’’روزہ‘‘ لفظ’’روز‘‘ سے نکلاہے ۔ ’’روز‘‘ فارسی زبان کا
لفظ ہے جس کے معنی ’’دن‘‘ کے ہیں چونکہ روزہ دن میں ہوتا ہے اس لئے اسے
روزہ کہتے ہیں۔ روزے کو عربی میں’’صوم‘‘ کہتے ہیں۔ علامہ ابن منظور افریقی
کے مطابق ’’صوم‘‘ کسی چیز سے رکنے، کسی کام سے رکنے ، اسے ترک کرنے، چھوڑ
دینے یا چپ رہنے کو کہتے ہیں۔ ’’صوم‘‘ اس عربی نسل کے گھوڑے کو بھی کہتے
ہیں کہ جسے بھوکا پیاسا رکھ کر جنگ کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ ’’صوم‘‘ کی
جمع ’’صیام‘‘ ہے اور روزے دار کو عربی میں ’’صائم‘‘ کہتے ہیں چونکہ وہ شخص
اپنے آپ کو کھانے پینے کے عمل سے دور کر دیتاہے جو شخص بات چیت کرنا چھوڑ
دے اسے بھی’’صائم‘‘ کہتے ہیں۔ علامہ خوازمی کہتے ہیں کہ ’’شریعت‘‘ میں صبح
صادق کے وقت سے لیکر غروب آفتاب تک کچھ نہ کھانے پینے کا نام روزہ ہے۔ ‘‘
روزے کی عظمت کا اندازہ: یہ تمام انبیاء کی تعلیمات کا لازمی حصہ رہا ہے
اور اول تا آخر یہ فرض عبادت رہی ہے حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے میں ہر
مہینے کی 14,13اور 15تاریخ کے روزے فرض تھے ۔ حضر ت موسیٰ ؑ کی امت (یہودیوں)
پر 40دن کے روزے اور حضرت عیسیٰ ؑ کی امت (عیسائیوں) پر بھی 40دن کے روزے
فرض تھے۔ قریش مکہ ایام جاہلیت میں 10محرم کو اس لئے روزہ رکھتے تھے کیونکہ
خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا او ر مدینہ میں یہود اس لئے رکھتے کہ
اس دن اﷲ تعالیٰ نے قوم بنی اسرائیل ؑ کو فرعون سے نجات دی تھی۔
فرضیت روزہ: ہجرت کے 18ماہ بعد یکم رمضان سن 2ہجری کو روزہ (مدینہ میں) فرض
ہوا۔
شرائط: عاقل ، بالغ، مسلمان ، روزے کی فرضیت کا علم، تندرست ہو، وطن میں
مقیم ہو۔
روزے کی اقسام: (1): فرض روزے: رمضان کے ، قضاء رمضان کے ، کفارہ قتل،
کفارہ قسم حالت احرام میں شکا ر کے بدلے کے روزے اور احرام کے منافی کام
کرنے پر فدیہ کے روزے فرض ہیں۔
(2) سنت روزے: نویں اور دسویں محرم کے روزے سنت ہیں۔
(3)مستحب روزے: ا یام بیض کے روزے مستحب ہیں۔ (ہر وہ روزہ مستحب ہے جس کا
ثبوت سنت ہے ۔ جیسے عرفہ 9ذی الحج کا روزہ ( داؤدی روزے وغیرہ )
(4)نفل روزے: جن دنوں میں روزہ رکھنا فرض اور مکروہ نہیں ان دنوں کے روزے
نفلی ہیں۔
(5)مکروہ تنذیہی: صرف دسویں محرم کا روزہ مکروہ تنذیہی ہے ۔
(6)مکروہ تحریمی: ا یام تشریق اور عیدین کا روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے ۔
روزے کے تین بڑے مقاصد ہیں :۔(1)پیغمبر اسلام کی پیروی (2)شکر گزاری
(3)تقویٰ
فوائد وثمرات: (1)گناہوں کی ڈھال(2)ضبط ِ نفس(3)اخلاق حسنہ (4)ہمدردی وغم
خواری(5)طبعی فوائد
(6)اجربے حساب
1۔ روزے کے دوران جب خو ن میں غذائی مادے کم ترین سطح پر ہوتے ہیں تو ہڈیوں
کا گردہ حرکت پذیر ہو جا تا ہے اس کے نتیجے میں کمزور لوگ روزہ رکھ کر
