یورپی یونین کی پالیسی ۰۰۰ایران اور ترکی کے ساتھ !
یمن میں عبدربہ منصور ہادی حکومت کی بحالی اور استحکام کے لئے سعودی عرب کی
شاہی حکومت اہم رول ادا کررہی ہے۔ حوثی باغیوں کے خلاف جاری اس لڑائی میں
کئی ہزار یمنی شہری ہلاک ہوچکے ہیں ۔ سعودی فرمانروا و خادم الحرمین
الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے یمن کے صدر عبد ربہ منصور ہادی کو یقین
دلایا ہیکہ سعودی عرب یمن میں قیام امن ، استحکام اور آئینی حکومت کی بحالی
کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریگا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق گذشتہ دنوں صدر یمن
منصور ہادی شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے جدہ میں السلام شاہی محل میں ملاقات
کئے۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی ملاقات میں یمن کی
موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ یمنی صدر نے خادم الحرمین الشریفین اور
ان کی حکومت کی جانب سے یمنی حوثی باغیوں کے خلاف جاری آپریشن اور یمنی
عوام کی ہرممکن امداد پران کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔یمنی صدر اور شاہ سلمان
کے درمیان ہونے والی بات چیت میں یمن اور دیگر علاقائی اور عالمی امور
پربھی بات چیت کی گئی۔ملاقات میں سعودی وزیر مملکت ڈاکٹر مساعد بن محمد
العیبام سعودی انٹیلی جنس چیف خالد بن علی الحمیدان اور یمنی صدر کے ا سٹاف
افسر ڈاکٹر عبداﷲ العلیمی بھی موجود تھے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سعودی
عرب جس طرح یمن میں حوثی باغیوں کے حوصلے پست کرتے ہوئے انہیں گھٹنے ٹیکنے
کے لئے مجبور کررہاہے اس سے ایران اور دیگر شیعہ ملیشیا،سعودی عرب کے خلاف
ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں کے حوصلے بلند ہونے کی وجوہ میں ایک وجہ ایران کا
حوثی باغیوں کو تعاون فراہم کرنا ہے۔ جمہوریہ یمن مشرق وسطیٰ کا ایک مسلم
ملک ہے جس کا داراحکومت صنعاء ہے اس شہر پر حوثی باغی فبروری 2015سے قبضہ
کئے ہوئے ہیں۔جس وقت حوثی باغی صنعاء پر قبضہ کئے اسی وقت صدر یمن عبد ربہ
منصور ہادی نے اپنی جان بچاتے ہوئے دارالحکومت صنعاء سے یمن کے دوسرے شہر
عدن میں صدارتی انتظامات سنبھالے اور عدن کو یمن کا دارالحکومت بنانے کا
اعلان کیا۔اس کے بعد انہوں نے سعودی عرب کا رخ کیا اور وہاں پر سعودی
فرمانروا اور دیگر اسلامی ممالک کے سربراہوں سے تعاون کی درخواست کی۔ سعودی
عرب نے یمنی صدر منصور ہادی کی مدد کرتے ہوئے انہیں اقتدار پر برقرار رکھنے
ہر ممکنہ کوشش کررہا ہے۔ دوسری جانب ایران نے حوثی باغیوں کی حمایت کرتے
ہوئے کھل کر میدان میں قدم رکھا اور ساتھ ہی ساتھ حزب اﷲ نے بھی حوثیوں کی
مددجاری رکھے ہوئے ہے۔ یمن میں سعودی عرب کی قیادت میں حوثی باغیوں کے خلاف
کارروائیوں کے نتیجہ میں سعودی عرب کو بھی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ حوثی
باغی سعودی عرب کے سرحدی شہروں کو نشانہ بنانے کوششیں کررہے ہیں ۔ بیشتر
مشرقِ وسطی کے اسلامی ممالک سعودی عرب کے ساتھ مل کر یمنی صدر کو تعاون
فراہم کررہے ہیں۔ لیکن پاکستان اپنے آپ کو اس جنگ سے الگ رکھا ہواہے
پاکستانی وزیر دفاع کا کہنا ہیکہ دو مسلم گروپوں کے درمیان دخل نہیں دینی
چاہیے جبکہ اگر پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک مل کر حوثی باغیوں کے حوصلے
پست کرنے میں پہل کرتے تو شاید آج حالات مختلف ہوتے۔ ایران اور حزب اﷲ بھی
اب کھل کر سامنے آچکے ہیں شام کے حالات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لاکھوں
انسانوں کی ہلاکت اور بے گھر ہونے کے باوجود صدر شام بشار الاسد اقتدار کو
چھوڑنے کا نام نہیں لے رہے ہیں انکی ظالم فوج سنی مسلمانوں کے قتل عام میں
اہم رول ادا کررہی ہے۔ شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے بے دخل کرنے کیلئے
سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کی کوششیں جاری ہیں۔ اس کے باوجود بشارالاسد
اور انکی فوج مسلمانوں کے قتلِ عام کو کوئی اہمیت دیئے بغیر حملوں کے سلسلے
کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ایران اورروس کی جانب سے بشارالاسد کے اقتدار کو
بچائے رکھنے کے لئے دولت اسلامیہ اور دیگر سنی گروپوں پرفضائی کارروائی کے
ذریعہ بم برسائے جارہے ہیں۔ خلافت کا اعلان کرنے والی دولت اسلامیہ جوشام
اور عراق کے مختلف حصوں پر قبضہ کرنے کے بعد اپنی طاقت و قوت کے ذریعہ دنیا
کے دیگر شہروں و ممالک میں دہشت پھیلا رکھی ہے۔ شام، عراق،پاکستان، یمن،
سعودی عرب، عرب امارات، مصر وغیرہ میں دولت اسلامیہ کی جڑیں مضبوط نظر آتی
ہیں۔ شام کی خانہ جنگی میں لاکھوں انسانوں بشمول معصوم بچے و خواتین کی
ہلاکت کے باوجود عالمی سطح پر کوئی اہم پیشرفت نہیں ہوپارہی ہے۔ کبھی
امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک شامی صدر بشارالاسد کے خلاف صرف بیان بازی
کرنے پر اکتفا کررہے ہیں جبکہ روس کی جانب سے بشارالاسد کو مکمل تائید و
حمایت حاصل ہے۔یمن اور شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے سعودی عرب اور دیگر
اسلامی ممالک کی معیشت تباہی کی جانب رواں دواں ہے۔ سعودی عرب نے گذشتہ دو
سال سے اپنا بجٹ خسارہ میں بتارہا ہے۔ جبکہ سعودی عرب سے ہزاروں تارکین وطن
کو روزگار سے محروم کرکے انہیں انکے وطنوں کو واپس بھیس دیا جارہا ہے۔ اگر
شاہ سلمان بن عبدالعزیزواقعی ایک ہمدرد انسان ہیں تو انہیں اپنے ملک سے
واپس جانے والے ان بیروزگاروں پر نظر ڈالنی چاہئیے کہ انکے دل و دماغ کیا
سوچ رہے ہونگے جنہیں نوکریوں سے بے دخل کرکے ان کے وطنوں کو خالی ہاتھ واپس
بھیج دیا جارہا ہے۔ جس طرح یمنی صدر منصور ہادی اور شام کے باغیوں کی حمایت
و تعاون کو جاری رکھ کر بے دریغ دولت کے ذریعہ مغربی و یوروپی ممالک سے
ہتھیار حاصل کررہے ہیں۔ سعودی عرب کی یمن اور شام کے حوالے سے پالیسی کا
نتیجہ ہیکہ سعودی عرب کے مختلف شہروں میں دہشت گردوں نے کارروائیاں کرتے
ہوئے عبادتگاہوں کو نشانہ بنایا یہی نہیں بلکہ حرم نبوی ﷺ کی حرمت کو بھی
پامال کیا گیا۔ آج بھی سعودی عرب میں دہشت گرد اپنی کارروائیاں جاری رکھے
ہوئے ہیں جس کی مثال ذرائع ابلاغ کی اس رپورٹ سے دی جاسکتی ہے۔ سعودی عرب
کی سکیورٹی فورسز نے یمن سے سعودی عرب میں اسلحہ کی بھاری مقدار اسمگل کرنے
کی کوشش کوناکام بناتے ہوئے اسمگل شدہ اسلحہ قبضے میں لے لیا۔ عرب ٹیلی
ویژن کے مطابق یمن کی سرحد سے متصل جیزان کے علاقے میں ففوج کی المجاہدین
ایڈمنسٹریشن فورس کے ترجمان خالد قزیز کے مطابق حکام نے خفیہ معلومات کی
روشنی میں ایک مشکوک مقام پر چھاپہ مار کر اسلحہ اور گولہ بارود کی بھاری
مقدار ضبط کرلی۔ترجمان کاکہنا تھا کہ انہیں اطلاعات ملی تھیں کہ یمن سے
سعودی عرب میں اسلحہ کی اسمگلنگ کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حکام نے وادی ضمد
میں ایک چھاپہ مار کارروائی کے دوران بھاری مقدار میں آتشیں اسلحہ اور گولہ
و بارود قبضے میں لے لیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ تخریب کار عناصر سعودی عرب
میں اسلحہ کی اسمگلنگ کی کوشش کررہے ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائی کے
دوران مشتبہ اسلحہ اسمگلروں کے خلاف کارروائی کی کوشش کی گئی تھی تاہم وہ
فرار میں کامیاب ہوگئے۔ قبضے میں لیے گئے اسلحہ میں 100 پستول، اتنی تعداد
میں میگزین، اور 2969 پستول کی گولیاں شامل ہیں۔اس طرح دہشت گرد اپنی
کارروائیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔
یورپی یونین کی پالیسی ۰۰۰ایران اور ترکی کے ساتھ
یورپی یونین کے انرجی کمیشن نے جوہری توانائی کے شعبے میں ایران کے ساتھ
