رمضان کی نعمتیں او ر ہمارے اعمال

کھانا پینا اور آرام کرنا انسانی فطرت ہی نہیں ضرورت میں بھی شامل ہے ،اب ایسی صورت میں جب بندہ اپنی بھوک پیاس چھوڑ دے اور عیش و آرام تج کرخود کو اللہ کے حوالے کردے اور اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو غالب کردے، اپنی خواہشات کا گلاگھونٹ دے ۔تابعداری اور فرمانبرداری اسی کو کہتے ہیں ، صرف زبان سے اقرار کافی نہیں اورریاکارانہ اعمال و افعال کی تو اللہ کے یہاں کوئی وقعت ہی نہیں ، اس کے یہاں تو صرف خلوص اور وفاداری دیکھی جاتی ہے۔

رمضان المبارک اپنی بے شمار سعادتوں اور رحمتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہوچکا ہے ،ہر طرف نور ہی نور جگمگا رہا ہے لیکن اس نور کو دیکھنے کیلئے دیدہ ٔ بینا کی ضرورت ہوتی ہےاور یہ سعادت اسے حاصل ہوتی ہے جس کے من کے اندر وحدت و اخلاص اور عشق رسولؐ کا چراغ روشن ہو ۔ اس مہینے میںاللہ کی طرف سے برکتوں کا نزول اس تسلسل کے ساتھ ہوتا ہے کہ شاید ہی کوئی مومن ہو جو اس کی آمد اور اس کے جلو میں آنے والی برکات سے محروم رہ جائے ، اس کی عظمت و تقدس کا اندازہ اس طرح سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اس کے آتے ہی بڑے سے بڑے شرابی ، زناکاراور گنہگارو خطاکار خوف زدہ ہو جاتے ہیں اور جز وقتی ہی سہی ان میں سے بہت سے افراد اپنی بری عادتوں اور لتوں کو چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ہوجاتے ہیںاوربڑی حد تک یہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنےاندر خشوع و خضوع کی وہ کیفیت پیدا کرلیں ،جو خاص طور سے اللہ اور اس کے رسول ؐکو مطلوب ہیں ، اس ماہ مبارک کی شان و شوکت بھی قابل دید ہوتی ہےبس رمضان کا چاند دکھائی دیتے ہی چاروں طرف ایک نورانی منظر پھیل جاتا ہےاور ہر کوئی اس روحانیت بھرے ماحول سے حسب لیاقت مستفید ہوتا ہے۔جس طرح موسم بہار آتے ہی چاروں طرف ہریالیاں اور شادابیاںپھیل جاتی ہیں اور سارے پیڑپودے اس بہار سے اپنی اپنی لیاقت کے اعتبار سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ مولانا قاسم ناناتوی ؒنےیہی بات اس شعر کے ذریعے بڑی خصوبصورتی کے ساتھ کہی ہے ۔
نہ ہوئے نغمہ سرا کس طرح سے بلبل زار کہ آئی ہے نئے سر سے چمن چمن میں بہار
ہراک کو حسب لیاقت بہار دیتی ہے کسی کو سبزہ کسی کو گل اور کسی کو بار

مساجد اس طرح بھر جاتی ہیں کہ پہنچنے میں ذرا بھی تاخیر ہوئی تونماز کیلئے جگہ ملنی مشکل ہوجاتی ہے۔ آخر یہ کیفیت کیوں پیدا ہوتی ہے اور اس قدر خشیئت اور جذبہ ٔ فرمانبرداری ہم میں کیوں ابھر آتا ہے،کیا ہم نے کبھی اس پر غور کیا۔وجہ صاف ہے کہ اس ماہ مبارک کے تعلق سے ہمارے دلوں میں یہ یقین بیٹھ گیا ہے کہ یہ خالص اللہ کا مہینہ ہے، اس پر اللہ کا خاص لطف و کرم ہے اور یہ مہینہ اللہ کو اور اس کے رسول کوبے حد محبوب ہے ، بس اصل چیز یہی یقین ہے جو ہم سے وہ سب کچھ کروا لیتا ہے جس کے مکلف ہم عام دنوں میں نہیں ہوپاتے ، داد و دہش اور خیرات و صدقات کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے ، بہت سے لوگ تو اس بابرکت مہینے کے انتظار میں زکوٰۃکی ان رقومات کی ادائیگی بھی موقوف رکھتے ہیں، جس کی فرضیت کسی اور مہینے میں ہوئی ہو ، جبکہ اس تعلق سے علماء کہتے ہیںکہ جس شخص پر زکوٰۃ فرض ہوگئی ہے اور وہ مزید اجروثواب کی خواہش میں رمضان تک اسےروک لے پھر اسی حال میں اسکی موت ہو جائے تو ایسا شخص سخت گنہگار ہوگااور اس سے باز پرس کی جائے گی ۔

