رمضان المبارک کامہینہ ہم پر پوری طرح سایہ فگن ہے اور
انتہائی تیزی کے ساتھ رخصت کی طرف رواں ہیں، رمضان المبارک اﷲ تعالیٰ کا
انعام ہے مسلمانوں پر، اس کو مہمان بھی کہا جاتا ہے، اگر کسی کے ہاں کوئی
مہمان آجائے تو وہ اس کی کس قدر مہمان نوازی کرتا ہے اور اس بات کا خوب
خیال رکھنے کی کوشش کر تا ہے کہ آیا ہوا مہمان کہیں ناراض نہ ہوجائے اور
کہیں ہماری بے عزتی نہ ہو جائے۔ٹھیک اسی طرح رمضان المبارک بھی ہم مسلمانوں
کا مہمان ہے اور ہم مسلمانوں کو اس مہمان کی خوب اچھی طرح مہمان نوازی کرنی
چاہیئے یہ مہمان آپ سے راضی ہو گیا تو آپ کامیاب ہوگئے،جس طرح عام مہمان کی
مہمان نوازی سے آپ دنیا میں اچھے مہمان نوازکے طور پر جا نے جاتے ہو اسی
طرح اﷲ کے اس مہمان کی مہمان نوازی سے آپ اﷲ کے در میں ایک بہترین کامیاب
انسان کے طورپرجانے جاؤگے، لیکن آج ہم نے اﷲ کے اس مہمان کے ساتھ وہ سلوک
رواں رکھا ہے جس سے اﷲ تعالیٰ کا یہ مہمان ہم سے ناراض ہو کر ہی جائیگا، اﷲ
تعالیٰ کے اس مہمان کی مہمان نوازی کیا ہے اس ماہ اﷲ تعالیٰ کی رضاء کیلئے
فرض روزہ رکھنا تراویح پڑھنا قرآن مجید کی تلاوت کرنا اﷲ تعالیٰ کی تسبیح
پڑ ھنا اور روزہ داروں کا احترام کرنا شامل ہے۔لیکن آج مسلمانوں میں یہ
تمام صفات ختم ہوتی جارہی ہیں،نہ ہی اﷲ کا خوف ہے،نہ ہی فرض روزہ رکھتے ہیں
اور نہ ہی دیگر روزہ داروں کا احترام کرتے ہیں روزہ داروں کا احترام صرف یہ
نہیں کہ صرف ان کے منہ پر ان سے کہہ دیا کہ آپ کا روزہ ہے ماشاء اﷲ بڑی ہمت
ہے اﷲ کامیابی عطاء کرے،ان کے اور بھی حقوق جو روزہ خور طلف کرنے میں مشغول
ہیں مثال کے طور پر کوئی روزہ خور کسی روزہ دار کے سامنے روزہ خوری کرتا ہے
تو یہ بھی روزہ دار کے ساتھ ظلم ہے۔
قارئین میں یہاں ایک واقعہ کو تحریر کرتا جاؤں احترام رمضان کا، بڑے بزرگ
اور علمائے دین فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں ایک ہندو نے اپنے بیٹے کو
مسلمانوں کے بازار میں تھپڑ مارا صرف اس لئے کہ اس کا بیٹا سرعام مسلمانوں
کے سامنے سیب کھا رہا تھا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ رمضان کے مہینے کا
احترام کرو اور مسلمانوں کے سامنے روزے کی حالت میں کچھ بھی نہ کھانا بزرگ
کہتے ہیں کہ جب یہ شخص مرگیا تو اس کی موت کے بعد کسی نے خواب میں اس کو
جنت میں دیکھا اور پوچھا کہ تم تو کافر تھے یہاں کیسے آئے اس شخص نے جواب
دیتے ہو ئے وہی تھپڑ والا واقعہ سنایا اور کہا اس وجہ سے اﷲ تعالیٰ نے مرنے
سے پہلے مجھے کلمہ طیبہ نصیب کیا اور میں مسلمان ہوکر دنیا سے آیا۔
اس دور میں جب کہ اسلامی معاشرہ میں لوگوں کی دین اسلام سے بیزاری عام
ہورہی ہے اوراسلام کی گرفت مسلمانوں پر کافی کمزور پڑگئی ہے ، مسلمانوں میں
خصوصاً نوجوان نسل میں روزہ خوری کی وبا عام ہوتی جارہی ہے اورشہر ودیہات
کی تفریق کے بغیر مسلم نوجوان رمضان کے تقدس اور روزوں کی حرمت پامال کرتے
ہوئے برملا کھاتے پیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ صورت حال بڑی تکلیف دہ اور شرم
ناک ہے۔
گزشتہ دنوں میرا بیٹا بیمار تھا جس کو میں نے عباسی شہید ہسپتال کراچی میں
ایڈمٹ کرایا تھا، اس کے ساتھ میں بھی تھا۔ تین دن تک ہسپتال میں یوں محسوس
ہورہا تھا کہ یا تو رمضان نہیں ہیں یا پھر ہم مسلمان نہیں ہیں، روزہ خوری
عام تھی شاد و نادر کسی کا روزہ ہوگا یہ بھی نہیں کہ یہ روزہ خور مریض تھے
