آزاد جموں و کشمیر کابینہ نے اپنے اچانک غیر رسمی اجلاس
میں تعلیمی پیکیج کو اسمبلی میں لے جا کر تبدیلیوں کے اہتمام کا فیصلہ کیا
ہے کیونکہ پیپلزپارٹی نے اپنی حکومت میں قانون ساز اسمبلی کے اجلاس میں
تعلیمی پیکیج کی منظوری دے کر نافذ کیا تھا جسے ن لیگ کی حکومت نے تخلیق
کردہ تعلیمی اداروں اور آسامیوں کو ختم کرنے کا اپنی کابینہ میں فیصلہ کیا
تھا مگر اس کے خلاف پیپلزپارٹی نے عدالتوں سے رجوع کیا اور سپریم کورٹ میں
اپنے فیصلے میں تعلیمی پیکیج کو بحال رکھا تھا۔ اگرچہ قانون ساز اسمبلی کو
قانون منسوخ کرنے قانون میں تبدیلی کرنے کا کلیتاََ اختیار حاصل ہے مگر
آئین کے تحت شہریوں کو حاصل بنیادی حقوق سے متعلق کسی بھی حق کو جو حاصل ہو
جائے منسوخ یا تبدیل نہیں کیا جاسکتا اگر کابینہ پہلے ہی اسمبلی کے اندر یہ
معاملہ لے جاتی تو یقیناًوہاں اپوزیشن کے ساتھ لیکر ٹھوس جوازیت دلیل کی
بنیاد پر بات چیت سے ہی اس کا حل ہو جاتا مگر اس کے بجائے جارحانہ طرز عمل
اختیار کیا گیا اور اب پھر وہی کام کرنے جارہی ہے جو اسے آغاز میں کرنا
چاہئے تھا مگر اب نہ صرف بہت وقت ضائع کر چکی ہے بلکہ دوبارہ یہ مقدمہ
عدالتوں میں چلا جائے گا۔جس سے بچنے کیلئے ضروری ہے حکومت یہ معاملہ اپنی
اکثریت کے بل بوتے پر یکسو کرنے کے بجائے سارے ایوان کی متفقہ رائے سے حل
کر لے ، جس طرح اچانک کابینہ کا اجلاس ہوا ہے اسی طرح اچانک وزیر اعظم کو
کشمیری مہاجرین مقیم پاکستان کی نشستوں کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر کردہ
مقدمہ یاد آگیا جنہوں نے اعلان کیا حکومت اپنا موقف بارہ نشستوں کے حق میں
دیگی یہ نشستیں خطہ کشمیر کے مستقبل میں رائے شماری کے حوالے سے بہت اہم
اور ناگزیز ہے جن کو کسی صورت ختم نہیں کیا جا سکتا۔ایسے ہی آئینی قانونی
مقدمے کے حوالے سے ن لیگ کی حکومت کے قیام کے بعد سپریم کورٹ میں تاریخ پر
حاضری سے پہلے لیگی وکلاء سے پوچھا آپ کا اب موقف کیا ہو گا؟ ان کا کہنا
تھا پہلے اپوزیشن والا موقف تھا اب حکومت والا ہو گا۔ حکومت کی طرف سے
سپریم کورٹ میں پہلے والے لیگی وکلاء ہی پیش ہوئے اور ججز نے ان سے ان کے
پرانے موقف کے بارے میں پوچھ لیا تو پھر یہ کیا جواب دیں گے عدالت کے پاس
یقیناًگزشتہ سارا ریکارڈ موجود ہے اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ابراہیم
ضیاء سینئر جج راجہ سعید اکرم پر مشتمل دو رکنی بینچ 9 ء جون کو سماعت کا
آغاز کر رہاہے، عدالت العالیہ میں بھی ملازمتوں میں مہاجرین کے کوٹہ سے
متعلق رٹ پٹیشن دائر کی گئی ہے اور حکومت سے 21ء جون تک جواب طلب کر لیا
گیا ہے۔ کوٹہ سارے نظام میں احساس محرومی اور بہت بڑی خرابیوں کا موجب ہے ،
اگر سر اٹھا کر پورے اعتماد کے ساتھ نئی نسل نوجوانوں کو آگے بڑھنے کا