کھانا پینا اور آرام کرنا انسانی فطرت ہی نہیں ضرورت میں بھی شامل ہے ،اب ایسی صورت میں جب بندہ اپنی بھوک پیاس چھوڑ دے اور عیش و آرام تج کرخود کو اللہ کے حوالے کردے اور اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو غالب کردے، اپنی خواہشات کا گلاگھونٹ دے ۔تابعداری اور فرمانبرداری اسی کو کہتے ہیں ، صرف زبان سے اقرار کافی نہیں اورریاکارانہ اعمال و افعال کی تو اللہ کے یہاں کوئی وقعت ہی نہیں ، اس کے یہاں تو صرف خلوص اور وفاداری دیکھی جاتی ہے۔

اللہ کے رسول ؐنے خطبہ ٔ حجۃ الوداع کے موقع پر اسی اہم نکتے سے اپنی بات شرو ع کی تھی ، آپ نے فرمایا تھا کہ آج سے نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر نہ ہی کسی سرخ کو کسی سفید رنگت والے پر کوئی فوقیت ہے ، آج کے بعد سب برابر ہیں اور کسی کو کسی پر کوئی برتری نہیں ، ہاں بس ایک ہی وصف ہے جو تم کو ایک دوسرے سے ممتاز کرتاہے ،وہ ہے تقویٰ یعنی خوف الہٰی ،گویا جس شخص کے اندر جتنا ہی اللہ کا ڈر ہوگا اتنا ہی وہ صاحب عظمت اور برگزیدہ انسان ہوگا ۔ اس موقع پر اللہ کے رسولؐ نے یہ بھی ارشاد فرمایا تھا کہ زمانہ ٔ جاہلیت کی ساری ضلالتوں اور بدعتوں کو میں نے اپنے پیروں تلے کچل ڈالا ہے ، آج کے بعد ان بری رسموں اور روایتوں کے قریب بھی نہ جانا۔ قول رسول ؐکے واسطے سے کیا ہمیں اپنا جائزہ نہیں لینا چاہئے کہ سرور کائناتؐ کی اس تنبیہ پر ہم نے کتنا دھیان دیا ہے؟ کیا زمانہ ٔ جاہلیت والی وہ ساری رسمیں اور ضلالتیں پھر سے ہمارے درمیان دبے پاؤں نہیںچلی آئی ہیں اورہمارا حال یہ ہے کہ ان فتنہ پردازیوں کوہم سمجھ نہیں پاتے یا پھرسمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے ۔ظاہر ہے رمضان کے تعلق سے جب یقین جم گیا تو مساجد بھر گئیں ، صدقات و خیرات میں بارش کی کیفیت پیدا ہوگئی ،اوراس کا اجر بھی ہمیں ضرور ملے گا ، انشاءاللہ ۔لیکن ہم سے یہ نہیں کہا گیا ہے کہ تقوی ٰ اور فرمانبرداری کی یہ کیفیت تم سے صرف رمضان ہی میں مطلوب ہے ، باقی ایام میں مساجد ویران رہیں تو رہیں ، پڑوسی بھوک سے نڈھال رہے تو رہے ، انتہائی قریبی عزیز، بھائی بنداور خاندانی افراد کتنی بھی کس مپرسی کی حالت میں ہوں ، ہمیں اس سے کیا ؟ دوست احباب پھٹے حال ہوں ہماری بلا سے ۔قرآن میں کہا گیاہے کہ ناپ تول میں کمی نہ کریں اور خرید فروخت کے دوران لین دین درست رکھیں ۔امانتوں کا پوری طرح خیال رکھیں ، دوسروں کی حق تلفی نہ کریں ،تہواروں میںاپنی محفلوں کو چوری کی بجلی سے نہ روشن کریں ،لوگوںپرلفظوںکے تیر نہ چلائیں ۔ یہ وہ اوصاف ہیں جن سے معاشرہ میںبحالی ٔ امن کی راہ ہموار ہوتی ہے ۔اسی طرح اور بھی مختلف اعمال ہیں جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ،سرور کائناتؐ کی زندگی کے اوراق حقوق العبادکی تمام تر حوصلہ افزائیوں سے بھرے پڑے ہیں اور ہم ہیں کہ انہیں دریا برد کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔کیا ہم نے کبھی سوچا ۔

vaseel khan
About the Author: vaseel khan Read More Articles by vaseel khan: 126 Articles with 94763 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.