یہ سب ہٹے کٹے نوجوان اور تندورست عورتیں اور آدمی تھے۔ لیکن اس طرح روزہ
خوری میں مصروف تھے کہ نہ اﷲ کا ڈر اور نہ ہی کسی روزہ دار سے شرم، اگر ان
کو کوئی کہے کہ اس طرح کھلے عام روزہ نہ کھاؤ شرم کرو تو جواب ملتا ہے کہ
ہم خدا سے نہیں ڈرتے تو انسانوں سے کیا شرمانا،
روزہ خوری بے غیرتی کی علامت ہے، جہاں مسلمانوں میں اس درجہ کی بے غیرتی
عام ہوجاتی ہے اور کھلم کھلا اﷲ تعالیٰ کے احکام کو پامال کیا جارہا ہو تا
ہے، تو وہاں کے نیک اور حساس مسلمانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ اس کے سدباب کی
کوشش کریں اور ایسے مجرموں اور اﷲ تعالیٰ کے باغیوں کے خلاف سخت اجتماعی
کارروائی کریں ، تاکہ وہ اس بے حیائی اور ڈھٹائی سے باز آجائیں اور پورا
معاشرہ اﷲ تعالیٰ کی گرفت سے بچ سکے۔روزہ خوری کی وباء میں تشویش نا ک حد
تک اضافہ اور حکومت وقت کا خاموشی اﷲ کی عذاب کو دعوت دے رہی ہے ۔ یہ حکومت
وقت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان روزہ خوروں کا لگام دئے کیوں کے پاکستان
ایک اسلامی ملک ہے ۔
ایسے لوگوں کا انجام آخرت میں بڑا درناک ہے ، جو اعلانیہ گناہ کرتے ہیں۔ اﷲ
کے حبیب ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ میری امت کا ہرشخص معاف کیا جائیگا
سوائے اعلانیہ گناہ کرنے والا (بخاری شریف و مسلم شریف)، کیوں کہ اعلانیہ
گناہ کرنے والا اپنے آپ پر گواہ بنا تا ہے جب کسی جرم کے گواہ موجود ہوں تو
اس مجرم کا بچنا ناممکن ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح جب کوئی روزہ خور سرعام روزہ
خوری میں مصروف ہو تو اس کو دیکھنے والا ہر شخص اس پر گواہی دیگا،جس کے بعد
اس شخص پر سخت عذاب نازل کیا جائیگا، حضرت ابوامامہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے
ہیں کہ میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں سورہا تھا،اس حالت
میں میرے پاس دو آدمی آئے، انہوں نے میرے بازو پکڑے اور ایک دشوار گزار
پہاڑ کے پاس لے گئے اور کہا کہ چڑھو، میں نے کہا کہ میں چڑھ نہ سکوں گا،تو
ان دونوں نے کہاکہ ہم آپ کے لئے اس(چڑھنے کے عمل) کو آسان کردیں گے(یعنی
پہاڑ کی چڑھائی میں مدد کریں گے) پھر میں چڑھا اور پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ
گیا، وہاں چیخ وپکار کی آواز آرہی تھی، میں نے سوال کیا کہ یہ آواز کیسی ہے؟
تو انہوں نے بتایا کہ یہ جہنمیوں کی چیخ وپکار ہے، پھر مجھے آگے لے جایا
گیا اور میں ایسے لوگوں کے پاس پہنچا جو الٹے لٹکائے ہوئے تھے‘ ان کے جبڑے
پھٹے ہوئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
فرماتے ہیں کہ میں نے سوال کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ تو کہا گیا کہ یہ وہ لوگ
ہیں جو روزہ حلال ہونے سے پہلے(یعنی دن میں) روزہ افطار کرتے تھے(یعنی
کھاتے پیتے تھے) (رواہ النسائی وابن ماجہ اوالحاکم و صحہ البانی فی صحیح
الترغیب:9492)
قارئین: اس حدیث رسول ﷺ سے اس بات کا اندازہ لگائیں کہ روزہ خور کا آخری
انجام کیا ہوگا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ جس نے رمضان المبارک میں بغیر کسی شرعی عذر روزہ نہیں
رکھاوہ ساری زندگی روزے رکھتا رہے اس کی تلافی نہیں کر سکتا (بخاری شریف)
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااﷲ ان لوگوں کو ہدایت دے جو رمضان میں روزوں کا
اہتمام نہیں کرتیں (آمین) |