئے روئے کو بے کل کیے رکھتی ہیں ۔
عبد اﷲ نے جب انہیں ایسی حالت میں بھی اپنے رب کی نعمتوں پر شکر ادا کرتے
دیکھا تو وہ ان کے قریب آئے ، علیک سلیک کیا اور پوچھا: ’’بڑے میاں ! آپ اﷲ
تعالیٰ کی کس نعمت اور فوقیت پر اُس کا شکر اور اُص کی حمد و ثناء کی توفیق
کے خواست گار ہیں۔‘‘ بڑے میاں نے جواب دیا : ’’تمہیں کیا معلوم میرے رب کا
میرے ساتھ کیا معاملہ ہے ؟ بخدا! اگر وہ آسمان سے آگ برسا کر مجھے راکھ
کردے ، پہاڑوں کو حکم دے کر مجھے کچلوادے سمندروں کو حکم دے کر مجھے غرق
کروادے ، زمین کو حکم دے کر مجھے نگلوا دے تو آپ ہی بتائیں میں کیا کرسکتا
ہوں ؟ میرے جسم ناتواں میں صرف زبان کی اس بے بہا نعمت کو تو دیکھئے! کہ یہ
سالم ہے ، کیا صرف اس ایک نعمت کا میں زندگی بھر شکر ادا کرسکتا ہوں؟؟؟۔‘‘
اس کے بعد بڑے میاں فرمانے لگے: ’’میرا ایک چھوٹا سا بیٹا ہے جو میری خدمت
اور خبر گیری کرتا ہے ، خود میں معذور ہوں ، میری زندگی کی ضروریات اُسی
ایک کے سہارے سے پوری ہوتی ہیں ، لیکن وہ تین دن سے غائب ہے ، معلوم نہیں
کہاں ہے آپ اس کا پتہ کرلیں تو عین نوازش ہوگی۔‘‘
ایسے صابر و شاکر اور معذور و محتاج بوڑھے انسان کی خدمت سے بڑھ کر اور
سعادت کیا ہوسکتی ہے ؟ عبد اﷲ نے بیابان میں اُس کی تلاش شروع کی ، تو یہ
درد ناک منظر دیکھا کہ مٹی کے دو تودوں کے درمیان ایک نوجوان چاند جیسے
ٹکڑے کی بے گور و کفن لاش پڑی ہوئی ہے ، جسے جگہ جگہ سے درندوں اور پرندوں
نے نوچ رکھا ہے ، یہ اِنہی بڑے میاں کے بیٹے کی لاش تھی ، اِس معصوم کی لاش
اس طرح بے گور و کفن دیکھ کر عبد اﷲ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور یہ فکر
لاحق ہوگئی کہ اس کے معذور والد کو اس الم ناک حادثے کی اطلاع کیسے کروں گا
؟ لیکن عبد اﷲ اُس کے والد کے پاس گئے اور ایک لمبی تمہید کے بعد انہیں
بیٹے کی اس وحشت ناک موت کی اطلاع کردی ۔ بیٹے کی اس طرح کی موت سے کون
پتھر دل باپ ہوگا جس کا جگرٹکڑے ٹکڑے نہ ہوجاتا ہو؟ لیکن
جائز نہیں اندیشۂ جاں عشق میں اے دل !
ہشیار! کہ یہ مسلکِ تسلیم و رضا ہے
بیٹے کے اس حادثۂ فاجعہ کی الم ناک خبر سن کر بوڑھے باپ کی آنکھوں سے آنسو
جاری ہوگئے اور دل و دماغ پر غموں کے بادل چھانے لگے ، لیکن آپ نے شکوہ و
شکایت کی زبان استعمال کرنے کے بجائے اﷲ تعالیٰ سے یوں ہم کلام ہوئے :
’’حمد و ستائش اُس ذات کے لئے ہے جس نے میری اولاد کو اپنا نافرمان نہیں
پیدا کیا اور اُسے جہنم کا ایندھن بنانے سے بچئے رکھا!‘‘ پھر انا ﷲ …… الخ
پڑھا اور ایک زور دار چیخ ماری ، اور جان جاں آفریں کے سپرد کردی کہ
اب اے خیالِ یار ! نہیں تاب ضبط کی
بس ! اے فروغِ برقِ تجلی کہ جل گئے
اب کیا ستائیں گی ہمیں دوراں کی گردشیں ؟
ہم اب حدودِ سود و زیاں سے نکل گئے
ان کی اس طرح اچانک موت پر عبد اﷲ کے ضبط کے سارے بند ٹوٹ گئے اور وہ پھوٹ
پھوٹ کر رونے لگے ، لوگوں سے پوچھا کہ یہ کون تھے، ان کا تعارف کیا ہے؟
انہوں نے کہا : ’’آپ انہیں نہیں جانتے؟‘‘ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے
سچے عاشق اور حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کے شاگرد ، مشہور محدث حضرت ابو
قلابہ رضی اﷲ عنہ ہیں۔‘‘
|