علامہ قمرالزماں خان اعظمی [سکریٹری جنرل ورلڈ اسلامک مشن،
لندن]
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ
عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔
اَیَّامًامَّعْدُوْدٰتٍ۔ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ۔ وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ
فَدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ط فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌلَّہٗ
وَاَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔ شَھْرُ
رَمَضَانَ الَّذِیْ ٓاُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُُدًی لِّلنَّاسِ
وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَالْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ
الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْعَلٰی سَفَرٍ
فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا
یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ
وَلِتُکَبِّرُوااللّٰہَ عَلٰی مَاھَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ
تَشْکُرُوْنَ۔[البقرۃ:آیت ۱۸۳۔۱۸۵]
اے اہلِ ایمان تم پر روزے اُسی طرح فرض کیے گئے ہیں جس طرح گذشتہ اُمَّتوں
کے اوپر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ، یہ روزے چند گنتی کے دن
ہیں ان دنوں میں اگر تم میں سے کوئی مریض ہوجائے یا سفر پر ہوتو وہ صحت یا
قیام کے دنوں میں اس تعداد کو پوری کرلے، جو لوگ استطاعت نہ رکھتے ہوں اُن
کے روزے کا فدیہ ایک مسکین کا کھاناہے لیکن اگر تم میں سے کوئی نیکی کے شوق
میں زیادہ کرے تو یہ اس کے حق میں بہت بہتر ہے، اور اگر تم روزہ رکھو تو یہ
اس سے بھی بہتر ہے اگر تمہیں علم ہو۔ رمضان کا مہینہ وہ مقدس مہینہ ہے جس
میں قرآنِ عظیم کے نزول کا آغاز ہوا، یہ قرآن لوگوں کا ہادی ہے اور ہدایت
کی روشن دلیلیں لے کر جلوہ گر ہوا ہے، یہ حق وباطل کے درمیان واضح تفریق
کرنے والا ہے۔ پس تم میں سے جو اس مہینے میں موجود ہو، وہ پورے ماہ کے روزے
رکھے اور جو بیمار ہویا حالتِ سفر میں ہوتو وہ بعد میں اس کی گنتی پوری
کرلے، اﷲ تمہارے لیے سہولتوں کو پسند فرماتا ہے دشواریوں کو نہیں، یہ حکم
اس لیے ہے کہ تم روزوں کا شمار مکمل کرلو اور اس احسانِ عظیم کے بدلے میں
کہ اس نے تم کو ہدایت دی ہے اُس کی بزرگی بیان کرو تاکہ تم شکر گذار بن جاؤ۔
نگاہِ قدرت میں روزے کی حیثیت: سیّدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت فرماتے
ہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا]حدیث قدسی[: انسان کے جملہ
اعمال اس کے لیے ہیں مگر روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا [یہ
میرا کرم اس کا بدلہ بن جائے گا] تم میں جو شخص روزہ دار ہو اُس کے لیے
ضروری ہے کہ نہ وہ فحش کلام کرے، نہ ناپسندیدہ کلمات زبان سے ادا کرے، نہ
کسی سے جھگڑا کرے اور اگر کوئی اُس کو گالی دے یا جھگڑے پر آمادہ کرنا چاہے
تو کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں۔ قسم ہے اُس ذاتِ پاک کی جس کے قبضے میں
میری جان ہے روزہ دار کے منھ کی خوش بو اﷲ رب العزت کو مشک سے زیادہ محبوب
ہے۔ روزہ دار کو دو مسرّتیں حاصل ہوتی ہیں: ایک افطار کے وقت اور ایک قیامت
کے دن جب وہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوکر اپنے روزے کی جزا پائے گا۔
یہ الفاظ بخاری شریف کے ہیں۔ اسی کی ایک اور روایت میں ہے کہ وہ میری وجہ
سے کھانا پینا اور دیگر خواہشات کو چھوڑتا ہے پس روزہ میرے لیے ہے اور میں
ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ ہر نیکی کا بدلہ دس گنا ہوتا ہے۔ مسلم شریف کی روایت
میں ہے کہ آدمی کے تمام نیک اعمال کا بدلہ دس گنا سے سات سوگنا تک ہے، لیکن
اﷲ رب العزت فرماتا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔
وہ اپنی خواہش اور خورد و نوش کو میرے لیے چھوڑتا ہے، اسے دو خوشیاں حاصل
ہوں گی ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے اﷲ سے ملاقات کے وقت۔ روزہ دار کے
منھ کی خوش بو اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں مشک سے بہتر ہے۔
جنت کا دروازہ: حضرت سہل ابن سعد رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم
سے روایت فرماتے ہیں کہ جنت میں ایک دروازہ ہوگا جس کا نام ’’ریان‘‘ ہوگا۔
اس دروازے سے صرف روزہ دار ہی داخل ہوں گے ، ان کے علاوہ اور کوئی داخل نہ
ہوگا۔ ان سے کہا جائے گا روزہ دارکہاں ہیں تو وہ کھڑے ہوجائیں گے۔ اُن کے
علاوہ اور کوئی بھی اس دروازے سے داخل نہ ہوگا اور جب وہ داخل ہوجائیں گے
تو دروازہ بند ہوجائے گا تا کہ کوئی اور داخل نہ ہوسکے۔
ستّر سال کی مسافت کی مقدار دوزخ سے دوری: حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہ
روایت فرماتے ہیں کہ جو شخص اﷲ کے راستے میں ایک روزہ رکھے گا اﷲ رب العزت
ایک دن کے بدلے ستّر سال کی مسافت کی مقدار اُس کو جہنم سے دور فرما دے گا۔
روزہ تمام گذشتہ گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ: سیّدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ: جو شخص ایمان و احتساب [طلبِ ثواب] کے لیے روزہ
رکھے گا اﷲ رب العزت اُس کے تمام گذشتہ گناہوں کو معاف کردے گا۔
[اخذ و ترجمہ از: ریاض الصا لحین للعلامہ نووی رحمۃ اﷲ علیہ]
٭٭٭
[ماخوذ: مقالاتِ خطیب اعظم،مرتب غلام مصطفی رضوی مطبوعہ رضا اکیڈمی ممبئی] |