مشعال کا جب قتل ہوا تو یقینی طور پر یہ بہت بُری خبر تھی
اور اِس خبر نے حکمران اشرافیہ کی گُڈ گورنس کی قلعی کھول کر رکھ دی تھی۔
عبد الولی خان یونیورسٹی میں جو بھی عملہ تعینات ہے اُن میں یونیوسٹی کے
رجسٹرار سے لے کر نیچے تک وہ لوگ ہیں جو اپنی قابلیت کی بناء پر اِس اہل نہ
تھے کہ وہ اِن پوسٹوں پر کام کرتے۔ گویا کے پی کے کی اِس جامعہ میں سیاسی
بھرتیوں نے بیڑا غرق کر رکھا ہے۔ میں بوجوہ اِس حساس معاملے پر بہت زیادہ
کوشش کے باوجود قلم نہ اُٹھا سکا۔ پہلے پہل اِس کو مذہبی رنگ دیا گیا جو کہ
فلاپ شو ثابت ہوا پھر جیسے جیسے حقائق سامنے آتے چلے گئے تو حقیقت یہ کھلی
ہے کہ مثال خان چونکہ یونیورسٹی انتظامیہ کی ہر دو نمبری پر کھل کر بولتا
تھا اِس لیے اُس سے یونیورسٹی کا حرام خور عملہ تنگ تھا۔ یونیورسٹی میں
درحقیقت ایڈمنسٹریشن رجسٹرار کی ہوتی ہے۔ اِس واقعے کو جس طرح اُ چھالاگیا
یونیورسٹی کے بددیانت اور ناہل عملے کی جانب سے اِسے مذہبی رنگ دئے جانے کا
فعل ہی اب اُن کے گلے کا پھند بن گیا ، چیف جسٹس آف پاکستان کے از خود نوٹس
اور پھر جے آئی ٹی کی تشکیل کی وجہ سے جو حقائق سامنے آئے ہیں اُس کی بنیا
دپر یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ سب کچھ ایک سازش تھی اور اِس سازش کی بھینت
مثال خان کو چڑھا دیا گیا۔بقول فیض احمد فیض کہ کوئی بھی نہ سر اُٹھا کے
چلے۔آئیے اب ہم جائزہ لیتے ہیں اُس رپورٹ کا جو جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے
تیار کی ہے اور اِس ٹیم نے اُن تمام محرکات کا جائزہ لیا ہے جو اِس معصوم
نوجوان کے قتل کا سبب بنے۔مشال قتل کیس کے حوالے سے جے آئی ٹی کی انکوائری
رپورٹ مکمل ہو چکی ہے، مشال خان نے توہین مذہب نہیں کی تھی قتل منصوبہ بندی
کے تحت کیا گیا، یونیورسٹی کے رجسٹرار، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن، چیف سکیورٹی
آفیسر، پرووسٹ، ٹرانسپورٹ آفیسر، ڈائریکٹر سپورٹس او راسسٹنٹ رجسٹرار کو
قصور وار قرار دیا گیا ہے پرووسٹ جیسی اہم پوسٹ پر واپڈا کے سابق کمرشل
اسسٹنٹ کو تعینات کیا گیا تھا جبکہ پولیس نے بھی غفلت برتی جن کے کردار
جانچنے کے لئے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی بنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ تفصیلات یہ
ہیں کہ 13اپریل کو عبدالولی خان یونیو رسٹی کے شعبہ جرنلزم اینڈ ماس
کیمونیکیشن کے طالب علم مشال خان کی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قتل کی تفتیش
کرنے والی جے آئی ٹی (جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم) کی رپورٹ کے مطابق مشال خان
کا قتل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا، تیرہ رکنی جوائنٹ انوسٹی گیشن
ٹیم کی رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کئے گئے ہیں۔ لگ بھگ تین سو صفحات پر
مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشال خان کی سرگرمیوں سے مخصوص سیاسی گروہ
کو خطرہ تھا، مشال یونیورسٹی میں بے ضابطگیوں کیخلاف کھل کر بولتا تھا۔
