قافلہ صدق ووفا کے سر خیل، عظیم المرتبہ صحابی رسول ،یارِ
غار رومزار حبیب کبریاء ،سسرِرسول اللہﷺ ،منکرینِ زکوۃ و ختم نبوت کے لئے
شمشیر بے نیام، خلیفہ بلافصل،خلیفۃ رسول اللہ ﷺ سیدنا ابو بکر صدیقؓ ذات
وکردار ،عزم و استقلال ،وفاداری و فدا کاری کا حسین مجموعہ تھے ،آپ کا نام
عبداﷲ، کنیت ابو بکر،لقب صدیق ،عتیق اور صاحب رسول اللہ ہے جب کہ والد کا
نام عثمان بن عامر بن کعب القرشی، کنیت ابو قحافہ اور والدہ محترمہ کا نام
ام الخیر بنت صخر بن عامر بن کعب تھا،آپ کا نسب عالی ساتویں پشت میں کعب بن
لوی پر آنحضرتﷺ کے ساتھ جا ملتا ہے ۔آپ رسول اللہ ﷺسے دو سال چھوٹے تھے،آپ
علم الانساب کے ماہر ،ضیافت اور مہمان داری میں اپنی مثال آپ ، سلیم الفطرت
، شجاع اور زیرک،پیشہ کے اعتبا ر سے تاجر تھے ،سب سے پہلے ایمان لانے والے
حضرت ابوبکر صدیق کے خاندان کو چار پشتوں تک صحبت رسول اللہ ﷺ سے بہرہ مند
ہونے کا شرف و اعزاز ہے ،جو صرف اور صرف آپ کا ہی خاصہ ہے۔
حضرت اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا ارشاد فرماتی ہیں کہ جب کفار نے
مسلمانوں پر ظلم و ستم کئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حبشہ کی
طرف ہجرت کا ارادہ سے نکلے تو برک غماد کے مقام پر قبیلہ قارہ کے سردار ابن
الدغنہ سے ملاقات ہوئی ،استفسار پر آپ نے ارشاد فرمایا " مجھے میری قوم نے
نکال دیا ہے ،میں چاہتا ہوں کہ میں زمین میں سیر و سیاحت کروں ،اور اپنے رب
کی عبادت کروں،" ابن الدغنہ نے کہا کہاے ابوبکر ! آپ جیسے لوگ نہ از خود
نکلتے ہیں اور نہ انہیں نکالا جاتا ہے،تم لوگوں کو وہ چیزیں مہیا کرتے ہو
جو ان کے پاس نہیں ہوتیں ،تم صلح رحمی کرتے ہو،لوگوں کے بوجھ اٹھاتے
ہو،مہمان نوازی کرتے ہو،اور جھگڑوں میں حق کی مدد کرتے ہو۔
بلا شبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خدمت اسلام اور رسول اللہ ﷺسے محبت
و وارفتگی کا استعارہ تھے ،آپ نے اپنا مال اللہ کی رضا اور اسلام و پیغمبر
اسلام کی مدد ونصرت کے لیے وقف کردیاتھا ،رسول اللہ ﷺ سے دوستی اور اعتماد
کا لازوال تعلق تھا ،اہل اسلام کے لیے مکی زندگی جو تکا لیف و مصائب سے
عبارت تھی ،یہی وجہ سے کہ دربار نبوی سے صدیق و عتیق کے لقب سے نوازے گئے ،حضرت
عروہ بن زبیر تابعی روایت فرماتے ہیں کہ میرے نانا حضرت ابوبکر رضی اللہ
عنہ نے جب اسلام قبول کیا تو اس وقت ان کے پاس 40 ہزار درھم تھے ،وہ ساری
رقم انہوں نے اللہ کے راستہ میں خرچ کردی ،اس رقم سے انہوں نے سات ان
مسلمان غلاموں کو آزاد کروایا جنہیں کفار اذیت دے رہے تھے ،جن میں سیدنا
بلال ، سیدنا عامر بن فہیرہ ،سیدہ زنیرہ ،سیدہ نہدیہ ا ور ان کی بیٹی ،سیدہ
ام عبیس اور بنو مومل کی بچیوں میں سے ایک بچی شامل تھی ۔
رسول اللہ ﷺ کی طرف سے جب مسلمانوں کو ہجرت مدینہ کی اجازت دی گئی توآپ رضی
اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرما کر روک دیا تھا کہ " آپ ٹھہر جائیں مجھے
امید ہے کہ مجھے بھی اجازت مل جائے"، آپ نے عرض کیا " میرے ماں باپ آپ پر
قربان! کیا آپ کو امید ہے؟ آپ نے فرمایا جی ہاں !۔
سو آپ رک گئے اور اپنی دو اونٹنیوں کو چار ماہ تک کیکر کے پتے کھلاتے
رہے،یہاں تک کہ ہجرت کی گھڑی آن پہنچی ،نبی اللہ اور ان کے یہ عظیم صحابی
