آزاد کشمیر،پاکستان میں '' ادارہ اخلاقیات و تہذیب'' کی ضرورت

آزاد کشمیر میں سوشل میڈیا کے غلط استعمال کے خلاف قانون سازی سے پہلے ہی آزاد کشمیر میں سوشل میڈیا کے منفی استعمال پر کاروائی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔سوشل میڈیا پہ بد زبانی،بیہودہ پوسٹس،غلط الزامات اورکردار کشی،بلیک میلنگ کرنے کے الزامات میں دونوں گرفتاریاں میرپو ر میں ہوئی ہیں۔گرفتار ہونے والے دونوں افراد سے پولیس کی تفتیش جاری ہے ۔پہلی گرفتاری چند روز قبل اور دوسری دو ،تین روز قبل عمل میں لائی گئی۔ذرائع کے مطابق پولیس کو دونوں گرفتار ملزمان کے خلاف شکایات کی درخواستیں دی گئی تھیں۔یہ آزاد کشمیر میں سوشل میڈیا کے حوالے سے ہونے والی پہلی دو گرفتاریاں ہیں۔ دلچسپ امر ہے کہ گرفتار ہونے والے دونوں افراد جعلی صحافی ثابت ہوئے ہیں۔ان دونوں گرفتاریوں سے لوگ سوشل میڈیا پر کمنٹس اور اپ ڈیٹس کرنے میں محتاط ہوتے جار ہے ہیں۔

آزاد کشمیر حکومت کی طرف سے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی ہدایت پر ان دنوں سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کی تیاریاں جاری ہیں اور وزیر اطلاعات مشتاق منہاس اس سلسلے میں قائم کی جانے والی کمیٹی کے چیئر مین ہیں۔اطلاعات کے مطابق ابھی تک اس قانون کا مسودہ تیار نہیں ہوا ہے۔آزاد کشمیر میں سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کی اطلاعات سامنے آنے پر آزاد کشمیر میں اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اس کے ذریعے آزای اظہار ،آزادی صحافت پر کسی قسم کی قدغن نہیں لگنی چاہئے۔تشویش کے اظہار پر وزیر اطلاعات مشتاق منہاس نے یقین دہانی کرائی کہ سوشل میڈیا سے متعلق نئے قانون میں آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر کوئی پابندی نہیں لگائی جائے گی۔اس صورتحال میں اس بات کی ضرورت شدت سے معلوم ہوتی ہے کہ آزاد کشمیر میں اخلاقیات اور تہذیب سکھانے کے ادارے قائم کئے جائیں تا کہ لوگ نا صرف سوشل میڈیا بلکہ ملنے جلنے ،بات چیت کرنے میں بھی اخلاقیات اور تہذیب کا استعمال کرسکیں۔آزاد کشمیر حکومت کو چاہئے کہ سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر میں اخلاقیات اور تہذیب سکھانے کے سرکاری ادارے بھی قائم کئے جائیں۔اس کے کئی اقسام کے فوائد بھی تو دیکھیں،دس اضلاع ،کم از کم دس ادارے،ایک ادارے میں کتنی بھرتیاں ہو سکتی ہیں،پھر ہر تحصیل مطالبہ کرے گی کہ ان کی تحصیل میں بھی اخلاقیات اور تہذیب سکھانے کا ادارہ قائم کیا جائے،پھر ہر یونین کونسل سے بھی ایسے ہی مطالبات سامنے آئیں گے،ذراسوچیں، کتنے لوگ ایڈجسٹ ہو جائیں گے۔پھر ہم فخر سے پاکستان سے مطالبہ کر سکیں گے کہ ایسے ادارے پاکستان میں بھی قائم کئے جانے کی اشد ضرورت ہے اور پاکستان میں ایسے ادارے قائم کرانے کے لئے ہمارے ہی ماہرین کی خدمات وفاقی سطح پہ حاصل کی جائیں گی۔پھر ، اخلاقیات اور تہذیب آئے یا نہ آئے لیکن'' فیر موجاں ای موجاں شام سویرے موجاں ای موجاں''۔

کیا یہ اشتہار دے دوں کہ آزاد کشمیر کے تمام اضلاع سے '' ادارہ اخلاقیات و تہذیب'' کے ادروں کے لئے موزوں امیدواران سے درخواستیں مطلوب ہیں،این ٹی ایس کی طرز پر امیدواران کا ٹیسٹ و انٹرویو لئے جانے کی تجویز بھی زیر غور ہے ، اور یہ کہ اس نوزائیدہ ادارے کو سرکاری ادارہ قرار دینے کی فائل وزیر اعظم کو منظور ی کے لئے ارسال کر دی گئی ہے ،لہذا قوی امید ہے کہ بھرتی ہونے والے امیدواران جلد ہی سرکاری ملازم بن جائیں گے۔اور ہاں اشتہار میں یہ بھی شامل ہے کہ خواتین کے لئے پچیس فیصد،علماو مشائخ کرام کیلئے ایک فیصد،ٹیکنوکریٹ کے لئے ایک فیصد،بیرون ملک مقیم کے لئے ایک فیصد اور مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کے لئے بارہ فیصد کوٹی مختص ہے۔

اشتہار منجانب۔ڈائریکٹر جنرل ادارہ اخلاقیات و تہذیب ( جلد) حکومت آزاد ریاست جموں و کشمیر
ضروری نوٹ( مجھے پوری امید ہے کہ آزاد کشمیر کا کوئی شخص میرا یہ آئیڈیا لے کر کل سے ہی ایسا ادارہ بنانے کی کاروائی شروع کر دے گا)

Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 768 Articles with 609921 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More