رپورٹ کے مطابق مشال خان کے خلاف منصوبہ بندی کرکے غلط توہین رسالت کا
پروپیگنڈا کیا گیا اس کے خلاف توہین رسالت یا توہین مذہب کا کوئی ثبوت
موجود نہیں۔ جے آئی ٹی کے مطابق مخصوص گروپ نے توہین رسالت کے نام پر لوگوں
کو اکسایا، تشدد کے بعد مشال سے آخری بار ہاسٹل وارڈن کی بات ہوئی مشال نے
کہا کہ میں مسلمان ہوں، پھر کلمہ پڑھا اور ہسپتال پہنچانے کی التجا کرتا
رہا۔ رپورٹ کے مطابق مشال اور اس کے ساتھیوں عبداﷲ اور زبیر کے خلاف بھی
بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی شہادت موصول نہیں ہوئی۔ جے آئی ٹی کی تفتیش میں
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ رجسٹرار سے لے کر سکیورٹی افسر تک یونیورسٹی
میں نااہل سفارشی لوگ تعینات ہیں، سیاسی اور نااہل افراد کی بھرتی سے
یونیورسٹی کا نظام درہم برہم ہے۔ رپورٹ میں سابق پرووسٹ اور موجودہ
ٹرانسپورٹ آفیسر ابرار عمر زئی کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ وہ واپڈا میں
کمرشل اسسٹنٹ تعینات تھا تاہم سیاسی اثرورسوخ کے باعث اسے بغیر کسی تجربہ
یونیورسٹی کے پرووسٹ کے اہم پوسٹ پر تعینات کیا گیا۔ رپورٹ میں رجسٹرار
پروفیسر شیر عالم، ڈائریکٹر ایڈمنسٹریشن پیر اسفندیار خان، چیف سکیورٹی
آفیسر عنایت اﷲ آفریدی، پرووسٹ فیاض علی شاہ، چیف پراکٹر پروفیسر ڈاکٹر
ادریس، ڈائریکٹر سپورٹس محمد فاروق خان، ہاسٹل وارڈن علی نواز اور اسسٹنٹ
رجسٹرار ہمایوں افضل کی ذمہ داریوں پر سوالات اٹھائے گئے ہیں اور ان کو اس
واقعے کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی
میں منشیات اور اسلحہ کا استعمال اور طالبات کا استحصال عام ہے، یونیورسٹی
کے بیشتر ملازمین مجرمانہ ریکارڈ رکھتے ہیں۔ رپورٹ میں پولیس کی کارکردگی
سے متعلق انکشاف کیا گیا ہے کہ واقعہ کے دوران پولیس کی جانب سے بروقت
کارروائی نہیں کی گئی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ غفلت کے
مرتکب افسران اور اہلکاروں کی نشاندہی کر کے کارروائی کی جائے، رپورٹ کے
مطابق مشال خان کے خلاف لگنے والے الزامات کی بھی تفتیش کی گئی، بنک
اکاوئنٹ، ویسٹرن یونین کی منی ٹرانزکشن کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے خط
وکتابت کی گئی جبکہ کیش بک آئی ڈی کی بابت ابھی رپورٹ کا انتظار ہے جب کہ
اب تک کیس میں ملوث57 ملزموں میں 54گرفتار کیے گئے ہیں، جس میں 12
یونیورسٹی ملازمین شامل ہیں۔ علاوہ ازیں جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے مشال
خان کی قبر پر جاکر فاتحہ خوانی اور والد اقبال خان سے تعزیت کی جے آئی ٹی
کی رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی ممبران نے مشال
خان کے والد سے بیان ریکارڈ کرانے کے لئے ان کے گھر گئی جہاں انہوں نے مشال
خان کے والد سے تعزیت کی اور مشال خان کے قبر پر جاکر فاتحہ خوانی بھی کی۔
جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مشال خان ایک انتہائی ذہین طالب علم تھا۔
انسانی نفسیات خوب جانتا تھا لیڈر شپ کی خصوصیات کا حامل تھا اور یہی وجہ