آسانی سے اپنے اندر زیادہ خون پیدا کر سکتے ہیں۔ 2۔ دوران خون ہر روزے کی
حالت میں یہ اثر ہوتا ہے کہ خون کا دباؤ ہمیشہ کم سطح پر ہوتا ہے ۔ شریانوں
کی دیواروں پر چربی یا دیگر اجزاء جمے ہوتے ہیں خون میں تحلیل ہوجاتے ہیں
او ر شریانوں کے سکڑنے کا خطرہ نہیں رہتا۔ 3۔ قرآن پاک میں سورۃ البقرۃ کی
آیت نمبر381سے 781تک روزے کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ:۔ (1)اے ایمان والو! فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسا کہ تم
سے پہلے لوگوں پر ، تاکہ ہم پرہیز گار ہو جاؤ۔ (البقرۃ) (2)صابر (روزے دار
) کوبے حساب اجر ملے گا (سورۃ زمر آیت 10) (3) حدیث قدسی ہے ’’ روزہ میرے
لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دونگا (4)سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے (رمضان
المبارک ) کو پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے
احادیث نبویؐ ہے : ۱۔ روزہ ڈھال ہے ۔ (مسلم ج ۱) ۲۔ کتنے ہی روزے دار ہیں
جن کے پلے اپنے روزے سے پیاس کے سوا کچھ نہیں پڑتا (دارمی شریف ) ۳۔ روزہ
شہوت کوتوڑنے اور کم کرنے کے لئے بہترین علاج ہے (بخاری) ۴۔ ہر شے کی زکوۃ
ہے اور بدن کی زکوۃ روز ہ ہے۵۔ روز رکھاکرو تندرست رہو گے ۶۔ افطار کے وقت
روزہ دار کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔ ۷۔ اگر لوگوں کو روزہ رکھنے کی حقیقت
(فضیلت ) معلوم ہو جائے تو میری امت یہ تمنا کرنے لگے کہ پور ا سال ہی
رمضان ہو۸۔ ہلا ک ہوا وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا اور پھر
بھی اس کی مغفرت نہ ہوئی۹۔ روزے دار کے منہ کی بدبو اﷲ تعالیٰ کے نزدیک مشک
کی خوشبو سے بھی زیادہ ہے ۔ ۱۰۔ رمضان المبار ک میں ہر نفل کا ثواب فرض کے
برابر اور فرض کاستر گنا زیادہ ہوتا ہے۔۱۱۔ جس نے رمضان کے روزے محض ا ﷲ کے
واسطے ثواب سمجھ کر رکھے تو اس کے سب پچھلے گناہ بخش دئیے جائیں گے ۔ (مشکوۃ)
رمضان کو تین عشروں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔پہلا عشرہ رحمت، دوسر امغفرت او
ر تیسرا دوزخ سے آزاد ی کا ہے۔
رمضان اسلامی مہینوں میں سے نواں ہے لیکن گیارہ مہینوں کا سردار مہینہ ہے ۔
صحفِ ابراہیم ، تورات ، زبور، انجیل اور قرآن مجید سب اسی مہینے میں نازل
ہوئیں ۔ روزے دار جنت میں ایک خاص دروازے ’’ریان‘‘ سے داخل ہونگے۔
رمضان کے آخری عشرے میں ایک طاق رات آتی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا سب سے
زیادہ ثواب ہے اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں۔ سورۃ القدر میں یہ لفظ تین مرتبہ
آیاہے اور حروف کی تعداد اس لفظ میں 9ہے ۔ 27=3x9 ہوتے ہیں اس لئے علماء کا
اتفاق ہے کہ یہ 27ویں رات ہے یہ رات ہزار مہینوں سے بھی بہترہے ۔ |