کون ہے جو معصوم طالب علم محمد شاہ کیلئے آواز اٹھائے گا
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
ہم فردوس چوک پشاور میں رہائش پذیر ہیں میرے والد مقامی مارکیٹ میں سولہ ہزار روپے میں چوکیدار کی حیثیت سے کام کررہے ہیں- ہمارے علاقے میں ایک بلڈنگ بن رہی ہیں چونکہ ہمارا گھر نیچے ہے اور بلڈنگ سے ہمارے گھر کی بے پردگی ہوتی ہیں اس لئے میرے والد نے بلڈنگ کے مالک کو شکایت کی کہ جب آپ کے مزدور آئے تو بتا دیاکریں تاکہ ہمارے گھر کی بے پردگی نہ ہو جس پر جرگہ بھی ہوا اور ابتداء میں بلڈنگ کے مالکان مان گئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد پھر یہی سلسلہ شروع ہوا تو میرے والد شکایت کرنے بلڈنگ میں گئے جہاں پر بلڈنگ میں کنسٹرکشن کرنے والے مزدوروں نے میرے والد کو مارا پیٹا اور پھر اس پر الزام عائد کیا کہ یہ بھتہ خور ہے - جس پر تھانہ ہشتنگری کی پولیس نے میرے والد کو گرفتار کرلیا ہے بقول تیرہ سالہ محمد شاہ کے مجھے نہیں پتہ کہ میرے والد پر کونسی دفعہ لگائی گئی ہیں اور کب میرے والد چھوٹ جائیگا |
|
|
معصوم طالب علم محمد شاہ |
|
وہ کرسی پر اکیلے بیٹھ کر عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھ
رہا تھا - ہاتھ میں اس کے کاغذ پکڑے ہوئے تھے اور ہر آنے جانیوالے کو امید
بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا- ابتداء میں اسے دیکھ کر میں سمجھا کہ پریس کلب
کے کسی ممبر کا رشتہ دار یا بیٹا ہے اس لئے توجہ نہیں دی- لیکن پھر اپنے
جسم پر محسوس ہونیوالی نامعلوم حدت کو دیکھتے ہوئے اس معصوم بچے کو دیکھا
کہ تو اس کی آنکھوں میں اداسی تھی- میں نے کاونٹر پر بیٹھے شخص سے سوال کیا
کہ یہ بچہ کون ہے تو اس نے بتا دیا کہ تیسری مرتبہ یہاں پریس کلب آرہا ہے
کوئی اس کی بات نہیں سن رہا- کیونکہ کچھ لوگوں کو دینے کیلئے اس کے پاس "
خرچہ پانی "نہیں. اس لئے کوئی اس کی بات نہیں سن رہا اور یہ بچہ مسلسل
تیسری دفعہ روز یہاں آکر درخواست لیکر آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے-مجھے
اپنے کچھ ساتھیوں کی بے حسی پر افسوس بھی ہوا اور میں نے اس بچے کو بلا کر
ساتھ بلا بٹھا لیا اور اس سے پوچھا کہ یہاں کیوں آئے ہو- توساتویں جماعت کے
طالب علم تیرہ سالہ محمد شاہ نے عجیب سے کہانی سنا دی-
ہم فردوس چوک پشاور میں رہائش پذیر ہیں میرے والد مقامی مارکیٹ میں سولہ
ہزار روپے میں چوکیدار کی حیثیت سے کام کررہے ہیں- ہمارے علاقے میں ایک
بلڈنگ بن رہی ہیں چونکہ ہمارا گھر نیچے ہے اور بلڈنگ سے ہمارے گھر کی بے
پردگی ہوتی ہیں اس لئے میرے والد نے بلڈنگ کے مالک کو شکایت کی کہ جب آپ کے
مزدور آئے تو بتا دیاکریں تاکہ ہمارے گھر کی بے پردگی نہ ہو جس پر جرگہ بھی
ہوا اور ابتداء میں بلڈنگ کے مالکان مان گئے تھے لیکن کچھ عرصہ بعد پھر یہی
سلسلہ شروع ہوا تو میرے والد شکایت کرنے بلڈنگ میں گئے جہاں پر بلڈنگ میں
کنسٹرکشن کرنے والے مزدوروں نے میرے والد کو مارا پیٹا اور پھر اس پر الزام
عائد کیا کہ یہ بھتہ خور ہے - جس پر تھانہ ہشتنگری کی پولیس نے میرے والد
کو گرفتار کرلیا ہے بقول تیرہ سالہ محمد شاہ کے مجھے نہیں پتہ کہ میرے والد