تھی کہ یونیورسٹی کا تمام سٹاف اور قریباً سارے طلبائمشال خان کو جانتے تھے
وہ طلبا ء مسائل پر گہری نظر رکھتا تھا اور مسائل کی نشاندہی ببانگ دہل
کرتا تھا۔ دوسری طرف مشال خان قتل کیس میں مبینہ غفلت کے مرتکب پولیس
اہلکاروں کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے جبکہ ایف آئی اے حکام نے تاحال
مشال کے فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا اکاونٹس کے بارے میں کسی قسم کی رپورٹ
ارسال نہیں کی۔ ذرائع کے مطابق مشال خان کیس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ
مردان کے بعض پولیس افسران اور اہلکاروں نے انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا اور
مشال کو بچانے میں ناکام رہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی ویڈیو میں بعض
افسران نظر آتے ہیں۔ سنٹرل پولیس آفس ذرائع کے مطابق خیبر پی کے پولیس کے
اعلیٰ حکام نے غفلت کے مرتکب پولیس اہلکاروں کے خلاف انکوائری شروع کی ہے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے بتایاکہ انکوائری میں کسی بھی پولیس اہلکار یا
افسر کو قصوروار ٹھہرایا گیا تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ حکام
کے مطابق اب تک ہونے والی تفتیش کے مطابق مشال خان کے نام سے جعلی فیس بک
آئی ڈیز ان کے بہیمانہ قتل کے بعد بنائی گئی ہے تاہم اس کو بنانے والے
افراد کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق ابھی تک سائبر کرائمز
کے حوالے سے ایف آئی اے نے رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ
جو فیس بُک آڈیز مژال خان کے بتائے گئے ہیں وہ اۃص کے نہیں تھے۔نبی پاقکﷺ
کی ناموس کی خاطر پاکستان میں موجود قانون ہے ہی اِص لیے کہ اگر کسی کو کسی
پر اِص حوالے سے کوئی اعتراض ہے یا کوئی اِس جرم کا ارتکا ب کرئے تو اُس کے
لیے قانون فوری طور پر حرکت میں آئے اور ایسے شخص کو قانونی تحفظ دیا جائے
تفتیش ہو ، اُس کا عدالتی ٹرائل ہو ااور پھر حقائق سامنے آنے پر جو بھی
فیصلہ ہو۔ اِس رپورٹ کے مطابق پولسے مژال خان کو بچا سکتی تھی لیکن اُص نے
انتہائی غفلت کا مظاہرہ کیا۔ گویا ناموس رسالتﷺ کے قانون کی وجہ سے تو ایسے
شخص کی جان کو تحفظ تھا جس کے متعلق اِس طرح کی کوئی بھی شکایت تھی۔ لیکن
حکومتی نا اہلی کی وجہ سے بغیر تفتیش کیے یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے ذاتی
معا ملات کی خاطرمثال خان کو قتل کروادیا۔ حکمرانوں کی جانب جب قانون پر
عمل درآمد نہیں ہوگا تو پھر حالات ایسے ہی ہوں گے۔اِس حوالے سے یہ بھی عرض
ہے کہ مثال خان کے قتل نے یہ بات بھی ثابت کردی ہے کہ اگر قانون پر عمل ہو
تو کسی بھی بے گناہ کی جان کو بچایا جاسکتا ہے۔جو افراد اِس قتل پائے گئے
ہیں اُن کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ اور مذہب کی آڑ میں قانون کو ہاتھ میں
لینے والوں کے ساتھ سختی سے نبٹا جائے ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب قانون پر
عمل درآمد ہو ورنہ پھر قانون کو ہاتھ میں لینے کی توضیع سامنے آجاتی ہے۔
|