تین دن تک غار ثور میں قیام پذیر رہے اس دوران عبداللہ بن ابوبکر اور عامر
بن فہیر آپ کی خدمت پر مامور رہے ،بنی عبد بن عدی کی شاخ قبیلہ بنی الدیل
سے ایک شخص کو بطور رہبر اجرت پر لیا گیا ، اور ساحل سمند رکے ساتھ سفر کو
جاری رکھا یہاں تک کہ مقام حرہ پر اہل مدینہ ان الفاظ کے ساتھ "
انطلقاامنینمطاعین "آپ دونوں بے خوف خطر تشریف لائیں ،آپ کی اطاعت کی جائے
گی "استقبال کررہے تھے ۔
حضرت ابوبکر صدیق شجیع اور فعال شخصیت کے مالک تھے ،غزوہ بدر سے لے کر غزوہ
تبوک تک ہر موقع پر رسول اللہ ﷺ کے عظیم سپاہی اور ماہر مشیر کی حیثیت سے
خدمات سرانجام دیں ،یہاں تک کہ غزوہ تبوک میں اپنا سارا مال فی سبیل اللہ
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا تھا۔نبی کریم ﷺ کے معتمد خاص ہونے کا
شرف بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حاصل تھا ،جس کا اظہار کئی موقع
پر فرمایا ،حج الوداع سے ایک سال پہلے آپ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیق کو امیر حج
کی حیثیت سے مکہ روانہ فرمایا تھا۔ مزاج نبوت کو سب سے زیادہ جاننے والے
سیدنا ابوبکر صدیق تھے ، سیدنابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں
کہ رسول اللہ ﷺ نے لوگو ں کو خطبہ دیا ،اس میں ارشاد فرمایا "اللہ تعالیٰ
نے اپنے ایک بندے کو دنیا میں اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے ، ان دونوں میں سے
کسی ایک کا اختیار دیا ہے ، تو اس بندے نے جو اللہ کے پاس ہے اس کو اختیار
کر لیا "(۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر رونے لگے ،ہمیں اس پر تعجب ہو ا ،لیکن بعد
میں واضح ہوا کہ وہ بندہ آپ ﷺ خود تھے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنی صحبت اور مال کے ذریعے مجھ پر ابوبکر کا
احسان سب سے زیادہ ہے،اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو اپنا دلی دوست بناتاتو
ابوبکر کو بناتا ، لیکن اسلامی اخوت ومحبت کافی ہے،دیکھو ! مسجد کی طرف
تمام دروازے بند کردیئے جائیں ،صرف ابوبکر کا دروزہ بند رہنے دو۔" (بخاری ،کتاب
فضائل اصحاب النبی )
حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں،جب نبی کریم ﷺ اس مرض میں
مبتلا ہوئے جس میں وصال ہوا ،تو سیدنا بلال نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر
ہوئے ،آپ نے فرمایا" مروا ابا بکر فلیصل بالناس "ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں
کو نماز پڑھائے "میں نے عرض کیا کہ " ابوبکر رقیق القلب ہیں،جب آپ کی جگہ
کھڑے ہوں تو رقت طاری ہونے کیوجہ سے رونے لگیں گے اور قرات نہیں کر سکیں
گے،آپ ﷺ نے دوبارہ یہی ارشاد فرمایا ،میرے دوبارہ عرض کرنے پر آپ ﷺ نے
تیسری یا چوتھی با ر ارشاد فرمایا کہ" تم تو یوسف علیہ السلام والی عورتیں
معلوم ہوتی ہو،ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے،چنانچہ حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ لوگوں کو نماز پڑھانے لگے۔(کتاب الاذان ،بخاری)
بلاشبہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اس امت میں سب افضل ،آپ کی سیرت
،مثالی اورپاکیزہ تھی ،موجودہ دور میں نبی کریم ﷺ سے محبت اور اسلامی
تعلیمات کے اسرار ورموز اسوہ صدیقی پر عمل پیر اہونے سے ہی حاصل ہو سکتے
ہیں۔
|