۔علامہ ابن رجب حنبلی نے بعض اسلاف کرام سے نقل کیا
انھوں نے کہا :ہم تک روایت پہنچی کے کل بروز حشرکثرت سے روزہ رکھنے والوں
کے لیے دستر خوان بچھایا جائے گاوہ اس پرکھاتے ہوں گے جب کے لوگ حساب کتاب
میں مبتلا ہوں گے۔تو وہ عرض کریں گے یا رب، ہم حساب دے رہیں ہیں جبکہ وہ
کھانا تناول کر رہیں ہیں(ایسا کیوں)،تو انھیں کہا جائے گا : وہ لوگ ہمیشہ
روزہ دار رہتے تھے جبکہ تم لوگ بے روزہ ہوتے ،اور وہ راتوں کو قیام کرتے
تھے جبکہ تم لوگ سوتے رہتے تھے اور ایک جگہ علامہ ابن رجب حنبلی لطائف
المعارف میں لکھتے ہیں عن الحسن انہ قال:تقول الحوراء لولی اللہ وھو متکیئ
معھا علی نھر الخمرفی الجنۃ تعاطیہ الکاس فی انعم عیشۃ، اتدری ای یوم
زوجنیک اللہ؟انہ نظر الیک فی یوم صائف بعید ما بین الطرفین ،وانت فی ظماء
ھاجرۃ من جھد العطش ،فباھی بک الملائکۃوقال :انظروالی عبدی ،ترک زوجتہ
ولذتہ وطعامہ وشرابہ من اجلی رغبۃ فیما عندی اشھدو انّی قد غفرت لہ فغفر لک
یومئذ وزوجنیک(لطائف المعارف،٥٥٢)حضرت حسن سے مروی ہے فرمایا: حور عین جنت
میں اللہ کے ولی سے کہے گی اس حالت میں کہ وہ اس کے ساتھ نہر خمر پر تکیہ
لگائے بیٹھے ہونگے اور اللہ کی بہترین نعمت شراب طہور کے پیالوں سے لطف
اندوز ہوتے ہونگے :کیا آپ جانتے ہیں اللہ تعالی نے کس دن میرا نکاح آپ سے
کیا ؟اس نے آپ کی طرف نظر رحمت فرمائی جب آپ عین دوپہر کے وقت گرمی کے دن
میں سخت گرمی کی پیاس کو برداشت کررہے تھے تو اللہ رب العزت نے فرشتوں میں
تم پر فخر فرمایااور کہا:میرے بندے کو دیکھو،اس نے میری خاطر اپنی بیوی اس
کی لذت اور کھانے پینے کو ترک کردیا ہے ،میرے پاس کی نعمتوں کی چاہ
میں،گواہ ہو جاو،میں نے اس کی مغفرت فرمادی،تو اس دن اللہ رب العزت نے
تمھاری مغفرت فرمائی اورمیرا تم سے نکاح فرمایا۔
دنیا میں لوگ آج فانی لذتوں کو پانے کےلیے نا جانےکیا کیا جتن کرتے ہیں
حالانکہ یہ دنیا تو آخرت کی کھیتی ہے الدنیا مزرعۃ الاخرۃ جو فصل یہاں بوئی
جائے گی اسی کا پھل کل اخروی زندگی میں حاصل ہوگا ،اسی لیے مقبولین کا طرز
عمل یہ ہوتا ہیکہ وہ نعمتوں کے طالب نہیں بلکہ رب نعمت کی رضا کے طالب ہوتے
ہیں اور اس کی رضا جوئی میں عبادتوں کے اندر انھیں وہ لذت ملتی ہیکہ آخری
وقت ہنگام رخصت بھی انھیں ان محنت ومشقت والی عبادتوں کے اب دنیاوی زندگی
میں مزید لطف نا اٹھا پانے کا غم ہوتا تھااوراس پر وہ افسوس وغم کا اظھار
کیا کرتے تھے اسی لیےعابدوں نے اپنی موت کے وقت اگر کسی چیز کے چھوٹ جانے
پراظھار افسوس کیا ہے تو وہ (ظماء الھواجر) سخت گرمی کی پیاس یعنی ان گرمی
کی سخت پیاس کے دنوں میں روزہ کا عمل نا پانے پر ہے۔عن قتادۃ ان عامر بن
قیس لما حضرہ الموت جعل یبکی، فقیل لہ ما یبکیک؟قال؛ ما ابکی جزعا من الموت
