شب قدر ایک عظیم رات

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
امت خیر الانام کو اﷲ تعالیٰ نے بہت سے انعامات سے نوازا ہے، انہیں میں سے ایک شب قدر ہے، اس شب میں اﷲ تعالیٰ نے اپنا کلام اتارا، اس کو ہزار مہینے کی راتوں سے افضل و اعلیٰ قرار دیا، غروب آفتاب سے طلوع فجرتک اس میں رحمتیں برستی ہیں، قدسی زمین پہ اتر کر امت محمدیہ کے عبادت گذاروں کو سلام کہتے ہیں، اور اس رات کو جاگ کر عبادت کرنے والا گناہوں سے ایسے پاک ہوجاتا ہے جیسے وہ ابھی پیدا ہوا ہے۔

اس رات کو شب قدر کہنے کی وجہ ذکر کرتے ہوئے مفسر قرآن امام قرطبی رحمۃ اﷲ علیہ تفسیر قرطبی پارہ نمبر 30 سورہ قدر آیت نمبر 2 کے تحت لکھتے ہیں: ’’اس رات کو شب قدر اسلئے کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے اس رات میں ایک بڑی قدر ومنزلت والی کتاب، بڑی قدر و منزلت والے نبیﷺ پر، بڑی قدر ومنزلت والی امت کیلئے نازل فرمائی ہے۔‘‘ دیگر مفسرین لکھتے ہیں کہ ’’قدر کا معنیٰ تنگی بھی ہے، تو چونکہ اس رات میں فرشتے اتنی کثرت سے زمین پر اترتے ہیں کہ زمین ان کیلئے تنگ پڑ جاتی ہے لہذا اسلئے بھی اس رات کو شب قدر کہتے ہیں۔‘‘ بعض مفسرین نے لکھا کہ قدر کا لفظ ’’قضاو قدر‘‘ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتاہے تو چونکہ فرشتوں کو اس رات سال بھر کے معمولات، وظائف وخدمات پر مامور کیا جاتا ہے یا پھر اس رات اعمال صالحہ منقول ہوتے ہیں اور بارگاہ خداوندی میں ان کی قدر ہوتی ہے اور انکے متعلق فیصلے ہوتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر بھی اس رات کو شب قدر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اس رات کی فضیلت کیا ہے؟ کتاب لاریب میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک ہم نے قرآن شب قدر میں اتارا، اور آپ کیا سمجھتے ہیں شب قدر کیا ہے، شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کیلئے اترتے ہیں، یہ رات سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔‘‘ جبکہ صحیح بخاری وصحیح مسلم کی کتاب الصوم میں رسول معظم نبی مکرم حضرت محمد مصطفیﷺ کا فرمان ہے: ’’جس نے اس رات میں ایمان و اخلاص کیساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی اﷲ تعالیٰ اسکے سال بھر کے گناہ بخش دیتا ہے۔‘‘

اب یہ بات تو قرآن مجید سے واضح ہوگئی کہ یہ رات رمضان المبارک میں ہے لیکن یہ رات کونسی ہے اس متعلق صحیح بخاری کتاب التراویح، باب لیلۃ القدر میں حدیث مقدسہ ہے: ’’شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ لہذا واضح ہوا کہ بعض اسرار وروموز اور وجوہات کی بنا پر شب قدر کا تعین قرآن وسنت میں واضح طور پر نہیں کیا گیا بلکہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ یہ آخری پانچ طاق راتوں میں سے کوئی ایک ہے۔

لیکن صاحبان علم وحکمت نے قرآن وسنت سے اشارۃ یہ ثابت کیا ہے کہ یہ رات ستائیسویں رمضان ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے: ’’لیلہ القدر کے حرف نو ہیں اور یہ لفظ اس سورہ میں تین مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، نو کو تین سے ضرب دیں تو ستائیس حاصل ہوتا ہے، پس یہ رات ستائیسویں ہے۔‘‘ دیگر کتب تفاسیر میں ہے ’’اس سورہ کے کلمات کی تعداد تیس ہے، اور جس کلمے سے اس رات کی طرف اشارہ کیا گیا یعنی ’’ھی‘‘ وہ ستائیسواں کلمہ ہے، اس لئے یہ رات ستائیسویں ہے۔‘‘ جبکہ مفسر صحابی حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں: ’’اﷲ تعالیٰ کا پسند یدہ عدد طاق ہے اور طاق میں سے سات کا عدد پسندیدہ ہے، یہی وجہ ہے کہ آسمانوں کی تعداد بھی سات ہے، زمینیں بھی سات ہیں، اعضاء سجدہ بھی سات ہیں، ہفتہ کے دن بھی سات ہیں، اور خانہ کعبہ کے طواف کے چکر بھی سات ہیں۔ سات کا عدد پسندیدہ ہے تو پھر یہ رات رمضان کے آخر ی عشرہ کی ستائیسویں رات ہے۔

اس رات کو اتنا مقام کیوں دیا گیا؟ کتب اسلام میں ہے ’’نبی اکرمﷺ نے اپنی امت کی عمروں کو مختصر پایا تو دل میں یہ پریشانی پیدا ہوئی کہ وہ ہ مختصر عمر میں اتنی عبادت نہ کر سکیں گے جتنی پہلی امتوں نے اپنی لمبی عمروں میں کی ہے۔ چنانچہ اﷲ رب العزت نے فورا وحی نازل فرمائی اور پیغام بھیجا: ’’اے حبیب پاک! آپ پریشان نہ ہوں آپ کی امت کی عمر بڑی نہیں تو کیا ہوا، ہم ان کا اجر بڑھا دیتے ہیں، ہزار ماہ کی لمبی عمر نہ سہی ہم انہیں ایک ایسی رات عطا کردیتے ہیں جو اس میں جاگ کر عبادت کرے اسکا اجر ہزار مہینے کی راتوں سے بھی زیادہ ہوگا۔ ‘‘

دعا ہے اﷲ تعالیٰ ہم سب کو رحمتیں سمیٹنے کی توفیق نصیب فرمائے اور اﷲ رب العالمین ہم سب کو اپنی اور اپنے پیاروں کی دنیا، قبر حشر کی منزلیں اور ابدی گھر یہ سب دین اسلام کی تعلیمات کیمطابق بہتر سے بہتر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین! والحمد ﷲ والصلوٰۃ والسلام علیٰ رسول اﷲ۔

 

Pir Mufti Usman Afzal Qadri
About the Author: Pir Mufti Usman Afzal Qadri Read More Articles by Pir Mufti Usman Afzal Qadri: 17 Articles with 15771 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.