سوشل میڈیا …… ناجائز کمائی کا ذریعہ

دُنیا میں پیسہ واحد ایک ایسی جادو کی چھڑی ہے کہ جس کے بل بوتے پر انسان وہ سب کچھ کرسکتا ہے جو اور کسی بھی ذریعہ سے ممکن نہ ہو ، روپیہ پیسہ کے حصول اور اُس کے کمانے میں پوری دُنیا آج کل جس طرح پاگل اور دیوانہ وار ہوکر پھر رہی ہے وہ محتاجِ بیاں نہیں ۔ روپیہ پر روپیہ اور پیسہ پر پیسہ کمانے کی ہوس ناک دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے سے آگے بڑھنا تقریباً ہر شخص کی زندگی حصہ بن چکا ہے ، اور اس کا جنون اس خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے کہ اس کے حصول کی خاطر انسان کچھ بھی کرسکتا ہے ، وہ دوسرے انسان کی قیمتی جان بھی لے سکتا ہے ، اپنا ایمان بھی بیچ سکتا ہے ، دوسرے کا ہستا بستا گھر بھی اُجاڑ سکتا ہے ، کسی پاک دامن کا دامن داغ دار بھی کرسکتا ہے ، جنسی بے راہ روی کا شکار بھی کرسکتا ہے ، ڈاکہ مارسکتا ہے ، ظلم ڈھا سکتا ہے ، دوسروں کے بچوں کو داغِ یتیمی دے سکتا ہے ، کسی کی خوش دامن کی زندگی کو بیوگی کا پیوند لگاسکتا ہے …… الغرض وہ گراوٹ اور پستی کی ہر ایسی سر حد عبور کرسکتا اور ہر ایسی پستی میں جاسکتا ہے جہاں نہ کسی کی عقل جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی کی سوچ پہنچ سکتی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سے جدید ٹیکنا لوجی نے کروٹ لی ہے ، دُنیا نے اپنے خفیہ بستہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے ، اور سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ نے ساری دُنیا کو گلوبل ویلج بنا ڈالاہے، تب سے انسان کی دسترس میں وہ سب کچھ آچکا ہے جس کا گزشتہ ادوار میں کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا ۔ انٹرنیٹ پر بیٹھ کر محض ایک کی پریس کرنے سے آج انسان وہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے بآسانی مشاہدہ کر سکتا ہے جس کی مثال آج سے پہلے تاریخ انسانی میں نہیں ملتی ۔ مشہور ہے کہ فارس کے باد شاہ جمشید کے پاس ’’جام جمشید‘‘ نامی ایک ایسا پیالہ تھا کہ جس میں وہ پوری دُنیا کے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرسکتا تھا ، لیکن اتنی بات میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آج کل کے جدید دور میں ’’ جام جمشید ‘‘ کو انٹرنیٹ سے اتنی مناسبت بھی نہیں کہ جتنی ایک طفل دبستان کو افلاطون سے ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا (فیس بک ، وٹس ایپ اور انٹر نیٹ وغیرہ) اور سب سے بڑھ کر موبائل اور کمپیوٹر یہ سب چیزیں فی نفسہٖ اچھی اور اﷲ تعالیٰ کی بے بہا نعمتیں ہیں ، لیکن اس وقت ان کا استعمال تقریباً 90 فی صد غلط طور پر ہورہا ہے ،بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ایسے میں اینڈرائیڈ موبائلوں نے جلتی پر تیل کا کام دیا ہے تو یقینا بے جا نہ ہوگا ۔ یہ ایک ایسا آلہ ہے جو اپنے صارف کو وہ سب کچھ ہر جگہ مہیا کرسکتا ہے جو کوئی بھی دُنیا کی دوسری چیز اُسے ہرگز مہیا نہیں کرسکتی۔

چند روز قبل ہندوستان کی ریاست حیدر آباد کی ایک رہائشی عورت نے اپنے شوہر کے خلاف کیس اندراج کرایا ، عورت کا مؤقف یہ تھا کہ اُس کے شوہر نے ہم دونوں میاں بیوی کی مباشرت کی ویڈیو بنائی ہے اور اُسے سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر اپلوڈ کیا ہے ۔ پولیس نے اُس کے شوہر کو گرفتار کیا اور اُس کے موبائل کا چیک اپ کیا تو اس سے اس ویڈیو کے علاوہ دوسری کئی ویڈیوز بھی سامنے آگئیں ،پولیس نے جب اپنی تفتیش کا دائرہ کار بڑھایا تو معلوم ہوا کہ واقعی سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ پر اس شخص کی سرگرمیاں مشکوک ہیں ، بلکہ بہت ساری فحش ویب سائٹس کے ساتھ اس کے کافی گہرے اور دیر پا روابط بھی موجود ہیں اور اس نے اپنے آپ کو ان فحش ویب سائٹس پر باقاعدہ رجسٹرد بھی کروا رکھا ہے ۔ پولیس نے جب اس کا بینک اکاؤنٹ چیک کیا تو پتہ چلا کہ ڈالرز اور پاؤنڈز میں پیسے بھی ٹرانسفر کئے گئے ہیں ۔ متأثرہ بیوی کا کہنا تھا کہ اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ میرے گھر میں ہورہا ہے ، بلکہ ہوا یہ تھا کہ ایک مرتبہ اُس کی ایک سہیلی نے اُسے اپنے گھر بلایا اور اس کے سامنے اُس کی اور اُس کی میاں کی مباشرت والی سیکسی فلم چلادی تب جاکر اُس کی آنکھیں کھلیں اور اُس نے تھانہ میں جاکر اپنے شوہر کے خلاف رپٹ دائر کروائی۔