حوصلہ فراہم کرنا ہے تو اوپن میرٹ کا اصول سب کیلئے نافذ کرنا ناگزیز ہو
چکا ہے ،تاہم بارہ نشستوں سے متعلق حقیقی ایشوز کا حل سپریم کورٹ نے کر دیا
تو بہت بڑے مسائل کا خاتمہ ہو جائے گا جن میں آزاد حکومت اور کشمیر کونسل
کے فنڈز پر آزاد خطہ کی حدود سے باہر استعمال نیز مہاجرین کی ایک نشست پر
ایک لاکھ ووٹرز اور دوسری نشست پر صرف چار پانچ ہزار ووٹرز جیتنے والا
پندرہ اٹھارہ سو سے ممبر بن جاتا ہے ۔ یہ خود مہاجرین ممبران اور ووٹرز کے
ساتھ بھی بہت بڑی نا انصافی اور کھلا تضاد ہے ۔ ان نشستوں کے باوقار وجو
دکیلئے منصفانہ انتخابی طریقہ کار بہت ضروری ہے ۔پی پی کے صدر چوہدری لطیف
اکبر نے متناسب نمائندگی کا طریقہ کار اختیار کیا ہے جس کا مطلب یہی بنتا
ہے جس طرح مخصوص نشستیں اور کشمیر کونسل کے ممبران کیلئے انتخاب ہوتا ہے
وہی طریقہ کار اختیار کیا جائے ۔ لطیف اکبر نے اپوزیشن جماعت کی جانب سے
پری بجٹ پریس کانفرنس کی یہاں بھی روایت قائم کرتے ہوئے ذرائع آمدن بڑھانے
کیلئے زیادہ فنڈز مختص کرنے تعلیم صحت سیاحت ہائیڈل کو ترجیحات دینے لیپہ
نیلم ٹنلز کی تعمیر سمیت تمام سیکٹرز سے متعلق تجویز دیتے ہوئے حکومت
پاکستان سے نیلم جہلم کوہالہ ہائیڈل پراجیکٹس کے معاہدات نیز مستقبل میں
مظفرآباد شہر کو گٹر جیسی صورتحال سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کا مطالبہ
کیا ہے ، یہ بہت بڑا المیہ ہے جب یہ ہائیڈل پراجیکٹس شروع ہوئے تو کانفرنسی
حکومت نے سب کچھ چپ چاپ ہونے دیا اب میاں نواز شریف پراجیکٹس کا معائنہ
کرنے تو آتے ہیں مگر اس کے نتیجے میں یہاں کے ماحول کے لاحق سنگین خطرات
بلکہ واقعتا گٹر جیسی حالت کے یقینی عذاب سے بچانے کیلئے تاحال کسی پیش
بندی کا دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آرہا ہے اور دو جھیلوں کا شور غبار
ے میں ہوا بھر کرفضا میں چھوڑنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اگر مظفرآباد کے
عوام کو مستقبل کے خطرات سے محفوظ نہ کیا گیا تو اس کی ذمہ دار نواز شریف
حکومت واپڈا اور ساری قیادت ہو گی جسکے کیلئے سارے خطہ خصوصاََ ڈویژن
مظفرآباد کے عوام قیادتوں تاجروں ، علماء ، سول سوسائٹی ، میڈیا سمیت تمام
مکاتب فکر کو اپنی نسلوں کے محفوظ مستقبل کیلئے عملی کردار ادا کرنا ہو گا
حکومت پر سب کچھ چھوڑ کر سوئے رہے تو پھر جاگنے پر نالہ لئی ہی ملے گا اور
نئی نسلوں کے مجرم بن کر گند گی و کیچڑ بیماریوں وباؤں و بدبودار ماحول کے
بڑھتے ہوئے طوفان کا راستہ روکنے کیلئے متحد ہو کر گھروں سے باہر نکل کر
شعور و بیداری کی تاریخ رقم کرنا ہو گی ۔ جس طرح دارلحکومت بچاؤ تحریک کی
تاریخ رقم کی تھی ۔ ورنہ سب تاریکی میں چلے جائیں گے ۔ اور تاریخ جو نئی
نسلوں کا مستقبل ہوتی ہے کبھی معاف نہیں کرے گی۔ |