ولا حرصاعلی الدنیا ولکن ابکی علی ظمأالھواجروعلی قیام اللیل فی الشتاء(ابن
المبارک،ص٥٩،شعب الایمان٤١٤،٣) حضرت قتادہ روایت کرتے ہیں کہ جب عامر بن
قیس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ رونے لگے ،لوگوں نے پوچھا
کون سی چیز آپ کے رونے کا سبب ہے؟آپ نے فرمایا: میں موت کے خوف ،یا دنیا کی
حرص میں نہیں رو رہا،بلکہ میں سخت گرمی کی پیاس (روزہ) اور سردی کی راتوں
میں قیام اللیل کے چھوٹ جانے پر رو رہا ہوں۔حلیۃ الاولیا میں اور کتاب
الزھد میں ہے کہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنی وفات کے وقت کہنے لگے
:موت ،آخری ملاقاتی کوخوش آمدید ایسی محبوب جو ضرورت پر آئی۔ اے اللہ میں
تیرا خوف رکھتا تھالیکن آ ج تجھ سے امید کرتا ہوں ۔الٰہی تو جانتاہے میں
دنیا سے اس لیے محبت نہیں کرتا تھا کہ اس میں نہریں جاری کروں یاباغ لگاوں
لیکن سخت پیاس والے(سخت گرمی کے دنوں کے روزے)، مشقت کے اوقات برداشت کرنے
کے لیے محبت کرتا تھا۔عن سعید بن جبیر قال لما اصیب ابن عمر قال: ماترکت
خلفی شیأ من الدنیا آسی علیہ غیر ظماء الھواجروغیر مشی الی الصلاۃ (ابن ابی
شیبۃ،٢٣٠،٧)حضرت سعید بن جبیررضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ کے وفات کا وقت آیا تو فرمانے لگے: میں دنیا میں اپنے
پیچھے کچھ بھی افسوس کرنے کے لائق نہیں چھوڑ جارہا ہوں سوائے سخت گرمی کے
روزوں کی پیاس نا پانے اور نمازکی طرف چلنا چھوٹ جانے کے۔ امام احمد کتاب
الزھد میں ذکر کرتے ہیں عن ابی بکر بن حفص قال: ذکر لی ان ابا بکرکان یصوم
الصیف ویفطر فی الشتائ(کتاب الزھد،١١٢)۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی
عادت تھی کہ وہ گرمی کے دنوں میں روزہ رکھتے اور سردی کے دنوں میں بغیر
روزہ کے رہتے تھے۔ حتی کے بعض اسلاف کرام کی تمنا ہی یہی رہتی تھی کہ ہمیں
عبادتوں میں زیادہ سے زیادہ جہدوریاضت اور محنت ومشقت اٹھانا پڑے اس کی وجہ
بیان کرتے ہوئے علامہ ابن رجب حنبلی لطائف المعارف میں لکھتے ہیں وقال ابن
رجب فی اللطائف :کانت بعض الصالحات تتوخی اشدالایام حرا فتصومہ ،فیقال لھا
فی ذلک ،فتقول :ان السعراذا رخص اشتراہ کل احد،تشیر الی انھا لا تؤثر الا
العمل الذی لا یقدر علیہ الا قلیل من الناس،لشدتہ علیہم وھذا من علو
الھمۃ(لطائف المعارف،٥٥١) کچھ سلف صالحین کی یہ عادت تھی کہ روزہ رکھنے
کےلیے گرمی کے دنوں کی تلاش میں رہتے تھے ان سے اس کے بارے میں پوچھا گیا
تو فرمایا :قیمت جب کم ہو جاتی ہے تو ہر کوئی خرید لیتا ہے، اس میں اس بات
کی طرف اشارہ تھا کہ وہی عمل مؤثر ہوتا ہے جس پر کم لوگ اس عمل میں سختی کے
سبب سے قابو پا سکیں۔اللہ اکبر یہ تھا عبادتوں میں ان کا بلندئ ہمت وکمال
کا معاملہ ان سے سبق زاویہ حیات کو منور کردے گا (جاری) |