اس واقعہ کے بعد حیدرآباد پولیس خوب الرٹ ہوگئی اور اُس نے مزید تفتیش کرتے ہوئے مزید ویب سائٹس چیک کیں تو معلوم ہوا کہ ہندوستان میں صرف یہ ایک شخص ہی نہیں بلکہ بیسیوں تیسیوں لوگ اس مکروہ اور گندے دھندے میں ملوث ہیں جو ملک کی نوجوان لڑکیوں ، بیوہ عورتوں اور نئے نئے اُبھرتے ینگ نوجوان لڑکوں ورغلا کر اور بہلا و پھسلا کر اس طرح کی سیکسی ویڈیوز بناکر فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ کررہے ہیں اور اس کے عوض وہ لاکھوں کروڑوں روپے کما رہے ہیں ۔ بلکہ یہاں تک دیکھنے اور سننے میں آیا ہے کہ خود میاں بیوی باہمی رضامندی سے اپنی ازدواجی زندگی کی اس طرح کی ویڈیوز بناکر فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ کرتے ہیں اور دھڑا دھڑا پیسے کمارہے ہیں۔

ضروری نہیں کہ اس قسم کا مکروہ دھندا نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی باہمی رضا مندی سے ہی پروان چڑھ رہا ہو بلکہ یہ بھی ہوتا آرہاہے کہ یہ ایک مخصوص گروہ ہے جو ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو ورغلا کر اور بہلا پھسلا کر اُن سے یہ مکروہ دھندا چلارہا ہے ، نیز یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر نوجوان لڑکا یا لڑکی اس دھندے میں براہِ راست ملوث ہوں ہوں بلکہ ان میں سے بہت سارے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد ایسی بھی ہے جنہیں لاعلمی اور غفلت میں ورغلا کر اس قسم کے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات اس طرح سے ورغلائے اور بہلائے پھسلائے گئے پاک دامن نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس لئے بھی تھانہ میں جاکر پولیس کے سامنے ان لوگوں کے خلاف رپٹ دائر نہیں کرواتے کہ کہیں وہ ان کی جنسی زیادتی والی ویڈیوز انٹر نیٹ اور۵ فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ ہی نہ کردیں ، تاہم کئی ایسے واقعات اور مشاہدات بھی دیکھنے کو ملے ہیں کہ ان تمام تر خطرات کو پش پشت ڈالتے ہوئے کئی ایک متأثرہ لڑکیوں نے اس قسم کا مکروہ دھندا چلانے والے گروہ کے خلاف پولیس کے یہاں رپٹ دائر کروائی ہے اور اپنے لئے انصاف مانگا ہے ۔

یہ صرف ہندوستان کے حالات نہیں بلکہ ہمارے اپنے ملک پاکستان میں بھی کئے ایک واقعات اس طرح کے سامنے آچکے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے پیسہ کمایا جارتاہے، چنانچہ قصور میں جنسی زیادتی کا ایسا ہی ایک واقعہ سنہ 2015 ء میں پیش آیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ وہاں ایک گروہ ہے جو نوجوان لڑکوں کو ورغلا اور بہلا پھسلا کر انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتا ہے اور پھر اُن کی اس طرح کی ویڈیوز کو فحش ویب سائٹس پر اپلوڈ کرکے لاکھوں اور کروڑوں روپے کماتا ہے ، اس بات علم جب میڈیا کو ہوا تو انہوں نے جنگل کی آگ کی طرح اس مکروہ دھندے کی خبر کو پھیلا دیا اور لوگوں کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں ۔

چند سال قبل اسلام آباد میں بھی اسی قسم کے ایک گروہ کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ ایک عورت اپنی سربراہی میں ایسا ہی ایک مکروہ دھندا چلانے میں ملوث ہے ، جو مختلف قسم کی لڑکیوں کو بہلا پھسلا کر لاتی اور انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بناتی ہے اور جاتے ہوئے انہیں اس طرح بلیک میل کرتی کہ نہ تو تم نے ہمارے اس دھندے سے کسی کو مطلع کرناہے بلکہ آئندہ کے بعد ہر ایک لڑکی نے ایک خاص مقررہ مدت تک ہمیں مزید دس دس لڑکیا ں بھی مہیا کرنی ہیں، اس طرح یہ دھندا دن دُگنی اور رات چگنی محنت کرکے خوب پھلتا پھولتا رہا اور حوا کی بیٹیوں کی عزتیں دن دیہاڑے نیلام ہوتی رہیں۔

یہ تو گنتی کی چند ایک مثالیں تھیں جو بطورِ نمونہ کے پیش کی گئی تھیں ورنہ اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس وقت جنسی بے راہ روی جیسے ناسور میں جس بری طرح سے عالم انسانیت عموماً اور عالم اسلام خصوصاً پھنس چکا ہے اس سے خلاصی کے دُور دُور تک کوئی نشانات نظر نہیں آرہے ۔ اس لئے اقبال کے شاہین بچوں اور بچیوں کے والدین سے میری یہ برادرانہ التماس ہے کہ وہ قدم قدم پر اپنی اولاد پر کڑی نگاہ رکھیں ، ان کے تابناک مستقبل کی حفاظت کو اپنا فرض سمجھیں ، بری جگہوں اور گندی مجالس میں اُٹھنے بیٹھنے سے اُن کو منع کریں ، انٹرنیٹ ، کیبل ، ڈش ، موبائل فون اور اس قسم کے دیگر تمام حیا سوز آلات سے ان کی زندگی کو داغ دار ہونے سے بچائیں کہ کل کے درخشاں اور تابناک مستقبل کے حقیقی معنوں میں معمار اور سرمایہ یہی ہمارے شاہین بچے ہیں جو ابھی عقل کے کچے ہیں۔

Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 254374 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.