پر کونسی دفعہ لگائی گئی ہیں اور کب میرے والد چھوٹ جائیگا لیکن چونکہ میں
گھر کا بڑا ہوں اس لئے اب یہاں پر درخواست لیکر آیا ہوں کہ کوئی میری خبر
ہی شائع کردے تاکہ میرے بے گناہ باپ کیلئے کوئی آواز اٹھائے کیونکہ نہ تو
ہمارے پاس وکیل کیلئے پیسے ہیں -آنکھوں میں اداسی کے دریا لئے اس معصوم
طالب علم کی ہمت کی انتہا تو یہ ہے کہ اپنے والد کے گرفتار ہونے کے بعد
مقامی مارکیٹ میں صبح آٹھ بجے سے رات نو بجے تک چوکیدار کی حیثیت سے کام
کرنے پر مجبور ہے-اور اب اپنے سے چھوٹے تین بھائیوں اور والدہ کی ذمہ
داریوں کو نبھانے کی کوشش کررہا ہے-
نوشو بابا کے علاقے میں رہائش پذیر معصوم طالب علم کے والد کی جرم کی نوعیت
کیا ہے اس بارے میں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن کیا اس معاشرے میں
بھتہ خوری چوکیدار کرتے ہیں اور سولہ ہزار روپے ماہانہ لینے والے چوکیدار
کی اتنی ہمت ہوتی ہے کہ ایک بلڈنگ کے مالک سے بھتہ طلب کرے - کہنے والے بہت
کچھ کہیں گے لیکن کیا اس معاشرے میں اپنے ساتھ ہونیوالی زیادتی پر آواز
اٹھانا بے وقوفی ہے - کیا محکمہ پولیس نے تحقیقات مکمل کرلی ہیں کہ چوکیدار
کو بھتہ خور کے الزام میں گرفتار کرلیا -کیا اس ملک میں غریب کی کوئی حیثیت
نہیں- پیسہ اور طاقت رکھنے والے لوگ جو بھی کہہ دیں وہی قانون ہے اور انہیں
سپورٹ کرنے والا بھی قانون ہی ہے-رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں سخت
گرمی میں چوکیداری کرنے والا یہ معصوم بچہ آج اگر گھر کی ذمہ داریوں کی وجہ
سے کام کرنے پر مجبور ہیں تو کیا اس کے معصوم ذہن میں یہ بات نہیں ہوگی کہ
میرا جرم کیا ہے ، جس کی سزا مجھے مل رہی ہیں-
قانون کی رکھوالی کرنے والے کیا اتنے اندھے ہیں کہ انہیں سچ اور جھوٹ کی
سمجھ نہیں آرہی کیا یہ معصوم بچہ جھوٹ بول سکتا ہے اور کیا جن لوگوں نے اس
خاندان کیساتھ ہونیوالی زیادتی پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں انہیں یہ یقین ہے
کہ یہ عمل ان کیساتھ زندگی میں نہیں آسکتا- صحافیوں سے لیکر قانون نافذ
کرنے والے اور لوگوں کو انصاف فراہم کرنے والے وکلاء صرف چند لمحوں کیلئے
آنکھیں بند کرلیں اور اپنے بچوں کو اس بچے کی طرز پر سوچیں-پھر ضمیر اس
بارے میں آپ کو کیا کہتا ہے وہی کریں- ویسے یہ بات یقینی ہے کہ آج اگر کوئی
صرف اللہ کی خاطر اس معصوم کیلئے آواز اٹھائے گا تو میرا ایمان ہے تو وہ رب
جو سب کا ہے مشکل وقت میں غیب سے آپ کی دستگیری کرے گا- ہاں جن لوگوں نے اس
معصوم بچے اور ان کے خاندان کو اس مشکل کا شکار کردیا ہے کیا وہ اللہ تعالی
کے اس نظام کو بھول گئے ہیں کہ آج تم دوسروں کیلئے مشکل پیدا کررہے ہوں تو
کیا کل آپ کی باری بھی نہیں طآسکتی -سو سوچ لیں-
یہ قصہ صرف ایک طالب علم محمد شاہ کا نہیں اس جیسے کتنے ہی ہیں جو ہمارے آس
پاس خوار ہورہے ہیں لیکن کوئی انہیں توجہ نہیں دے رہا -اٹھئیے رمضان
المبارک کے بابرکت مہینے میں اس عزم کا اظہار کریں کہ ظلم کے خاتمے کیلئے
اپنی سی کوشش کریں گے خواہ آپ کی کوشش کسی کو اس ظلم کے بارے میں معلومات
کی فراہمی ہی کیوں نہ ہو-
|
|