تعاون میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی یونین کے
انرجی کمشنر میگوئل آریس کانیٹے نے تہران میں پائیدار توانائی کے میدان میں
ایران اور یورپی یونین کے پہلے توانائی اجلاس میں کہا کہ ایٹمی معاہدے نے
ایران اور یورپی یونین کے درمیان تعاون کی زمین ہموار کر دی ہے۔انہوں نے
کہا کہ جامع مشترکہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے بعد ایران اور یورپی یونین
کے درمیان تجارت میں 79% اور یورپ کیلئے ایران کی برآمدات میں 300 گنا
اضافہ ہوا ہے۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ یورپی یونین اور ایران کے درمیان
پائیدار انرجی کے موضوع پر پہلے تجارتی اجلاس سے کلین انرجی کے میدان میں
ایران و یورپ کے درمیان رابطے کی زمین ہموار ہو گی۔یورپی یونین کی جانب سے
ایران کے ساتھ دلچسپی دکھائی جارہی ہے تو دوسری جانب ترکی کے ساتھ یورپی
یونین کی دوہری پالیسی بتائی جارہی ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب اردغان کا کہنا
ہے کہ یورپ کے دوہرے چہرے کے سامنے صبرکرنے کا پیمانہ اب لبریزہو چکا
ہے۔ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق انہوں نے استنبول میں ترک آجروں و صنعتکاروں
کی انجمن کی جنرل کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین
سلسلہ رکنیت مذاکرات میں ترکی سے ٹال مٹول سے کام لیتی چلی آرہی ہے ۔ رجب
اردغان نے یورپی یونین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ اگر آپ اس مسئلے کو حل
کرنا چاہتے ہیں توکریں، اس قوم کا بھی صبر کا ایک پیمانہ ہے۔ انہوں نے کہا
کہ اگر ضرورت پڑی تو پھر اس معاملے میں بھی ہم عوامی رائے سے رجوع کر سکتے
ہیں۔صدر نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ اندرون و بیرون ملک پر عزم طریقے
سے جاری رہے گی۔ ایران کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں مغربی ممالک
کا معیار دوہرا ہے۔ایرانی ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی وزیر دفاع جنرل حسین
دہقان کا کہنا ہیکہ دہشت گردی کے بارے میں مغرب کا معیار دوہرا ہے۔جنرل
حسین دہقان نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ اور مغرب کی موجودگی علاقے
کی اقوام کے مفاد میں نہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ ممالک سلامتی کو یقینی
بنانے کے لئے اس علاقے میں آئے ہیں لیکن وہ خطے میں بدامنی پیدا کرتے
ہیں۔انکا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو اچھی اور بری دہشت گردی میں تقسیم نہیں
کیا جاسکتا۔وزیر دفاع کا کہنا ہیکہ دہشت گردی کے بارے میں دوہرے معیار کا
استعمال امریکی مفادات کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک اور فلسطین
ترکی کے نائب وزیر اعظم نعمان قرتلمش کا کہنا ہے کہ القدس اور فلسطین کا
مسئلہ اسلامی مملکتوں کی اولین ترجیح کا حامل معاملہ ہونا چاہیے۔ترک ذرائع
ابلاغ کے مطابق 2017 سال القدس کے حوالے سے دو روزہ اجلاس کی افتتاحی تقریب
سے نائب وزیر اعظم نعمان قرتلمش نے خطاب کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ
اسلامی مملکتوں کی انتظامیہ اور عمومی سیاستدان القدس اور فلسطین کے
معاملات پر مطلوبہ سطح پر روشنی نہیں ڈالتی، بعض سرگرمیوں کی بدولت اس ضمن
میں خامیوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ فلسطین کا مسئلہ عالمی سطح پر اہمیت
کا حامل ہے کیونکہ یہودی جس طرح مسجد قدس کی حرمت کو پامال کرتے ہیں اور
فلسطینی عوام کی املاک پر قبضہ کرکے ان کے اوپر ہی ظالمانہ کارروائیاں کرتے
ہیں۔ غزہ کے مظلوموں پر اسرائیلی مظالم کا سلسلہ کئی برسوں سے جاری ہے ایک
طرف اسرائیلی حکومت اور فوج کی ظالمانہ کارروائیاں تو دوسری جانب غزہ سے
باہر جانے کے راستے مسدود کیا جانا ہے ۔
|