زندگی کو جینا مشکل اور بسر کرنا زیادہ آسان ہے۔ قدرت
زندگی کو بسر تو کروا ہی لیتی ہے لیکن جینے کے لیے بہت سا ہنر سیکھنا پڑتا
ہے۔ سب سے بڑا ہنر جو ہم سیکھ سکتے ہیں وہ خوش رہنے کا فن ہے۔ ایک دفعہ
خلیل جبران کا بہت ہی اچھا جملہ نظر سے گزرا جو کی کسی بھی لمحے ویران اور
مایوس زندگی میں ایک جان ڈال دیتا ہے وہ یہ ہے کہ،
"اگر آپ نے زندگی میں خوش رہنے کا فن سیکھ لیا تو یقین مانو دنیا کا سب سے
بڑا فن آپ نے سیکھ لیا"
وقت دراصل زندگی کے نشیب و فراز کا ہی مجموعہ ہے۔ ہر گزرتے سیکنڈکے ساتھ
انسان لا تعداد تغیر و تبدل کا شکا ر ہوتا ہے۔اس عمل میں انسان کے چاہنے
اور نہ چاہنے کا عنصر شامل نہیں ہے۔ جب اللہ نے وقت کو پیدا کیا تو اسی وقت
انسان ایسےوقت کے قفس میں قید کر دیا تو ساتھ ہی رب تعالٰی نےایک سپلیمنٹ
کے طور پے ایک لا ءف سیونگ ڈرگ بھی متعارف کروا دی جس کا زندگی میں کبھی نہ
کبھی انسان استعمال ضرور کرتا ہے۔ اور وہ ڈرگ امید کی ہے۔ عموماہم یہی سنتے
آۓ ہیں کہ انسان ہارتا تب ہے جب وہ اندر ہارتا ہے اور یہی وہ اندر کی ہار
ہی امید کے ٹوٹنے کا نام ہے۔
ایک دفعہ کسی جگہ ایک جملہ پڑھا تو احساس ہوا کہ ہماری زندگی کس چیز کے گرد
گھومتی رہی ہے۔اور وہ جملہ یہ تھا کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جاۓ کہ کل کو
ہماری موت ہو جانی ہے تب بھی اپنا آج کا کام مکمل کر کے سونا چاہیے، یہی وہ
توکل ہے جو امید کی طرف اٹھنے والا پہلا اور مضبوط قدم ہے۔ آجکل ہم انسان
کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتے ہوں امید کا بہت ہی عمل دخل ہے، مثلا کسی
فیکٹری مالک کو اپنی پروڈکشن سے منافع کی امید ، کسان کو فصل میں بیج بونے
کے بعد پھل کی امید ، مریض کو دوائی کھانے کے بعد صحتیاب ہونے کی امید ،
طالب علم کو محنت کے بعد اچھے گریڈز کی امید ۔ اگر ہم امید کے عنصر کو شامل
نہ بھی کریں تب بھی ناکامی اور کامیابی کا انحصار کسی بھی کام کے کرنے والے
کی نیت پر ہوتا ہے۔چنانچہ زندگی کو االلہ نے ایسے دکھ اور سکھ کے ایسے تانے
بانے میں پرویا ہے کہ جس میں امید ہی دراصل بسر کی جانے والی زندگی کو جینے
والی زندگی میں بدلا جا سکتا ہے۔ |